کیا آپ جانتے ہیں کہ گنبد خضراء یعنی سبز گنبد، ہمیشہ سے سبز نہیں تھا بلکہ مختلف ادوار میں اس کی تزئین و آرائش کا کام ہوتا رہا ہے۔
یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ حدیث نبویﷺ کی روشنی میں قبروں کو پختہ کرنے کی ممانعت ہے تو سرورِ عالم حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو پختہ کیوں بنایا گیا؟
اس سوال کے جواب سے پہلے ایک اور حدیث نبویﷺ کو مدنظر رکھا جائے کہ کسی بھی نبی کا مدفن وہی جگہ بنتی ہے جہاں وہ دنیا سے پردہ فرماتے ہیں۔
اسی حدیث کی تعمیل میں آپﷺ کا روضہ مبارکہ حجرۂ عائشہ میں بنایا گیا، جو پہلے ہی تعمیر شدہ تھا، گویا کہ آپ کی قبرِ اطہر پر دفن کے بعد کوئی تعمیر نہیں ہوئی بلکہ عمارت کی بقا کے لیے اسی عمارت کو پختہ کیا گیا جس کی اجازت ہے۔
اس پر گنبد بنانا مختلف ادوار میں آنے والے مسلمان حکمرانوں کا فعل ہے جس کا ادب تمام امت مسلمہ پر عائد ہوتا ہے۔
پہلی مرتبہ گنبد کی تعمیر سلطان مصر الملك المنصور سيف الدين قلاوون نے کی۔
سلطان چونکہ مصر سے تھے اور یہ فن تعمیر وہاں بہت مقبول تھا اس لیے سلطان مصر نے جب روضۂ رسول ﷺ پر حاضری دی تو انہوں نے گنبد بنانے کا فیصلہ کیا۔
سلطان نے مصری معماروں کی خدمات حاصل کیں جنہوں نے اپنے ہنر کو کام میں لاتے ہوئے 678 ہجری بمطابق 1279 میں حجرہ مبارکہ پر سیسہ پلائے ہوئے لکڑی کے تختوں کی مدد سے خوبصورت گنبد بنایا جو لکڑی کے اصل رنگ میں موجود تھا۔ اس وقت یہ’ قبۃالصفراء‘ کے نام سے مشہور ہوا۔
بعدازاں 1481 میں آتشذدگی کے باعث گنبد مبارک شہید ہوگیا تھا۔
مصر کے اٹھارویں سلطان ابوالناصر سیف الدین الشرف قطبی نے اپنی زیر نگرانی گنبد کی ازسرنوع تعمیر کروائی، گنبد کی تعمیر میں لکڑی کے ساتھ اینٹوں کا بھی استعمال کیا گیا۔
مزید برآں، اندرونی چیمبر کی متاثرہ دیواروں کو بھی دوبارہ تعمیر کیا گیا اور مزید کسی حادثے سے بچنے کے لیے لیڈ پلیٹ کا استعمال کیا گیا۔
اس وقت اس گنبد پر سفید اور نیلا رنگ کیا گیا تو یہ ’قبۃ البیضاء‘ یعنی سفید گنبد کہلانے لگا۔
کئی صدیوں تک یہ گنبد عاشقان رسولﷺ کی آنکھوں میں ٹھنڈک پہچاتا رہا پھر مختلف حاکم وقت نے اپنے اپنے ادوار میں گنبد کی تزئین و آرائش اور مرمت کا کام کرتے رہے۔
بعدازاں 886 ہجری میں مؤذن آذان کی غرض سے منارہ رئیسہ پر گئے، جو موجودہ گنبد خضرء سے کچھ فاصلے پر قائم ہے، چونکہ اس وقت مائک وغیرہ کا کوئی نظام نہ تھا اور اس وقت مطلع ابر آلود تھا کہ اچانک بجلی منارہ رئیسہ پر گری اور مؤذن بھی شہید ہوگئے۔
دریں اثناء منارہ رئیسہ مسجد نبوی قدیم کی طرف آ گرا جس سے آگ لگ گئی ساتھ ہی گنبد کو بھی نقصان پہنچا جبکہ کچھ ملبہ حجرہ اقدس میں گر گیا۔
فوری طور پر تعمیری خدمت انجام دی گئی مگر جب سلطان قایتبائی کو اس حادثے کا علم ہوا تو انہوں نے 100 معمار فوری مصر سے روانہ کئے۔
سلطان کے حکم سے اس گنبد کو ہٹا دیا گیا اس کی جگہ 892 ہجری میں ایک نیا گنبد تعمیر کیا گیا جو صدیوں تک قائم رہا ۔
پھر عثمانی سلطان محمود بن سلطان عبدالحمید خان اول نے قایتبائی سلطان کا بنایا ہوا گنبد شہید کروا کر از سر نو 1233 ہجری بمطابق 1818 کو نیا گنبد تعمیر کروایا اور 1837 میں عثمانی سلطان کے حکم پر اس پر سبز رنگ کروایا گیا، جسے آج گنبد خضراء کے نام سے ہم جانتے ہیں۔
Comments are closed.