دنیا کا ایک خوبصورت خطہ گزشتہ چار برسوں سے جیل بنا ہوا ہے مگر دنیا مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔
بین الاقوامی واچ ڈاگ ہیومن رائٹس کی ایک حالیہ رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگست 2019ء سے کشمیر میں کم از کم 35 صحافیوں کو پولیس پوچھ گچھ، چھاپوں، دھمکیوں، جسمانی حملے، نقل و حرکت کی آزادی پر پابندیوں، یا اپنی رپورٹنگ کے لیے من گھڑت مجرمانہ مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
کشمیر میں میڈیا کو کنٹرول کرنے کی حکومت کی کوشش مئی 2020 کے اوائل میں ہی ظاہر ہو گئی تھی جب وہ ایک متنازعہ میڈیا پالیسی کے ساتھ سامنے آئی تھی۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے تین سال بعد ایک مخلوط رپورٹ کے مطابق تین سال قبل 5 اگست کو، وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیا تھا جس نے خطے کو محدود خود مختاری کی اجازت دی تھی۔
مودی نے کہا تھا کہ اس خطے میں ترقی کے ایک ’نئے دور‘ کا آغاز ہو رہا ہے، جہاں ختم شدہ دفعات نے صرف دہشت گردی، علیحدگی پسندی، اقربا پروری اور بڑے پیمانے پر بدعنوانی دی۔
مسلم اکثریتی خطہ جو کہ ہندوستان سے الگ روایت اور مضبوط شناخت رکھتا ہے ، اِسے دو وفاق کے زیر کنٹرول مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جموں کشمیر اور لداخ۔
تین برسوں میں بھارتی حکام کشمیر میں علیحدگی پسند تحریک کے لیڈروں کو جیلوں میں ڈال کر یا انہیں ڈرا دھمکا کر خاموش کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، کئی متحرک علیحدگی پسند رہنما ہلاک اور دیگر جیل میں ہیں۔
غیر متشدد علیحدگی پسندوں کی پکڑ دھکڑ، جو ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے یا تو پاکستان میں شامل ہونے یا آزاد ریاست بننے کی حمایت کرتے ہیں، ہندوستان کی حکومت کی جانب سے اس تحریک کو تبدیل کرنے کے لیے کریک ڈاؤن کیا گیا۔
2019 سے کشمیر میں تعینات نیم فوجی اہلکاروں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
تعزیرات کے باوجود، مسلح افراد کشمیری شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، اس سال انہوں نے کم از کم 13 شہریوں کو قتل کیا ہے جن میں سے زیادہ تر مقامی مسلمان تھے۔
صحافیوں کے مطابق، اپنی آزادی پر سمجھوتا کرنے سے انکار کرنے والے انفرادی کاتبوں کو ڈرانا اور ہراساں کرنا روز کا معمول بن گیا ہے۔
ایک طرف بھارت دعویٰ کر رہا ہے کہ کشمیر کی ترقی کے لیے وہ کشمیر میں دنیا کا بلند ترین ریل پل بنا رہا ہے جو فرانس کے ایفل ٹاور سے 35 کلو میٹر اونچا ہوگا تو دوسری جانب ہندوستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں اس سال ہونے والے انتخابات تاریک نظر آرہے ہیں کیونکہ ہندوستان کے الیکشن کمیشن نے انتخابی فہرستوں پر نظر ثانی کی آخری تاریخ میں توسیع کردی ہے۔
Comments are closed.