’لیڈی ایویلین کوبولڈ‘ کی سکاٹ لینڈ میں قبر پر نو مسلم زائرین کا ہجوم کیوں ہے؟
- اورِن کوکس
- بی بی سی سکاٹ لینڈ نیوز
تقریباً 20 مسلمانوں کے ایک گروپ نے لیڈی ایویلین کی قبر تک پیدل سفر میں حصہ لیا۔
اسکاٹ لینڈ کے شمال مغربی پہاڑی علاقے میں صبح کا وقت ہے اور مختلف کاریں گلین کیرون کے علاقے میں A890 کہلانے والی سڑک سے دور ایک جنگل کے کار پارک میں جمع ہونا شروع ہو رہی ہیں۔
آج بارش کے کافی امکانات ہیں، لیکن سورج کی روشنی کا ایک مختصر لمحہ بھی موجود ہے جب 20 پیدل چلنے والے افراد کا ایک گروپ ویسٹر راس کے علاقے ‘گلین فیوڈائیگ’ میں 10 کلومیٹر (6.2 میل) ایک جانب پیدل چلنے کی تیاری کر رہا ہے۔
یہ ایک ایسا منظر ہے جو ہر ہفتے کے آخر میں سکاٹ لینڈ کے سینکڑوں کار پارکوں میں دہرایا جاتا ہے، لیکن پیدل چلنے والوں کا یہ گروپ بھی زائرین کا ہے – یہ وہ زائرین ہیں جو مسلمان ہوجانے والی اپنے وقت کی اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کی قبر پر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یہ لوگ ایڈنبرا، لیورپول، لیسٹر اور اس سے آگے کا سفر کرکے یہاں پہنچے تھے تاکہ لیڈی ایولِن کوبولڈ کی قبر کی زیارت کریں – لیڈی ایویلین کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پہلی برطانوی نژاد مسلمان خاتون ہیں جنہوں نے حج کے لیے مکہ کی جانب سفر کیا تھا۔
زائرین کے لیے اس مذہبی جشن کا اہتمام ‘دی کنورٹ مسلم فاؤنڈیشن’ نے کیا تھا، یہ برطانیہ میں قائم ایک خیراتی ادارہ ہے جو نو مسلموں کی مدد کے لیے ایک سپورٹ نیٹ ورک فراہم کرتا ہے۔ اس ادارے کی بانی بتول التوما، جن کا اپنا تعلق آئرلینڈ سے اور جو مسلمان ہوئیں، وہ زائرین کے اِس گروپ کی پہاڑوں سفر کی رہنمائی کرتی ہیں۔
بتول التوما کہتی ہیں کہ ‘جب میں نے لیڈی ایویلین کے بارے میں سنا، تو ان کی کہانی میں میری دلچسپی پیدا ہوئی ہے۔ وہ ایک زبردست خاتون تھیں جنہوں نے کبھی بھی اپنے آپ کو صرف اس لیے نظرانداز نہیں ہونے دیا کہ وہ ایک عورت تھی۔’
سکاٹ لینڈ کے اس علاقے کا لیڈی ایویلین کی وجہ سے مکے سے ایک انوکھا تعلق ہے۔
ابھی ان کے پیدل سفر میں تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ بارش برسنا شروع ہو گئی۔ زائرین نے ٹوپیوں اور واٹر پروف اوور کوٹوں میں لگے ہوئے ‘ہُّڈوں’ اور حجابوں سے اپنے سر ڈھانپ لیے۔
جیسے جیسے آندھی اور بارش ان پر برستی رہی، گروپ میں سے بہت سے لوگ لیڈی ایویلین کے آخری سفر کا ذکر کرتے ہیں اور غور کرتے ہیں کہ انھوں نے اِس دور دراز مقام کا اپنی تدفین کے لیے کیوں انتخاب کیا تھا۔
وہ جنوری سنہ 1963 میں سخت سردی کے دوران فوت ہوئیں اور انھیں اپنی گلین کیرون اسٹیٹ پر ایک الگ تھلگ ایک پہاڑی کی وادی پر دفن کیا گیا تھا۔
‘انورنیس’ مسجد کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک اکاؤنٹ کے مطابق، ‘سردی سے لرزتے’ ایک تنہا بیگ پائپر، میک کریمن نے ان کے لیے نوحے کی سوگ والی دھُن بجائی تھی اور سرے کاؤنٹی کے ایک قصبے، ووکنگ، کے ایک امام نے تدفین کے وقت نمازِ جنازہ پڑھیں تھی۔
ووکنگ کا سکاٹ لینڈ کی اس مرحومہ سے اب بھی ایک تعلق موجود ہے، تقریباً 60 سال بعد بھی اس قصبے کی مسجد کے ایک نمائندے نے اس کی قبر تک اس پیدل سفر میں شرکت کی۔ (ووکنگ میں مسلمانوں کا ایک پرانا علاقہ ہے)۔
لیڈی ایویلین نے سنہ 1891 میں جان کوبولڈ سے شادی کی۔ لیڈی ایویلین کی اُن سے پہلی ملاقات قاہرہ میں ہوئی تھی۔
اُنیسویں صدی کے اواخر میں ایڈنبرا میں پیدا ہونے والی لیڈی ایویلین نے اپنا بچپن اسکاٹ لینڈ اور شمالی افریقہ کے درمیان گزارا۔
یہ ان کا شمالی افریقہ میں قیام کا عرصہ تھا جب وہ اپنے الجزائری دوستوں کے ساتھ مساجد میں جاتی تھیں اور وہیں وہ پہلی بار اسلام سے روشناس ہوئیں۔
وہ بعد میں لکھتی ہیں کہ ‘غیر شعوری طور پر میں دل ہی دل میں کچھ کچھ مسلمان تھی۔’
یہ بھی پڑھیے:
یہ معلوم نہیں ہے کہ اس نے کب اسلام قبول کیا لیکن روم کے دورے کے دوران پوپ کے ساتھ ایک موقع پر ملاقات اُن کے عقائد کی تصدیق کرتی نظر آتی ہے۔
وہ لکھتی ہیں کہ ‘جب تقدس مآب (پوپ) نے مجھ سے اچانک پوچھا کہ کیا میں کیتھولک ہوں تو میں ایک لمحے کے لیے حیران رہ گئی اور پھر میں نے انھیں جواب کہا کہ میں مسلمان ہوں۔’
‘میں نہیں کہہ سکتی کہ اس وقت مجھ پر کس چیز کا اثر تھا کیونکہ میں نے کئی سالوں سے اسلام کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔’
نو مسلموں کے گروپ نے لیڈی ایویلین کوبولڈ کی قبر پر جانے اور آنے کے لیے 20 کلومیٹر پیدل سفر کیا۔ لیڈی ایویلین نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا اسلامی نام ‘زینب’ رکھا اور آخر کار وہ 65 سال کی عمر میں مکہ مکرمہ پہنچیں گی۔
لیڈی زینب کو خراج تحسین پیش کرنے والے مسلمانوں میں سے ایک یوون رِڈلی ہیں، جو سکاٹ لینڈ کے سرحدی علاقوں میں رہتی ہیں۔
یہ افغانستان میں بطور صحافی کام کرنے گئی تھیں جہاں سنہ 2001 میں طالبان نے انھیں گرفتار کر لیا تھا۔ اُن کا طالبان کی حراست میں رہنے کا ایسا تجربہ تھا جس کی وجہ سے انھوں نے اسلام قبول کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘طالبان کے ہاتھوں میری گرفتاری اور نظربندی سے میری تبدیلی کئی طریقوں سے شروع ہوئی۔ اس تجربے نے مجھے ایک ایسے راستے پر ڈال دیا جو ایک تعلیمی مشق کے طور پر شروع ہوا، لیکن یہ مجھے روحانی سفر پر لے گیا۔’
اپنی کتاب، ان دی ہینڈز آف طالبان میں، مِس یوون رڈلی لکھتی ہیں کہ وہ طالبان کے مردوں کی طرف سے ان کے ساتھ جو احترام اور شائستگی کا مظاہرہ دیکھا تو وہ اس سے حیران رہ گئیں۔
اپنی اسیری کے دوران اس نے قرآن کا مطالعہ کرنے کا وعدہ کیا اور رہا ہونے کے بعد ایسا کیا۔ مِس رڈلی کو لیڈی ایویلین کے بارے میں اُس وقت پتہ چلا جب اُن کی بتول التوما سے ترکی میں ملاقات ہوئی۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘میں نے اس قابل ذکر سکاٹش خاتون (لیڈی ایویلین — لیڈی زینب) کے بارے میں مزید پڑھنا شروع کیا، تو بتول اور میں نے فیصلہ کیا کہ ہم اسلام قبول کرنے والوں کے ایک گروپ کو لے کر آئیں گے اور باہر آئیں گے اور اس کی قبر کی زیارت کریں گے۔’
یہ جماعت قبر کے کنارے نماز اور دعاؤں کے لیے جمع ہوئی۔
تین گھنٹے کی سردی اور بارش کی وجہ سے گیلی زمین پر پیدل سفر کے بعد، زائرین ایک لمحے کے لیے آرام کرتے ہیں کیونکہ ان کے گائیڈ اسماعیل ہیوٹ، اپنے لبادے میں ملبوس، لیڈی ایویلین کی آرام گاہ کی تلاش کے لیے مزید آگے بڑھتے ہیں۔
ان میں جوش و جذبہ بڑھ جاتا ہے جب وہ دور سے پیچھے مُڑ کر ہاتھ ہلا ہلا کر یہ اشارہ کرتا ہے کہ ان کی قبر اب اُسے نظر آرہی ہے، پہاڑی پر تھوڑا سا راستہ رہ گیا ہے۔
یہ گروپ وہاں اُن کی قبر تک پہنچ کر اُس کے ارد گرد گھٹنوں کے بل احتراماً بیٹھتا ہے۔
وہ ہر ایک نماز میں ایک دوسرے کے ساتھ شامل ہونے سے پہلے اُن کو ہدیہ تحسین پیش کرتے ہیں۔ یہ ایک جذباتی لمحہ ہے اور گروپ میں سے چند ایک کی آنکھوں میں سے آنسو نکل آتے ہیں۔
بتول التوما نے لیڈی ایویلین کی کتاب سے ایک اقتباس پڑھ کر تقریب کا اختتام کیا، جس میں ان کے مکہ کے حج کے سفر پر غور کیا گیا۔
‘گزشتہ دنوں میں مجھے لامتناہی دلچسپی کے علاوہ کسی بھی بات کا خیال نہیں آتا تھا، بس حیرت اور خوبصورتی میں گُم رہتی؟ میرے لئے ایک حیرت انگیز نئی دنیا آشکار ہوئی ہے۔’
زائرین نے قبر کی زیارت کے لیے 20 کلومیٹر (12.4 میل) کا پیدل سفر کیا۔
اس پیدل سفر سے واپسی کے بعد زائرین کو کھانے کے لیے انورنس کی مسجد میں مدعو کیا گیا اور ان کے سفر پر بات چیت اور غور و فکر کرنے کا موقع ملا۔
مِس یوون رڈلی کہتی ہیں کہ وہ پیدل چل چل کر تھک گئی تھیں، لیکن محسوس کیا کہ قبر کے پاس کی گئی دعائیں ‘روحانی طور پر پُر اثر’ تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘ایک ہرن تھا جو اس کی قبر کے اوپر والی پہاڑی پر نمودار ہوا، یہ منظر کافی علامتی تھا اور دل پر گہرا اثر کرنے والا تھا۔’
‘یہ ایک عورت تھی جس کا دل پہاڑی وادیوں میں تھا، لیکن وہ اسلام میں بھی بہت ڈوبی ہوئی تھیں۔’
بتول التوما اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ لیڈی ایویلین اس بات کا نمونہ تھیں کہ کیسے نئے مذہب تبدیل کرنے والے اب بھی اپنی شناخت اور ثقافت کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔
التوما مزید کہتی ہیں کہ ‘وہ مذہب تبدیل کرنے والوں کے لیے بہت اہم ہیں۔’
‘مجھے ان کی کتاب پڑھ کر خوشی ہوئی ہے اور میں اس کی ہمت، بہادری اور مہم جوئی کے جذبے کی تعریف کرتی ہوں، وہ ایک حقیقت میں ایک نئی راہ دکھانے والی (ٹریل بلیزر) تھیں۔’
Comments are closed.