اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیوی گالف کورس غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سی ڈی اے اور وائلڈ لائف مینجمنٹ کو قبضہ لینے کا حکم دے دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک پر تجاوزات کے خلاف کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔
عدالت کا تفصیلی فیصلے میں کہنا ہے کہ نیول گالف کورس کی تجاوزات پاکستان نیوی کی جانب سے بھی تسلیم شدہ ہیں، پاکستان نیوی نے جاننے کے باوجود مارگلہ ہلز کے تقدس کو پامال کیا، قانون کی خلاف ورزی کی، سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر تجاوزات کا جواز پیش کرنے کی دلیل بے بنیاد ہے۔
عدالت کا یہ بھی کہنا ہے کہ قانون سے کوئی بالا نہیں، کسی کو قانون کی خلاف ورزی کا لائسنس نہیں دیا جاسکتا، نیوی حکام نے ریاستی زمین پر تجاوزات کر کے تادیبی کارروائی کے لیے خود کو ایکسپوز کیا، قانون کا احترام اور اس پر عمل ریاستی اداروں اور عوامی عہدے رکھنے والوں کی ذمے داری زیادہ ہے۔
فیصلے میں عدالت کا مزید کہنا ہے کہ ریاستی اداروں کے اختیار کا غلط استعمال خلاف قانون اور بنیادی آئینی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی کہ جی ایچ کیو یا ڈائریکٹوریٹ کس قانون کے تحت کمرشل لیز ایگریمنٹ کر سکتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ آئین کے تحت تینوں مسلح افواج وفاقی حکومت کے ماتحت ہیں اور صدر پاکستان سپریم کمانڈر ہیں، آرمڈ فورسز کو اپنے دائرہ کار سے باہر کسی کاروباری سرگرمی میں حصہ لینے کا اختیار نہیں، پاک آرمی کسی اسٹیٹ لینڈ کی ملکیت کا بھی کوئی دعویٰ نہیں کرسکتی۔
عدالت کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلح افواج کا کام بیرونی جارحیت سے ملک کا دفاع اور طلب کیے جانے پر سول اداروں کی معاونت ہے، مسلح افواج دونوں ذمے داریاں وفاقی حکومت کی اجازت سے سر انجام دے سکتی ہے، خود سے نہیں، آئین واضح ہے، کسی بھی زمین کی خرید و فروخت یا لیز کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمڈ فورسز ملکیت، حصول یا کسی اور صورت میں پراپرٹی کو ڈیل نہیں کرسکتیں، زمین حکومت کی ملکیت ہے اداروں اور افسران کو اس کا انتظام سنبھالنے کی ذمے داری دی جاتی ہے، فوج کے زیر استعمال سرکاری اراضی پر کسی کو سویلین اداروں کو بائی پاس کرنے کا اختیار نہیں، جی ایچ کیو یا آر وی ایف ڈائریکٹوریٹ کا مارگلہ ہلز پر 8 ہزار ایکڑ زمین پر ملکیت کا دعویٰ آئین اور مروجہ قوانین کے خلاف ہے۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 1910 میں فوج کو دی گئی زمین کا کنٹرول 1960 میں سی ڈی اے آرڈیننس کے بعد وفاقی حکومت کے پاس ہے، آر وی ایف ڈائریکٹوریٹ کے پاس کمرشل سرگرمی میں شامل ہونے اور نہ ہی رینٹ لینے کا اختیار تھا، آر وی ایف ڈائریکٹوریٹ کے افسران نے قانون توڑا، اتھارٹی کا غلط استعمال کیا اور خود کو انضباطی کارروائی کے لیے ایکسپوز کیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلے میں کہنا ہے کہ غیر قانونی کمرشل ایکٹوٹی میں شامل ہوکر اور رینٹ وصول کر کے آر وی ایف آفیشلز نے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا، آر وی ایف ڈائریکٹوریٹ کا منال کے ساتھ لیز ایگریمنٹ اور کرایہ وصول کرنا غیر قانونی و غیر آئینی ہے۔
Comments are closed.