سپریم کورٹ نے ریکوڈک منصوبے سے متعلق صدارتی ریفرنس پرسماعت مکمل کر لی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ صدرمملکت نے ریکوڈک معاہدے کے قانونی چینلجز پر رائے مانگی ہے، عدالت صدارتی ریفرنس پر رائے میں بنیادی حقوق کے معاملے پر محتاط رہے گی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ریکوڈک کیس میں حقیقت یہ ہے کہ پاکستان پر کئی ارب ڈالر کا جرمانہ ہے، ریکوڈک معاہدے میں وفاقی حکومت نے آئین وقانون کی پاسداری کی، خوشی ہے ریکوڈک معاہدے میں بین الاقوامی معیار کی پاسداری کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ریکوڈک ریفرنس میں کسی جانب سے معاہدے کو غیرقانونی نہیں کہنا خوش آئند ہے، تمام وکلا اس بات پر رضا مند ہیں کہ ریکوڈک شفاف اور عوامی معاہدہ ہے۔
عدالتی معاون سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کے تیار کردہ بین الاقوامی سرمایہ کار ایکٹ 2022 پر معاونت کروں گا، سرمایہ کاری ایکٹ 2022 سے پروجیکٹ سائٹ کو’ایکسپورٹ پروسیسنگ زون‘ ڈکلیئر کیا جائے گا۔
سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے قوانین پاکستانی قانون کا حصہ نہ ہونے کے سبب لاگو نہیں ہوتے، مزدوروں کے حقوق سمیت تمام معاملات بین القوامی معیار کے مطابق ہوں گے، وفاقی حکومت کو ہدایت دی جا سکتی ہے کہ ریکوڈک کان کے مزدوروں کو وہ تنخواہیں دے۔
عدالتی معاون نے کہا کہ یہ ظاہر ہے کہ ریکوڈک معاہدے سے ملک کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، عدالت کو ریکوڈک معاہدے کی تفصیلات پر رائے دینے کو نہیں کہا گیا، عدالت ریکوڈک معاہدے میں فریق نہیں کہ اس پر مہر لگائے، معاہدے کی ملکیت سیاسی قیادت کے پاس ہی رہنی چاہیے۔
جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہا کہ اگر صدر پالیسی معاملات پر رائے مانگیں تو کیا سپریم کورٹ دینے سے انکار کر دے؟
سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ سپریم کورٹ پالیسی معاملات پر رائے سے احتراز برت سکتی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ شق در شق ریکوڈک معاہدہ نہیں دیکھ رہی، ریکوڈک معاہدے میں قانون و آئینی خلاف ورزی پر سپریم کورٹ رائے دے سکتی ہے۔
سپریم کورٹ ریکوڈک منصوبے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلہ اگلے ہفتے سنائے گی۔
Comments are closed.