یونیورسٹی آف مشی گن ہیلتھ کے تحت کیے جانے والے 2 ہزار والدین پر مشتمل تحقیقی سروے کے مطابق صرف نصف والدین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے بچوں کا اسکرین ٹائم بچے کی آنکھوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔
یہ تحقیقی سروے رواں سال امریکا میں اپریل میں کیا گیا، جس میں 3 سے 18 سال کے بچوں کے 2002 والدین کو شامل کیا گیا۔
محققین کا کہنا ہے کہ بیشتر والدین ضرورت سے زیادہ اسکرین ٹائم کے باعث مختصر و طویل عرصے تک مرتب ہونے والے اثرات سے لاعلم تھے، انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ بچوں کی قوتِ بصارت کا کمزور ہونا اسکرین ٹائم سے منسلک ہوسکتا ہے۔
تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بیشتر والدین کو قوتِ بصارت کی کمزوری اور اسے متاثر کرنے والے عناصر اور سرگرمیوں کے حوالے سے غلط معلومات ہوتی ہیں، انہیں اس حوالے سے بھی معلومات نہیں ہوتیں کہ بینائی کو درپیش خطرات کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے۔
تحقیق کے مطابق گزشتہ 30 برس کے دوران قریب کی بینائی متاثر ہونے کی شکایات میں اضافے کا رجحان دیکھا گیا ہے، جس کی بنیادی وجہ بچوں کی ٹیکنالوجی تک آسان رسائی ہے۔
ایسے والدین کی تعداد بہت کم ہے جو بچوں کی بینائی کی حفاظت کے حوالے سے اپنے بزرگوں کے مشوروں کو آج بھی اہمیت دیتے اور ان پر عمل بھی کرتے ہیں۔
گو کہ کم روشنی میں پڑھنا یا ٹی وی کے قریب بیٹھنا آنکھوں کی تھکاوٹ یا تناؤ کا باعث بن سکتا ہے لیکن یہ آنکھوں کے کوئی مستقل نقصان یا طویل مدتی مسائل کا باعث نہیں بنتا۔
سروے میں شامل ایک تہائی سے بھی کم والدین کا کہنا ہے کہ ان کے بچے ایسے چشموں کا استعمال کرتے ہیں جو اضافی بلیو لائٹ سے آنکھوں کو محفوظ رکھتے ہیں، جو دماغ کی ’اندرونی گھڑی‘ کو متاثر کر کے سونے میں دشواری کا سبب بنتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سونے سے 1 گھنٹہ قبل موبائل فون کا استعمال ترک کر دینا چاہے۔
تحقیق کے نتائج کے مطابق بچوں کی بینائی ہر 2 سال بعد چیک کروانی چاہیے تاکہ آنکھوں کی بینائی کے مسائل کی تشخیص جلد از جلد ممکن ہو اور ان کا علاج بر وقت کیا جا سکے، بصورتِ دیگر ناقابلِ تشخیص امراض مستقبل میں بصارت سے محرومی کا سبب بن سکتے ہیں۔
Comments are closed.