دنیا بھر میں آج ( 2 نومبر کو) صحافیوں کے خلاف جرائم کیلئے استثنیٰ کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔
اس موقع پر کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے مطابق گزشتہ 10 سال کے دوران قتل ہونے والے 81 فیصد صحافیوں کے قتل میں کسی کو بھی ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) کے مطابق 2022 میں ابتک 60 صحافیوں اور میڈیا ارکان کا قتل ہوا ۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے مطابق 1993 سے اب تک دنیا بھر میں 1564 صحافی مارے گئے۔ اس فہرست میں تازہ ترین اضافہ کینیا میں مارے جانے والے پاکستان کے معروف صحافی ارشد شریف کا ہوا ہے، جنہیں غیر معمولی حالات میں قتل کر دیا گیا۔
دوسری جانب آج کے دن کی مناسبت سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں یورپین خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل اور یورپین کمشنر برائے اقدار و شفافیت ویرا جورووا نے کہا ہے کہ صحافی ہماری آنکھیں اور کان ہیں جو تنازعات کے علاقوں سے رپورٹنگ کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ زمین پر جو کچھ ہورہا ہے اپنی رپورٹ کے ذریعے اس کا حساب دینے کے لئے وہ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔
ان کی خبریں اور تصاویر مسلح تنازعات کے نتائج پر فیصلہ کن اثر ڈال سکتی ہیں، اس لیے مسلح تصادم میں ان کے کام کو جان بوجھ کر روکا جاتا ہے۔
دونوں راہنماؤں نے واضح طور پر کہا کہ بطور عام شہری، صحافیوں کے خلاف جان بوجھ کر حملوں کی ہدایت کرنا جنگی جرم ہے۔
مشترکہ اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ جنگی علاقے واحد جگہیں نہیں ہیں جہاں صحافیوں پر حملے ہوتے ہیں۔
دنیا بھر میں صحافیوں کو اپنے کام میں بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا ہے وہ نفرت انگیز جرائم کا شکار ہیں، آن لائن ہراساں کیے جاتے ہیں، اسپائی وئیر کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہاں تک کہ قتل کردیا جاتا ہے۔
دونوں راہنماؤں نے مزید کہا کہ EU خطرے سے دوچار صحافیوں کے نیٹ ورکس کی حمایت کرتا ہے۔
Comments are closed.