وفاقی وزیر خرم دستگیر نے کہا ہے کہ عمران خان کے خلاف بینرز لگوانے سے میرا کوئی تعلق نہیں، بینرز پر جو تحریر ہے وہ میں بول دیتا ہوں، گھڑی چور، توشہ خانہ چور، میں کہتا ہوں جو کچھ کرسکتا ہے کرلے۔
خرم دستگیر نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ گوجرانوالہ نوازشریف کاقلعہ ہے، ضلعی انتظامیہ کی بھرپور مذمت کرتا ہوں جنہوں نے شہریوں کے لگائے بینرز اتارے، گوجرانوالہ کے شیروں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے فتنہ عمرانی کو مسترد کیا، گوجرانوالہ کے شہریوں نے ہردور میں اپنی رائے نواز شریف کےحق میں دی۔
خرم دستگیر نے کہا ہے کہ ان کاروباری خضرات سے بھی اظہار یکجہتی کرتے ہیں جن کے کاروبار بند ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس فسادی مارچ کی ساری پزیرائی بھارت میں ہو رہی ہے، یہ اب فسادی مارچ بن چکا ہے، جیسے یہ مارچ رینگ رہا ہے لگتا ہے اس کے اسلام آباد پہنچنے تک انتخابات کی تاریخ آجائے گی۔
خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ جب سے پنجاب میں فسادی حکومت آئی یہاں اسکول اور اسپتال برباد ہو رہے ہیں،آج صبح ایک اور کارکن ٹرک سے گر کر وفات پاگیا ہے، اس سے قبل بھی صدف اس فسادی ٹرک تلے آکر کر جاں بحق ہوگئی۔
اُن کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے شہریوں کے جان و مال اور کاروبار کی حفاظت وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے، اسلام آباد میں وفاقی اداروں کی حفاظت، وفاق کی ذمہ داری ہے، اگراسلام آباد میں یہ امن قائم رکھیں گے تو آجائیں لیکن یہ اسلام آباد میں امن قائم کرنے نہیں آ رہے۔
خرم دستگیر میڈیا ٹاک میں کہا ہے کہ فسادیوں کے صدر کی زبان پر ہر وقت دھمکی ہوتی ہے، آرمی چیف کی تعیناتی سے قبل بھی اس فسادی نے اسلام آباد میں حملہ کیا تھا، ہم اپنی آئینی مدت پوری کریں گے جو 12 اگست 2023 تک ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کیوں پنجاب اسمبلی اور خیبر پختونخواہ اسمبلی کو تحلیل نہیں کر رہے، ملک میں یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ اس وقت ملک میں ٹینشن ہے، ملک میں اگر تناؤ ہےتو وہاں ہے جہاں سے یہ لانگ مارچ گزر رہا ہے۔
خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دوستوں سے جو تعلقات عمران خان نے تباہ کیے وہ شہباز شریف بحال کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کومارشل لاء سے فرق نہیں پڑتا، ہم کو اس سے فرق پڑے گا، اگر ملک میں امن اور ٹھہراؤ ان کا ایجنڈا ہے تو بات کر لیں۔
واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں خرم دستگیر کی زبان پھسل گئی ہے۔
معروف اینکر پرسن حامد میر کے شو کیپٹل ٹاک میں بیٹھ کر خرم دستگیر بینرز پر بات کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں اِدھر ہم بینرز لگا رہے تھے اور اُدھر پولیس اتار رہی تھی۔
Comments are closed.