انڈیا چین سرحدی تنازع: لداخ پر امریکہ کے چین مخالف بیانات کے باوجود انڈیا امریکہ کا ساتھ دینے سے کیوں ہچکچا رہا ہے؟
- اننت پرکاش
- نامہ نگار بی بی سی
گذشتہ کچھ دنوں میں دو اعلیٰ امریکی عہدیداروں نے لداخ میں انڈیا اور چین کے درمیان صورتحال کے حوالے سے بیانات دیے ہیں اور چین نے ان بیانات پر اعتراض اٹھایا ہے۔
جہاں امریکہ نے چین کے جارحانہ مؤقف پر تشویش کا اظہار کیا ہے، وہیں چین نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ انڈیا کے لیے ان بیانات کا کیا مطلب ہے؟
بدھ کو امریکی فوج کے پیسیفک کمانڈنگ جنرل چارلس اے فلن نے نیو دہلی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے لداخ میں چینی سرگرمیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘مجھے یقین ہے کہ چینی فوجی سرگرمیاں غیر معمولی ہیں۔ میرے خیال میں چین نے ویسٹرن تھیٹر کمانڈ میں کچھ ایسا انفراسٹرکچر تیار کیا ہے، جو کہ خطرے کی گھنٹی ہے۔’
اس تبصرے کے ردِ عمل میں جمعرات کو چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے لداخ سے متعلق امریکی فوجی افسر کے بیان کو ’شرمناک‘ قرار دیتے ہوئے امریکہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ تاہم بات یہاں تک ہی نہیں رکی۔
اس کے بعد سنیچر کے روز امریکی وزیر دفاع لائڈ جیمز آسٹن نے بھی چین کے جارحانہ مؤقف پر تشویش کا اظہار کیا۔
سنگاپور میں شنگری-لا ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع لائیڈ جیمز آسٹن نے چین کے جارحانہ مؤقف پر تشویش کا اظہار کیا اور وہ اس کانفرنس میں انڈیا کی حمایت میں بولے۔
اپنے خطاب میں انھوں نے کہا کہ ‘چین انڈیا کے ساتھ سرحد پر اپنی پوزیشن مضبوط کر رہا ہے۔ ایسے میں امریکہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑا ہے۔‘
امریکی فوجی حکام کی جانب سے یہ بیان سامنے آنے کے بعد سے انڈیا میں اپوزیشن جماعتوں نے حکمران جماعت بی جے پی سے سوال پوچھنے شروع کر دیے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انڈین وزارت خارجہ نے بھی اس معاملے پر بیان دیا ہے۔
انڈین فوجی چین کی سرحد کے قریب
لداخ انڈیا اور چین کے درمیان تنازع کی جڑ کیسے؟
دونوں ممالک کے درمیان تازہ ترین تنازع اپریل 2020 میں شروع ہوا تھا جب چین نے متنازع ایل اے سی کے مشرقی لداخ میں فوجی رکاوٹیں کھڑی کیں۔ دونوں ممالک کی فوجیں وادی گلوان، پینگونگ تسو اور گوگرا ہاٹ سپرنگس جیسے علاقوں میں آمنے سامنے تھیں۔
یہ تعطل 15 جون کو پُرتشدد ہو گیا، گلوان میں خونریز جھڑپوں میں 20 انڈین فوجی مارے گئے۔
بعد ازاں چین نے اعتراف کیا کہ اس کے بھی چار فوجی ہلاک ہوئے۔ تاہم ماہرین کے مطابق چینی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
فروری 2021 میں دونوں ممالک نے پینگونگ تسو کے شمالی اور جنوبی کنارے کے ساتھ تناؤ کو مرحلہ وار اور مربوط طریقے سے کم کرنے کا اعلان کیا۔
دونوں ممالک کے درمیان گوگرہ اور ہاٹ سپرنگس، ڈیمچوک اور ڈیپسنگ جیسے علاقوں پر جاری تنازعہ بدستور جاری ہے۔ انڈیا اور چین کے درمیان ایل اے سی پر کم از کم 12 مقامات پر کئی برسوں سے تنازعات چل رہے ہیں۔
جون 2020 کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کور کمانڈر کی سطح پر مذاکرات 14 بار ہو چکے ہیں۔
چین نے امریکہ سے متعلق کیا کہا؟
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے امریکی جنرل کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرحدی تنازعہ دونوں ممالک کا باہمی معاملہ ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ ‘اس وقت چین اور انڈیا کے درمیان سرحد سے متعلق صورتحال مستحکم ہے۔ دونوں ممالک کی فوجوں نے چین اور انڈیا کی سرحد کے مغربی سیکٹر کے زیادہ تر مقامات پر دستبرداری کا عمل مکمل کر لیا ہے۔‘
واضح رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان یہ سرحد ایک تنازع کا باعث بنی ہوئی ہے۔
چینی ترجمان کے مطابق ‘دونوں فریق اس تنازع کو بات چیت اور مشاورت کے ذریعے حل کرنے پر آمادہ اور قابل ہیں۔ کچھ امریکی حکام نے انگلیاں اٹھا کر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھانے اور دراڑ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ شرمناک ہے۔‘
اس سے پہلے بھی لداخ سرحدی تنازعے پر چین امریکی حکومت کی خبر لے چکا ہے۔ جب ایک امریکی سائبر سکیورٹی فرم نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ چینی حکومت کی جانب سے فنڈز فراہم کرنے والے ہیکرز نے ستمبر 2021 سے سات سٹیٹ لوڈ ڈسپیچ سینٹرز (SLDCs) پر حملہ کیا۔
اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے مرکزی وزیر آر کے سنگھ نے کہا کہ چینی ہیکروں نے لداخ کے قریب بجلی کی تقسیم کے مراکز پر کم از کم دو بار حملہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
تاہم انھوں نے ان ہیکرز کے چینی حکومت سے کسی بھی طرح کے تعلق پر کچھ نہیں کہا۔
لیکن چین نے اس رپورٹ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے امریکی حکومت پر چین کے خلاف پروپیگنڈہ پھیلانے کا الزام لگایا ہے۔
چینی ترجمان نے کہا کہ ‘ہم کچھ عرصے سے دیکھ رہے ہیں کہ امریکی حکومت اور کچھ سائبر سکیورٹی کمپنیوں نے منظم طریقے سے ’چینی ہیکنگ‘ سے متعلق پروپیگنڈہ پھیلانا شروع کر رکھا ہے۔‘
چین نے ایسا بیان کیوں دیا؟
اب یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ چین نے امریکہ پر اتنے سنگین الزامات کیوں لگائے اور انڈیا کے لیے اس بیان کا کیا مطلب ہے؟
چینی امور کے ماہر اور مصنف منوج کیولرامانی کا ماننا ہے کہ انڈیا کو خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ‘کون کیا کہہ رہا ہے اس کے بارے میں فکر کرنے کے بجائے، انڈیا کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ زمینی حقائق کیا ہیں۔
ہم سنہ 2017 سے جو اعداد و شمار دیکھ رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی تھیٹر کمانڈ میں پی ایل اے کے بنیادی ڈھانچے اور بنیاد کی تعمیر کے عمل سے انڈیا کی قومی سلامتی کو خطرہ ہے۔
امریکہ کے خلاف ایسا بیان دینے پرمنوج کیولرامانی کا کہنا ہے کہ ‘میں چین کے ردعمل پر حیران نہیں ہوں کیونکہ چین دنیا کو امریکہ سے اپنے حریفانہ تعلقات کی نظروں سے دیکھتا ہے، ایسے میں ان کی طرف سے ایسا ردعمل آنا معمول کی بات ہے۔‘
چینی امور کی ماہر الکا اچاریہ بھی اس تجزیے سے متفق نظر آتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’چین کی طرف سے اس ردعمل کا آنا فطری ہے۔ چین نہیں چاہتا کہ کوئی تیسرا فریق اس معاملے میں رد عمل ظاہر کرے۔ اور اب انڈیا کی طرف سے بھی ایسے ہی بیانات آ رہے ہیں کہ ہمیں ایسا کرنا ہے۔‘
ان کے مطابق اس مسئلے کو حل کرنا ہو گا۔ بات چیت کا دور چل رہا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ چین کس قسم کا معاہدہ کرے گا۔ ان کے مطابق اگر چین پہل کرتا ہے تو ایسے میں انڈیا کو بھی کچھ اعتماد ہے کہ یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
ان کے مطابق امریکہ اس حوالے سے تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
کیا انڈیا کی خارجہ پالیسی اب دباؤ سے آزاد ہے؟
چین انڈیا تنازعے میں امریکہ کہاں کھڑا ہے؟
واضح رہے کہ انڈیا اور چین کے درمیان تنازعہ سال 2020 میں لداخ میں شروع ہوا تھا۔ اس کے بعد امریکی حکام مختلف مواقع پر بیانات دیتے آ رہے ہیں۔
حال ہی میں امریکہ کے سلامتی کے نائب مشیر دلیپ سنگھ نے ایک بیان دیا تھا، جس پر انھیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
روس یوکرین جنگ شروع ہونے کے تقریباً ایک ماہ بعد انڈیا کا دورہ کرنے والے امریکی نائب این ایس اے نے کہا تھا کہ اگر چین ایل اے سی کی خلاف ورزی کرتا ہے تو روس انڈیا کو بچانے نہیں آئے گا۔
اس بیان کے بعد سوالات اٹھائے گئے کہ کیا امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟
پالیسی میں تسلسل کے معاملے پر منوج کیولرامانی کا کہنا ہے کہ ‘جب امریکی پالیسی کی بات آتی ہے تو ٹرمپ انتظامیہ کے بعد بائیڈن انتظامیہ میں ایک طرح کا تسلسل نظر آتا ہے، تبدیلی صرف یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ کشیدگی کو کم کیا ہے جو ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں پیدا ہوئی تھی۔
تاہم چین کے حوالے سے ان کی پالیسی وہی رہی ہے۔ انڈو پیسیفک میں ان کی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔ پالیسی کے مختلف حصے جیسے کہ فوج اور معیشت اب باہم جُڑے ہوئے ہیں۔ اس میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔‘
انڈین وزارت خارجہ نے اس معاملے میں واضح طور پر کہا ہے کہ انڈین سرحدی علاقوں میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر ہم بہت محتاط نظر رکھے ہوئے ہے۔
دو دن پہلے، وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی کہا ہے کہ ‘ہماری سرحدوں کو محفوظ بنانا ضروری ہے اور ہم یکطرفہ طور پر جمود کو تبدیل کرنے کی کوششوں کو کبھی بھی قبول نہیں کریں گے۔ آپ کو جواب ملے گا۔‘
’جہاں تک سیکیورٹی کا تعلق ہے، ہم اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کریں گے۔ ہم اپنے قابل اعتماد اتحادیوں کے کردار کو تسلیم کرتے ہیں جو انڈیا کو ہر روز محفوظ بنانے میں ہماری مدد کر رہے ہیں۔ ہم ہچکچاہٹ سے نکل آئے ہیں۔ کسی کو ہمارے اختیارات کو ویٹو کرنے دیں۔‘
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انڈیا امریکی پالیسی کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔
الکا اچاریہ کا کہنا ہے کہ ‘انڈیا میں بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ ہمیں چین کے ساتھ اکیلے ہی نمٹنا ہو گا۔ جبکہ امریکہ کی طرف سے کہا گیا کہ اگر آپ چین سے نمٹنا چاہتے ہیں تو آپ مکمل طور پر ہمارے ساتھ آئیں۔‘
دلیپ سنگھ نے اپنے ردعمل میں کہا کہ امریکہ بے صبری کا مظاہرہ کر رہا ہے کہ انڈیا مکمل طور پر اس کے ساتھ آئے اور روس کے خلاف کھڑا ہو جائے لیکن آج تک انڈیا نے توازن برقرار رکھا ہے۔
ان کے مطابق ’انڈیا کے وزیر خارجہ کے بیانات سے بھی یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ابھی انڈیا خود امریکہ سمیت کسی ملک سے بھی چین کے معاملے میں مداخلت کے بارے میں مطالبہ نہیں کر رہا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا چین کے ساتھ خود تمام معاملات کو حل کرنے کا خواہاں ہے۔‘
Comments are closed.