حج 2022: برطانیہ کے مسلمان حج کے نئے ڈیجیٹل بُکنگ سسٹم سے پریشان کیوں ہیں؟
- راحیلہ بانو
- بی بی سی نیوز
سعودی حکومت کی جانب سے آن لائن بکنگ کے نفاذ کے بعد مسلمانوں کے مقدس شہر مکہ میں حج کے لیے جانے کی امید رکھنے والے برطانوی مسلمانوں کے ہزاروں پاؤنڈز ضائع ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
عازمین حج سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی دلچسپی کے اندراج کے لیے ایک ویب سائٹ کا استعمال کریں جس کے بعد قرعہ اندازی ہو گی کہ کون حج پر جائے گا۔
برطانوی عازمین حج میں سے کچھ نے پہلے ہی حج ٹوئر آپریٹرز کے ساتھ بُکنگ کروا رکھی ہے اور اب سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے نئی شرط کے نفاذ کے بعد ان کے پیسے ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔
واضح رہے کہ حج تمام مسلمانوں کے لیے ایک مذہبی فریضہ ہے جو اس کی استطاعت رکھتے ہیں۔ یعنی ایسے مسلمان جو حج کی استطاعت رکھتے ان پر زندگی میں ایک بار حج فرض ہے۔
برطانیہ سے ایک حج کے سفری اخراجات چھ ہزار پاؤنڈ سے لے کر دس ہزار پاؤنڈ بنتے ہیں۔ اس رقم کے لیے بہت سے مسلمان سال بھر بچت کرتے ہیں۔
فہمیدہ، فرضی نام، کی عمر 30 سال ہے اور وہ برطانیہ کے شمال مغرب میں رہتی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ دو سال سے اپنے خاندان اور رشتہ داروں کے ساتھ فریضہ حج ادا کرنے کے لیے مکہ جانے کا انتظار کر رہی ہیں۔
انھوں نے اس حج کے سفر کے انتظامات کے لیے ایک مقامی ٹریول ایجنٹ کے پاس رجسٹریشن کروائی تھی اور وہ اپنے اسلامی عقیدے کے ایک اہم حصے کو پورا کرنے کے لیے بہت پرجوش تھیں۔
فہمیدہ نے کہا کہ جب انھوں نے سنا کہ انھیں اور ان کے خاوند کو آن لائن بکنگ کرانا ہو گی تب سے ان کا دل ٹوٹ گیا ہے۔ فہمیدہ کے مطابق یہ بہت ہی پریشان کن صورتحال تھی جس نے ہمیں رلا دیا۔
فہمیدہ نئے ڈیجیٹل بُکنگ سسٹم کے استعمال کے بارے میں بھی غیر یقینی کا شکار تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ’وہ نہیں جانتی تھیں کہ انھیں کس قسم کی سروس ملے گی، اور اس سروس میں کیا وہ تمام تاریخی مقامات کا دورہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے، اس سفر پر کتنا خرچ آئے گا، اور اگر کچھ غلط ہو جائے تو ایسی صورت میں کس سے شکایت کی جائے۔‘
اپنے خدشات کے باوجود انھوں نے ڈیجیٹل پورٹل کے ذریعے اپنا اور اپنے شوہر کا نام حج کی غرض سے رجسٹر کروایا لیکن وہ اس بات پر پریشان ہیں کہ انھیں اس سفر کی تیاری کے لیے کتنا وقت درکار ہو سکتا ہے۔
ٹریول ایجنٹ محسن شاہ کے مطابق نئے آن لائن نظام کے نفاذ سے عازمین کا پیسہ ضائع ہونے کا خطرہ ہے
ان کے مطابق اگر آپ عملی طور پر سوچیں تو اس سفر کے لیے جانا ممکن نہیں لگتا۔ میرے بچے ہیں جو سکول جاتے ہیں۔ وہ فٹ بال اور کرکٹ کھیلتے ہیں، پڑھنے کے لیے مدرسے جاتے ہیں۔
آل پارٹی پارلیمانی گروپ برائے حج و عمرہ کی سربراہ یاسمین قریشی نے حج و عمرہ کے وزیر توفیق بن فوزان الربیعہ کو خط لکھ کر نئے نظام کے نفاذ کو اگلے سال تک مؤخر کرنے کی درخواست کی ہے۔
بی بی سی کو بھی یہ خط پڑھنے کے لیے دیا گیا ہے، جس میں یاسمین قریشی نے پوچھا ہے کہ کیا سعودی سروس فراہم کرنے والوں کو ادا کی گئی رقم واپس کر دی جائے گی۔
انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ پریشان ہیں کہ جن مسلمانوں نے سنہ 2020 میں اپنا سفر ملتوی کیا تھا اگر ان کا حج رواں برس بھی ممکن نہ ہو سکا تو پھر ایسے میں انھیں بڑے مالی نقصان جیسے خطرے کا بھی سامنا ہے۔
وہ اس بارے میں بھی فکر مند ہیں کہ نئی سکیم کے تحت حجاج کے پیسے کی حفاظت کیسے کی جائے گی۔
یاسمین قریشی نے درخواست کی ہے کہ ‘یقینی طور پر اس سال کے لیے، پورٹل سسٹم کو متعارف نہ کروایا جائے کیونکہ اس سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ ان کے مطابق اگر تمام معاملات ٹھیک سے آگے نہیں بڑھے تو پھر ایسے میں آپ کس سے شکایت کریں گے؟‘
ابھی یہ بھی واضح نہیں ہے کہ برطانیہ کے لیے کتنے حج ویزے مختص کیے جائیں گے۔ اس سے قبل ہر برس برطانیہ سے تقریباً 25 ہزار عازمین حج کے لیے سفر کرتے تھے۔
عرب میڈیا میں کچھ خبروں کے مطابق یہ تعداد رواں برس آدھی تک کم کی جا سکتی ہے۔ برطانیہ میں ٹریول ایجنٹس جو عازمین کے لیے سفر حج کا اہتمام کرنے میں مہارت رکھتے ہیں وہ بھی اب پریشان ہیں کیونکہ اب انھیں بھی مالی نقصان اٹھانا پڑے گا۔
مانچسٹر میں مقیم ٹریول ایجنٹ محسن شاہ اور لندن میں مقیم ان کے ساتھی اس ماہ کے آخر میں 48 عازمین کو مکہ لے جانے والے تھے۔
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے کہا کہ اب تمام عازمین کو دوبارہ آن لائن بکنگ کرنا ہو گی اور وہ نہیں جانتے کہ ان میں سے اب کتنے عازمین کو ویزا مل سکے گا۔
انھوں نے فائیو سٹار ہوٹل میں انتظامات کے لیے عازمین سے فی کس 9500 پاؤنڈ تک کا خرچ لیا اور پھر اس رقم میں سے مکہ میں ہوٹلوں اور ٹرانسپورٹ فراہم کرنے والوں کو ادائیگی تک بھی کر دی۔
ان کے مطابق اس صورتحال کے ان پر بڑے مالی اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ ہمیں یقین نہیں ہے کہ کیا ہونے والا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے پہلے سے ہی پرانے نظام کے تحت ہوٹل اور ٹرانسپورٹ کی بکنگ کروا دی تھی۔
ادارہ برائے قومی شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ میں 37 لاکھ سے زیادہ مسلمان ہیں۔ یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا کے تمام عازمین حج کو بھی اپنے حج کی بکنگ کے لیے نئے آن لائن پورٹل کا استعمال کرنا ہو گا۔
بی بی سی نے لائسنس یافتہ حج آرگنائزرز یو کے، ایک آزاد صنعت کے نگراں ادارے، اور کونسل برائے برٹش حاجی یو کے سے تبصرہ کے لیے رابطہ کیا ہے۔ سعودی حکومت سے بھی تبصرہ کرنے کو کہا گیا ہے۔ تاہم تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
Comments are closed.