بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

عدالت میں شہباز گِل کی میڈیکل رپورٹ پڑھ کر سنائی گئی

اسلام آباد ہائی کورٹ میں افواجِ پاکستان کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے الزام میں گرفتار پی ٹی آئی رہنما شہباز گِل کے مزید جسمانی ریمانڈ کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران ان کے وکیل نے اپنے مدعی کی میڈیکل رپورٹ پڑھ کر سنائی۔

قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے درخواست کی سماعت کی۔

عدالت نے سوال کیا کہ کیا آئی جی اسلام آباد اور تفتیشی افسر ریکارڈ کے ساتھ موجود ہیں؟

آئی جی اسلام آباد، اڈیالہ جیل انتظامیہ اور ایڈووکیٹ جنرل عدالت میں پیش ہو گئے۔

ایڈووکیٹ جنرل بیرسٹر جہانگیر جدون نے عدالت کو بتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے سیشن جج کے خلاف دھمکی آمیز بیان دیا گیا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے عمران خان کے بیان پر عدالت سے نوٹس لینے کی استدعا بھی کی۔

شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کے بیان پر دہشت گردی کا مقدمہ درج ہو گیا ہے، قانون اپنا راستہ خود اپنائے گا۔

قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اس بیان کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں۔

شہباز گِل کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شہباز گِل پر بدترین تشدد کیا گیا، ملزم قانون کا فیورٹ چائلڈ ہوتا ہے۔

عدالت نے کہا کہ یہ ریمانڈ کا واحد کیس نہیں، اس کے بعد ریمانڈ کے کتنے کیس آنے ہیں، ہم نے دیکھنا ہے کہ ایسی کوئی عدالتی نظیر نہ بنائیں کہ کل کو عدالتی نظام جام ہو جائے، ورنہ کل کو ہائی کورٹ صرف ریمانڈ کے کیسز ہی دیکھ رہی ہو گی۔

قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پراسیکیوشن کا رویہ شہباز گِل کی گرفتاری سے ہی جارحانہ ہے، آپ ایف آئی آر اور کوئی غیر قانونی بات ہوئی ہے تو وہ بتا دیں۔

وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ نے 2 دن کے جسمانی ریمانڈ کے بعد ملزم کو جوڈیشل کر دیا، یہ ایس او پی ہے کہ ملزم جیل آئے تو اس کا طبی معائنہ ہوتا ہے، ٹارچر پاکستان میں ایک روٹین کی ایکسرسائز ہے، اگر عدالت کے نوٹس میں یہ بات آئے تو آپ ایکشن لے سکتے ہیں۔

شہباز گِل کے وکیل نے میڈیکل رپورٹ کے مندرجات پڑھ کر عدالت کو سنائے اور کہا کہ مجسٹریٹ نے خود آبزرویشن دی ہے کہ ملزم کی کنڈیشن سیرئیس ہے، ایسے ہی ٹارچر پر ملزمان کی موت واقع ہو جاتی ہے، مجھے وکالت نامہ دستخط کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی، اب شہباز گِل کی طبیعت بہتر ہو رہی تو کل ان کی ویڈیوز لیک کی گئیں۔

شہباز گِل کے وکیل نے میڈیا پر چلنے والی لیک ویڈیوزکی درستگی کا اعتراف بھی کیا اور کہا کہ تشدد کے اثرات صرف 5 سے 6 دن رہتے ہیں، 12 دن بعد تو بڑے سے بڑا تشدد ٹھیک ہو جاتا ہے، میڈیکل بورڈ نے قرار دیا کہ شہباز گِل کے جسم پر کچھ نشانات ہیں۔

وکیل نے عدالت کو بتایا کہ شہباز گِل کے پرائیویٹ پارٹس پر تشدد کیا گیا، عدالت ڈاکٹرز کو بلا کر پوچھ لے، وہ شہباز گِل پر تشدد کے عینی شاہد ہیں، درجنوں مثالیں ہیں، پولیس ایسے تشدد کرتی ہے جس کو ٹریس کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، پولیس تشدد سے ملزم کی موت واقع ہو جائے تو 302 کا کیس بن جاتا ہے۔

شہباز گِل کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسمارٹ فون کی ریکوری کےلیے مزید ریمانڈ کی استدعا کی جا رہی ہے، تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی ملزم کو جیل سے واپس بلا کر جسمانی ریمانڈ دیا گیا اور یہ اس وقت ہوا جب ضمانت کی درخواست پر نوٹس بھی ہو چکے تھے، شہباز گِل کے جوڈیشل ریمانڈ کو بھی 10 دن ہو گئے ہیں، یہ بھی دیکھنا ہے کہ ریمانڈ کی درخواست میں جو بات نہ کی گئی ہو وہ بعد میں کی جا سکتی ہے؟

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ شہباز گِل کے موبائل فون کی ریکوری کا کہا گیا کہ وہ ڈرائیور کے پاس ہے، پھر موبائل فون کی ریکوری کے لیے شہباز گِل کے ریمانڈ کی کیا ضرورت ہے؟ موبائل فون اور عینک ساتھ ہی ہوتی ہے، موبائل فون پولیس کے پاس ہے، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شہباز گِل سے سازش کا پتہ کرنا ہے۔

اس کے ساتھ ہی شہباز گِل کے وکیل سلمان صفدر کے دلائل مکمل ہو گئے جن کے بعد اسپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے دلائل دیے۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.