عدالتی تعطیلات: سپریم کورٹ کا گرمیوں میں کام جاری رکھنے کا فیصلہ، عدلیہ میں گرمیوں کی چھٹیوں کی روایت کتنی پرانی ہے؟
- اعظم خان
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان میں لگ بھگ ڈھائی ماہ تک چھوٹی بڑی تمام عدالتیں گرمیوں کی چھٹیوں کے باعث بند پڑی رہتی ہیں
پاکستان کی سپریم کورٹ نے رواں سال موسمِ سرما میں بھی ‘انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے’ کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ‘سپریم کورٹ کو زیرِ التوا مقدمات کا ادراک ہے اس لیے پرنسیپل سیٹ سمیت تمام برانچ رجسٹریوں میں گرمیوں کے دوران کام جاری رہے گا تاکہ عوام کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔’
اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ‘گذشتہ چار ماہ کے دوران سپریم کورٹ نے زیرِ التوا مقدمات نمٹاتے ہوئے اس تعداد میں 1182 مقدمات کی کمی لائی گئی ہے۔’
خیال رہے کہ پاکستان میں لگ بھگ ڈھائی ماہ تک چھوٹی بڑی تمام عدالتیں گرمیوں کی چھٹیوں کے باعث بند پڑی رہتی تھیں۔ عدالتوں سے منسلک سرکاری ملازمین کو حاصل یہ ‘سہولت’ ملک میں کسی دوسرے سرکاری ادارے کو حاصل نہیں ہے۔
عموماً اس دوران اگر عدالتوں میں انتہائی ضروری نوعیت کے کیسز آئیں تو چھٹیوں میں مقدمات ڈیوٹی ججز سنتے تھے۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں پہلے ہی اعلیٰ عدالتوں میں لاکھوں کیسز سالہا سال سے فیصلے کے منتظر ہیں وہاں ججوں کے تعطیلات پر ہونے کی وجہ سے ہزاروں سائلین کو مزید پریشانی اٹھانا پڑتی تھی اور اس حوالے سے کئی حلقوں کی جانب سے عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا چکا ہے۔
آئیے جانتے ہیں کہ عدلیہ میں چھٹیوں کی روایت کیسے پڑی اور کیا زیرِ التوا مقدمات کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود ججوں کا چھٹیوں پر جانا بھی ضروری ہے؟
عمومی طور پر انگریز جج موسمِ گرما میں برصغیر سے واپس برطانیہ چلے جاتے تھے یا پھر کسی پرفزا پہاڑی مقام پر اپنا ڈیرہ لگاتے
چھٹیوں کی ابتدا کیسے ہوئی؟
عدالتی چھٹیوں کی روایت کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قیام سے قبل یہاں موجود برطانوی حکام نے اس خطے میں گرم ترین مہینوں میں موسم کی سختی سے بچنے اور اپنی سہولت کے لیے گرمیوں کی چھٹیوں کا شیڈول بنایا تھا۔
عمومی طور پر انگریز جج موسمِ گرما میں برصغیر سے واپس برطانیہ چلے جاتے تھے یا پھر کسی پرفضا پہاڑی مقام پر اپنا ڈیرہ لگاتے۔
گورے جج تو چلے گئے مگر اپنی یہ روایت پاکستانی عدلیہ کے لیے ترکے میں چھوڑ گئے۔ ان کے جانے کے تقریباً 70 سال بعد بھی برصغیر کے دونوں بڑے ممالک انڈیا اور پاکستان آج بھی اس روایت پر عمل پیرا ہیں۔
ان دونوں ممالک کی عدالتوں میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک میں روایت کیا ہے؟
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لندن میں مقیم ایک وکیل مزمل مختار کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں سرکاری عام تعطیلات کے علاوہ چھٹیوں (یا گرمی کی چھٹیوں) کا کوئی تصور سرے سے موجود نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘ہر سرکاری ملازم کی طرح جج کی بھی سالانہ چھٹیاں ضرور ہوتی ہیں لیکن عدلیہ کا پورا ادارہ مخصوص دنوں یا مہینوں کے لیے چھٹیوں پر نہیں جاتا۔
’عام تعطیلات کے دنوں میں ڈیوٹی جج دستیاب ہوتے ہیں۔ گرمیوں یا سردیوں کے موسم میں ججوں کے چھٹیوں پر چلے جانے کی روایت پورے یورپ میں کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی۔’
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں عدالتیں آٹھ گھنٹے کام کرتی ہیں جبکہ رات کے اوقات میں بھی ڈیوٹی ججز دستیاب ہوتے ہیں۔
ایڈووکیٹ یاسر لطیف ہمدانی کے مطابق ’امریکہ کی عدلیہ میں بھی اس طرح کی کوئی روایت نہیں ہے۔ یہ روایت صرف برصغیر تک ہی محدود ہے۔’
عرفان قادر کہتے ہیں کہ عدالتوں میں زیرِ التوا مقدمات میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے اور اس بوجھ کو سمیٹنے کے لیے اب عدالتوں کو 24 گھنٹے کام کرنا چاہیے
چھٹیاں کتنی ضروری ہیں؟
سالانہ چھٹیوں کی حمایت کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کی سابق جج جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید کا کہنا تھا ججوں کا کام بہت سٹریس والا ہوتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ناصرہ جاوید نے کہا ہے کہ ’ہر محکمے میں سالانہ چھٹیاں ملتی ہیں تو پھر جج کسی دوسرے سیارے سے تو نہیں آئے۔
انھوں نے بتایا کہ ’ججوں کے لیے آج بھی پرفضا مقامات پر ریسٹ ہاوسز قائم ہیں جہاں جا کر وہ گرمیوں کی چھٹیاں گزار سکتے ہیں۔‘
پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر لاہور ہائی کورٹ میں جج کے فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ عدالتوں میں زیرِ التوا مقدمات میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے اور اس بوجھ کو سمیٹنے کے لیے اب عدالتوں کو 24 گھنٹے کام کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ججز کی تعداد بڑھا کر شام کو بھی عدالتیں لگائی جانی چائیں۔’
ناصرہ جاوید کے خیال میں زیر التوا مقدمات کا ججز کی چھٹیوں سے کوئی تعلق نہیں۔
‘ہمارا عدالتی نظام حریفانہ بنیادوں پر کام کرتا ہے، ججز پرطرح طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں، انھیں بہت تنقید کا سامنا ہوتا ہے۔ اب ججز کے پاس بھی سمارٹ فونز ہوتے ہیں وہ سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید سے بھی آگاہ ہوتے ہیں۔’
عرفان قادر کا کہنا ہے کہ انگریز دور میں جب ججز گرمیوں کی چھٹیاں کرتے تھے تو اس وقت زیرِالتوا مقدمات کی اس قدر بھرمار بھی نہیں تھی۔
‘جج چھٹیاں ضرور کریں مگر زیرِ التوا مقدمات پر بھی کوئی حکمتِ عملی بننی چاہیے۔’
ناصرہ جاوید اس موقف سے اختلاف کرتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جج اہم مقدمات کی نوعیت کو مدِنظر رکھتے ہیں اور چھٹیاں اس ترتیب سے کی جاتی ہیں کہ آدھی عدالت ہرصورت دستیاب رہے۔‘
عرفان قادر کہتے ہیں کہ انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے حوالے سے پارلیمنٹ میں بھی سنجیدہ نوعیت کی قانون سازی نہیں ہو رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور صرف کانفرنسز سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔‘
Comments are closed.