بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

لندن میں فائر فائٹرز کا دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے مصروف دن

لندن میں فائر فائٹرز کا دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے مصروف دن

لندن کے میئر صادق خان کے بقول لندن میں آگ بجھانے کے عملے کے لیے 19 جولائی دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اب تک کا مصروف ترین دن ثابت ہوا۔ اور اس کی وجہ درجہ حرارت میں ہونے والا ریکارڈ اضافہ ہے۔

برطانیہ میں منگل کے روز 15 مختلف مقامات پر آگ لگنے کے بڑے واقعات سامنے آئے۔ اس درمیان درجہ حرارت 40.3 سنٹی گریڈ تک پہنچ گیا جو کہ برطانیہ میں ماضی میں کبھی نہیں ہوا تھا۔

حالانکہ اگلے روز یعنی بدھ کو درجہ حرارت میں کمی ہوئی اور لوگوں نے سکون کی سانس لی۔ جس کے بعد چند علاقوں میں شدید بارشوں اور طوفان کی تنبیہ جاری کی گئی ہے۔

میٹ آفس کی جانب سے جاری کردہ وارننگ کے مطابق متعدد علاقوں میں شدید بارش اور طوفان کے امکان ہیں جس سے معمولات زندگی پر اثر پڑ سکتا ہے۔ موسم میں خرابی کے سبب عوام کو صرف عین ضروری حالات میں ہی سفر کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

لندن کے میئر صادق خان نے بتایا کہ شدید گرمی کے سبب پیش آنے والے آگ لگنے کے واقعات سے نمٹ رہے فائر فائٹرز کو منگل کے روز تقریباً 2600 کالز موصول ہوئی۔

لندن کے مشرقی علاقے ویننگٹن میں تقریباً سو فائر فائٹرز نے مل کر اس آگ پر قابو پایا جس نے متعدد گھروں، 12 اصطبل اور 5 کاروں کو تباہ کر دیا۔ جائے وقوعہ پر موجود ایک فائر فائٹر نے بتایا کہ صورت حال جہنم جیسی تھی۔ .

Wennington fire scene

،تصویر کا ذریعہPA Media

،تصویر کا کیپشن

لندن کے مشرقی علاقے ویننگٹن میں تقریباً سو فایر فائٹرز نے مل کر اس آگ پر قابو پایا

Burned out houses in Wennington

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

علاقے کی تصاویر میں متعدد عمارتوں سے غیر معمولی دھوئیں کے اٹھتے غبار کو دیکھا جا سکتا ہے

An aerial shot of the aftermath of the fire in Wennington

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انہوں نے کہا، ‘کل لندن کے فائر فائٹروں کے لیے دوسری جنگ عظیم کے بعد مصروف ترین دن تھا۔’

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

صادق خان نے بتایا ‘عام دنوں میں ہمیں دن بھر میں تقریباً 350 کالز آتی ہیں۔ انتہائی مصروف دنوں میں کالز 500 تک پہنچ جاتی ہیں۔ لیکن منگل کو فائر ڈیپارٹمنٹ کو 2600 سے زیادہ کالز آئیں۔’

میئر نے لندن کی عوام کو مشورہ دیا ہے کہ فی الحال پارک یا اپنے گھروں کے گارڈن میں باربی کیو کرنے کا خیال دل سے نکال دیں کیوں کہ اس سے آگ لگنے کا خطرہ ہے۔

انہوں نے کہا ‘خشک گھاس میں آگ لگنا آسان ہوتا ہے۔ اور اگر اس میں آگ لگ جائے تو وہ بہت تیزی سے پھیلتی ہے۔ جس طرح آپ فلموں میں دیکھتے ہیں یا کیلیفورنیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ کے مناظر دیکھتے ہیں۔’

لندن فائر بریگیڈ کے اسسٹنٹ کمشنر جوناتھن سمتھ نے بتایا کہ کل ان کی ٹیمز نے آگ کے 15 بڑے حادثات کا سامنا کیا اور اس کے علاوہ کئی مقامات پر سوکھی گھاس اور جنگلات میں بھڑکنے والی آگ کے معاملے بھی پیش آتے رہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہم ان سبھی معاملوں کی تفتیش کریں گے اور یہ پتا لگائیں گے کہ آگ لگی کیسے۔ لیکن فی الحال جو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں وہ یہ کہ شدید گرمی اور خشک حالات کا اثر گزشتہ ایک ہفتے سے واضح ہے۔ اور ایسے حالات گھاس کے میدان یا جنگلات میں آگ کے پھیلنے کے لیے معقول ہوتے ہیں۔ جس تیزی سے آگ پھیل رہی تھی اس پر قابو پانا ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج تھا۔’

برطانیہ میں مزید مقامات پر بھی متعدد گھر آگ کی زد میں آ کر تباہ ہو گئے۔ کچھ بڑے واقعات لیسٹرشائر، ہرٹ فورڈ شائر، سفک، لنکن شائر اور ہورکشائر میں سامنے آئے۔

میرا گھر مکمل طور پر ختم ہو گیا

ٹِم سٹاک وننگٹن میں رہتے ہیں۔ اپنے گھر کے پاس اٹھتی ہوئی آگ دیکھ کر انہوں نے آگ بجھانے والے عملے کو فون کیا تھا۔ اس آگ نے آخر کار ان کے گھر کو بھی زد میں لے لیا۔

ٹم نے بی بی سی کو بتایا کہ انہوں نے اور ان کے بیٹے نے دیکھا کہ ہم سایوں کے گھر کے گارڈن میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ لیکن کنستروں میں بھر بھر کر پانی پھینکنے کے باوجود وہ لوگ اس آگ پر قابو پانے میں ناکام رہے۔ ٹم کے بقول اس آگ میں کم از کم پندرہ سے بیس گھر تباہ ہو گئے۔

Scene after blaze in Barnsley

،تصویر کا ذریعہPA Media

،تصویر کا کیپشن

بارنسلے میں چھ گھر جل کر راکھ ہو گئے

انہوں نے کہا ‘میرا گھر مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ اسی طرح میرے ہم سائے اور اس سے جڑے اگلے تین چار گھر بھی۔’

نیشنل فائر چیف کونسل کے سربراہ مارک ہارڈنگم نے بتایا کہ اس سے پہلے برطانیہ میں جنگلات میں لگنے والی آگ کے کبھی اس سطح کے واقعات پیش نہیں آئے۔

انہوں نے بی بی سی سے کہا ‘میں تیس برس سے زیادہ عرصے سے اس شعبے میں کام کر رہا ہوں اور کل کا دن ہمارے لیے اب تک کا مصروف ترین دن ثابت ہوا۔ کل جو مناظر ہم نے دیکھے وہ حالیہ برسوں میں کیلیفورنیا، آسٹریلیا اور جنوبی یورپ کے جنگلات میں لگنے والی آگ کی یاد دلاتے ہیں۔ لیکن برطانیہ میں اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔’

نیشنل فائر چیف کونسل کے ایک اور رہنما فل گیریگن نے کہا کہ جنگلات کی آگ سے نمٹنے کے لیے استعمال ہونے والے اہم آلات اور طریقہ کار کے بارے میں اب برطانیہ کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ‘زیادہ تر یورپی ممالک جہاں جنگلات میں آگ بھڑک اٹھتی ہے، فضائی طیاروں یا ہیلی کاپٹروں سے پانی چھڑکنے کا کام کرتے ہیں۔’

جبکہ ان کے بقول برطانیہ کا اس معاملے میں باہری اداروں پر انحصار ہے۔ لیکن مستقبل میں پیدا ہونے والے ایسے حالات کے مد نظر برطانوی حکومت اور آگ لگنے کی صورت میں مدد کرنے والے اداروں کو اس بارے میں غور کرنا ہوگا۔

گزشتہ چند برسوں میں دنیا بھر کے ایسے علاقوں میں شدید گرمی پڑنے لگی ہے جہاں پہلے درجہ حرارت کبھی بہت زیادہ اوپر نہیں جاتا تھا۔ اور اس کا ذمہ دار کلائیمٹ چینج کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ ہوا میں بڑھتی خشکی اور شدید گرمی میں آگ لگنے کے واقعات عام ہوتے جا رہے ہیں۔

صنعتی دور کے آغاز سے اب تک زمین کے درجہ حرارت میں 1.1 سیلسیئس کا اضافہ ہو چکا ہے اور اگر دنیا بھر کی حکومتیں اس بارے میں جلد اقدامات نہیں کرتی ہیں تو حالات مزید مشکل ہوتے جائیں گے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.