جمعہ یکم ربیع الثانی 1444ھ28؍اکتوبر 2022ء

پاکستانی بچے غذائی قلت اور موٹاپے کا شکار، عالمی ادارہ صحت

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ پاکستانی بچے غذائی قلت اور موٹاپے دونوں کا شکار ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے پاکستان میں نمائندہ ڈاکٹر پالی ماہی پالا نے جمعرات کو اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں جاری لائف اسٹائل میڈیسن کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  غیر صحت مندانہ طرز زندگی کے باعث ایک طرف لاکھوں پاکستانی بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ دوسری جانب 6 سے 8 فیصد اسکول جانے والے بچے موٹاپے اور وزن کی زیادتی کا بھی شکار ہیں۔

 ڈاکٹر ڈاکٹر پالی ماہی پالا نے کہا کہ اسی طریقے سے پاکستان میں تقریباً 50 فیصد خواتین غیر صحت مندانہ طرز زندگی اور ورزش نہ کرنے کے سبب موٹاپے کا شکار ہو کر غیر متعدی امراض میں مبتلا ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک دہائی میں ہمارا طرز زندگی انتہائی حد تک تبدیل ہوا ہے اور جسمانی جمود کے نتیجے میں دنیا بھر میں غیر متعدی امراض میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا ہے۔

پاکستان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر ایک طرف بچوں میں غذائی قلت بڑھتی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف غیر صحت مندانہ طرز زندگی کے نتیجے میں بچوں میں موٹاپا بڑھتا جارہا ہے جس کی وجہ سے وہ ذیابطیس اور دل کے امراض کا بہت چھوٹی عمر میں شکار ہو رہے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کی ایک حالیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں سالانہ ساڑھے 5 کروڑ افراد جاں بحق ہوتے ہیں جن میں سے 4 کروڑ 10 لاکھ یا تقریبا 70 فیصد غیر متعدی امراض بشمول دل کی بیماری، ذیابطیس، ہائی بلڈ پریشر، کینسر اور دیگر بیماریوں کی پیچیدگیوں کے نتیجے میں جاں بحق ہو رہے ہیں۔

سگریٹ نوشی کو غیر متعدی امراض کی جڑ قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پچھلی صدی میں تمباکو نوشی کے نتیجے میں تقریباً 10 کروڑ افراد ہلاک ہوئے لیکن خدشہ ہے کہ اس صدی میں تمباکو نوشی کے نتیجے میں ایک ارب افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کو لائف اسٹائل میڈیسن کانفرنس کے انعقاد پر مبارک باد دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت اور صحت سے وابستہ اداروں کو غیر متعدی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے کام کرنا ہوگا تاکہ آنے والی نسلوں کو غیر متوقع اموات اور معذوریوں سے بچایا جا سکے۔

رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے چانسلر حسن محمد خان کا کہنا تھا کہ اس وقت صحت اور عوام کے علاج معالجہ کے اخراجات برداشت کرنا دنیا کی طاقتور ترین معیشتوں بشمول امریکہ اور برطانیہ کے لیے بھی ناممکن ہوتا جا رہا ہے جب کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں پر صحت کے لیے محض 2 فیصد رقم مختص کی جاتی ہے وہاں آنے والے دنوں میں بیماریوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کا صرف اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔

شیخ زاید ہسپتال لاہور کی ایک ریسرچ کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی آلودگی کے نتیجے میں لاہور کے شہریوں کی اوسط عمر اسلام آباد میں رہنے والے افراد سے آٹھ سال کم ہے، پاکستانی افراد اور اداروں کو ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

رفاہ انسٹیٹیوٹ آف لائف اسٹائل میڈیسن کی ڈائریکٹر ڈاکٹر شگفتہ فیروز کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ 17 سال سے ایسا کلینک چلا رہی ہیں جہاں پر مریضوں کو ادویات کے بجائے صحت مندانہ طرز زندگی اختیار کر کے بیماریوں سے نجات دلائی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لائف اسٹائل میڈیسن اب ایک باقاعدہ سائنس ہے اور طریقہ علاج پر امریکہ کی نامور یونیورسٹیوں بشمول ہارورڈ یونیورسٹی میں تحقیق کے بعد ایسے پروگرام بنائے گئے ہیں جس کے ذریعے مریضوں کو بہتر خوراک، ورزش، پرسکون نیند پر آمادہ کر کےاور منشیات سے نجات دلا کر ان کی ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا علاج کیا جا رہا ہے۔

نامور فارماسسٹ اور پاکستان سوسائٹی آف ہیلتھ سسٹم فارماسسٹس کے جنرل سیکرٹری سید جمشید احمد کا کہنا تھا کہ کراچی میں حال ہی میں قائم ایک ادارے عہد میڈیکل سینٹر نے ایک ایسا پروگرام متعارف کرایا ہے جس کے نتیجے میں دل، شوگر اور بلڈ پریشر کے مریضوں کو بہتر زندگی کے ذریعے اپنی بیماریوں کو کنٹرول کرنا سکھایا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سالانہ اربوں روپے کی ادویات مختلف امراض کے علاج کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں جب کہ بیماریوں کا حجم بڑھنے کے نتیجے میں علاج معالجہ اکثر پاکستانی مریضوں کے بس میں نہیں رہا۔

انہوں نے کہا کہ ان حالات میں صحت مند طرز زندگی اپنا کر نہ صرف غیر متعدی اور متعدی امراض سے بچا جاسکتا ہے بلکہ دل کے دورے پڑنے کے خطرات کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر بیماریوں بشمول فالج کے خطرات کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔

تیسری تین روزہ بین الاقوامی لائف اسٹائل میڈیسن کانفرنس کا انعقاد رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی نے پاکستان ایسوسی ایشن آف لائف سٹائل میڈیسن کے تعاون سے کیا ہے اور اس کانفرنس میں پاکستان بھر سے ماہرین کے علاوہ غیر ملکی ماہرین بھی شرکت کر رہے ہیں۔

کانفرنس سے عالمی ادارہ صحت کے پاکستان میں نمائندے ڈاکٹر پالیتھا ماہی پالا کے علاوہ رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے چانسلر حسن محمد خان، وائس چانسلر پروفیسر انیس احمد، رفاہ انسٹیٹیوٹ آف لائف اسٹائل میڈیسن کی ڈائریکٹر ڈاکٹر شگفتہ فیروز، نامور فارماسسٹ سید جمشید احمد، ڈاکٹر مبشر بھٹی، اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے صدر احسن ظفر بختاوری سمیت ملکی اور غیر ملکی ماہرین صحت نے بھی خطاب کیا۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.