میں ہی درست ہوں جیسی خود فریبی: کہیں آپ بھی تو اس کا شکار نہیں؟
ہومز کو 20 سال کی قید کا سامنا ہے
آج میڈیا ان لوگوں سے بھرا پڑا ہے جنھوں نے ایک جھوٹ کے سہارے زندگی گزار دی ہے۔
الزبتھ ہومز ایک بائیوٹیک انٹرپرینیور ہیں جنھیں سنہ 2015 میں ایسی خاتون قرار دیا گیا جو اپنی محنت اور کام کی وجہ سے سب سے کم عمر امیر ترین ارب پتی بنیں۔ اب دھوکہ دہی کے الزام میں انھیں 20 سال قید کا سامنا ہے۔
اسی طرح ایک اینا سوروکین عرف انا ڈیلوی ہیں جنھوں نے وراثت میں جرمنی سے بہت مال و دولت حاصل کرنے کا بہانہ کیا اور اس کے بعد نیویارک کی اعلیٰ سوسائٹی کو لاکھوں ڈالر کا دھوکہ دیا۔ اور پھر شیمون ہیوت، عرف سائمن لیویو ہیں جو نام نہاد ٹنڈر سکیمر ہیں۔
ان تمام لوگوں کی قدر مشترک یہ نہیں کہ انھوں نے دوسروں سے جھوٹ بولا بلکہ انھوں نے خود سے بھی جھوٹ بولا۔ ان میں سے ہر ایک کا خیال تھا کہ ان کے اعمال کسی نہ کسی طرح جائز تھے، اور تمام تر مشکلات کے باوجود انھیں یقین تھا کہ وہ کبھی نہیں پکڑے جائيں گے۔ وقت بے وقت وہ نہ صرف ذاتی طور پر حقیقت سے انکار کرتے نظر آئے بلکہ دوسروں کو بھی اپنے گھپلوں میں گھسیٹتے رہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس قسم کا رویہ نسبتاً نایاب رجحان ہے، جو چند انتہائی حالات تک محدود ہے۔ لیکن خود فریبی ناقابل یقین حد تک عام ہے اور ہو سکتا ہے کہ کچھ ذاتی فائدے کے لیے یہ معرض وجود میں آیا ہو۔
ہم اپنی شبیہ کی حفاظت کے لیے خود سے جھوٹ بولتے ہیں جس سے ہمیں صاف ضمیر کے ساتھ غیر اخلاقی کام کرنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ تازہ ترین تحقیق کے مطابق خود فریبی دوسروں کو قائل کرنے میں مدد کے لیے وجود میں آئی۔ اگر ہم اپنے جھوٹ پر خود ہی یقین کرنا شروع کر دیں تو دوسرے لوگوں کو یقین کرانا بہت آسان ہو جاتا ہے۔
حالیہ برسوں میں شہ سرخیوں میں آنے والے گھپلوں سے کہیں زیادہ یہ تحقیق زندگی کے بہت سے شعبوں میں قابل اعتراض رویے کی وضاحت کر سکتی ہے۔ خود فریبی میں اہم کردار ادا کرنے والے مختلف عوامل کو سمجھ کر، ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ کب یہ ہمارے اپنے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے اور ہمیں گمراہ کرنے سے روک سکتی ہے۔
روسی اینا نے لوگوں کو یہ کہہ کر دھوکہ دیا کہ وہ ایک امیر جرمن خاندان کی وارث ہیں
انا کی حفاظت
کوئی بھی ماہر نفسیات آپ کو بتائے گا کہ سائنسی طور پر خود فریبی کا مطالعہ کرنا درد سر ہے۔ آپ کسی سے یہ نہیں پوچھ سکتے کہ کیا وہ خود کو دھوکہ دے رہے ہیں یا خود سے مذاق کر رہے ہیں، کیونکہ یہ لاشعوری طور پر ہوتا ہے۔ نتیجے کے طور پر اس کے متعلق تجربات اکثر بہت پیچیدہ ہوتے ہیں۔
آئیے امریکہ کی ییل یونیورسٹی میں مارکیٹنگ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر زو چانس کی تحقیق سے آغاز کرتے ہیں۔ سنہ 2011 میں ایک اختراع پسندانہ تجربے میں انھوں نے دکھایا کہ بہت سے لوگ لاشعوری طور پر اپنی انا کی تسکین کی خاطر خود فریبی کا سہارا لیتے ہیں۔
انھوں نے شرکاء کے ایک گروپ سے آئی کیو یعنی ذہانت کا ٹیسٹ دینے کے لیے کہا جس میں جوابات کی فہرست صفحہ کے نیچے چھپی تھی۔ توقع کے مطابق اس گروپ نے ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جن کی کاپی پر جوابات نہیں چھپے تھے۔
تاہم وہ اس بات کو تسلیم کرتے نظر نہیں آئے کہ انھوں نے ‘چیٹ شیٹ’ یعنی نقل والی کاپی پر کتنا بھروسہ کیا تھا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ وہ بغیر جوابات والی شیٹ کے بھی مزید 100 سوالات کے جوابات میں اسی طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔ کسی نہ کسی طرح انھوں نے اپنے آپ کو اس بات پر مائل کر لیا تھا یا خود کو دھوکے میں ڈال چکے تھے کہ وہ بغیر کسی مدد کے بھی مسائل کا حل جانتے ہیں۔
اس نتیجے پر یقین کرنے کے لیے، چانس نے شرکاء کے ایک نئے گروپ کے ساتھ پورے تجربے کو دہرایا۔ اس بار شرکاء کو دوسرے ٹرائل پر اپنے نتائج کی درست پشین گوئی کرنے پر مالی معاوضے کی پیشکش کی اور حد سے زیادہ پراعتماد دعوے پر جرمانہ کی بات کہی۔ اگر شرکاء اپنے رویے سے واقف ہوتے تو اس ترغیب سے ان کے زیادہ اعتماد کو کم ہونے کی توقع کی جا سکتی تھی۔
خود اعتمادی کا ٹیسٹ
درحقیقت اس پیشکش اور جرمانے نے شرکاء کی بڑھی ہوئی خود اعتمادی کو کم کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا کیونکہ اس کے باوجود بھی وہ اپنے آپ کو یہ سوچ کر دھوکا دے گئے کہ وہ زیادہ ہوشیار ہیں جالانکہ انھیں پتا تھا کہ وہ پیسے کھو دیں گے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے بارے میں ان کے خیالات حقیقی اور حیرت انگیز طور پر مضبوط تھے۔
یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ اسے حقیقی زندگی میں کیسے دیکھا کیا جا سکتا ہے۔ ایک سائنسدان یہ محسوس کر سکتا ہے کہ جعلی ڈیٹا کے استعمال کے باوجود اس کے نتائج حقیقی تھے۔ ایک طالب علم کو اس بات پر یقین ہو سکتا ہے کہ اس نے امتحان میں دھوکہ دہی کے باوجود ایک ممتاز یونیورسٹی میں اپنا مقام حاصل کیا ہے۔
اخلاقی سنجیدگی
خود کی تصویر بہتر بنانے کے لیے خود فریبی کا استعمال حال میں بہت سے دوسرے معاملوں میں دیکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ کے سان ڈیاگو میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں اکنامکس کے پروفیسر یوری جنیزی نے حال ہی میں یہ دکھایا ہے کہ خود فریبی کس طرح ہمارے کام میں ممکنہ مفادات کے تنازعات کو جواز بنانے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔
سنہ 2020 کے مطالعے میں جنیزی نے شرکاء سے کہا کہ وہ سرمایہ کاری کے مشیروں یا گاہک کا کردار ادا کریں۔ مشیروں کے سامنے دو مختلف آپشنز رکھے گئے، جن میں سے ہر ایک میں مضمر مختلف خطرات اور فوائد کو ظاہر کیا گیا تھا۔ انھیں یہ بھی بتایا گیا کہ اگر گاہک دو سرمایہ کاری میں سے کسی ایک کا بھی انتخاب کرتا ہے تو انھیں کمیشن ملے گا۔
تجربوں کی سیریز میں مشیروں کو اس سے پہلے کہ وہ مختلف آپشنز پر غور کریں، تجربے کے آغاز میں ہی اس ممکنہ انعام کے بارے میں مطلع کر دیا گیا۔ جب وہ بظاہر گاہک کے لیے بہترین آپشن کا انتخاب کر رہے تھے، تو ان کے اس آپشن کو منتخب کرنے کا زیادہ امکان تھا جو ان کے لیے سازگار تھا۔
ایک دوسری تحقیق میں پایا گیا کہ بزنس کی دنیا میں خود فریبی زیادہ عام ہے
تاہم، باقی ٹیسٹوں میں، مشیروں کو اس ممکنہ انعام کے بارے میں صرف اس وقت بتایا گیا جب انھیں ہر ایک کے فوائد اور نقصانات کو جانچنے کے لیے کچھ وقت دیا گیا۔ اس بار کسی نے بھی انعام کو اپنے فیصلے پر اثر انداز ہونے نہیں دیا اور گاہک کو بہترین مشورہ دینے کے اپنے مقصد پر قائم رہے۔
جنیزی کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ ذاتی فائدے کے علم نے صرف پہلی صورت حال میں شامل شرکاء کے فیصلے کو متاثر کیا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ ان کی خود فریبی غیر شعوری تھی، اس نے تعصب کو محسوس کیے بغیر فوائد اور خطرات کا حساب لگانے کا طریقہ بدل دیا تاکہ وہ محسوس کر سکیں کہ وہ اب بھی گاہکوں کے مفاد میں کام کر رہے ہیں۔
دوسری صورت میں اس کے لیے مکمل قلب ماہیت یا دل کی تبدیلی کی ضرورت ہوتی اور پھر کسی کو خود کو درست ثابت کرنا زیادہ مشکل ہو جاتا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں ’وہ خود کو اس بات پر قائل نہیں کر سکتے کہ وہ اخلاقی طور پر کام کریں گے۔‘
یہ بھی پڑھیے
جنیزی کا کہنا ہے کہ اس طرح سے خود فریبی ایک طرح سے ہمارے اخلاقی احساسِ کی پاسداری کا ایک طریقہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اپنے آپ کو اچھے لوگوں کے طور پر دیکھنا جاری رکھ سکتے ہیں حالانکہ ہمارے اعمال اس کے برعکس ظاہر ہو رہے ہیں۔
خود فریبی کی یہ شکل مالیاتی مشیروں کے معاملے میں زیادہ موزوں ہو سکتی ہے۔ لیکن جنیزی کا خیال ہے کہ یہ نجی صحت کی دیکھ بھال میں بھی اہم ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اچھے ارادوں کے باوجود ایک ڈاکٹر لاشعوری طور پر اپنی خود فریبی کو تسلیم کیے بغیر اپنے آپ کو یہ سوچنے کے لیے دھوکہ دے سکتا ہے کہ سب سے مہنگا علاج ہی مریض کے لیے بہترین ہے۔‘
خود فریبی ہمیں خود کو بہتر دکھاتی ہے جبکہ حقیقت وہ نہیں ہوتی ہے
اپنے آپ کو قائل کرنا، دوسروں کو قائل کرنا
خود فریبی کا سب سے حیران کن نتیجہ شاید دوسروں کے ساتھ ہماری گفتگو سے متعلق ہے۔
اس نظریہ کے مطابق، خود فریبی ہمیں اپنی باتوں پر زیادہ اعتماد ظاہر کرنے کی اجازت دیتی ہے جس سے ہم زیادہ قائل کرنے والی باتیں کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کوئی مشکوک چیز بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں اور آپ واقعی یہ مانتے ہیں کہ یہ ایک اعلیٰ معیار کا سودا ہے، تو آپ اس کے لیے بہتر جواز پیش کریں چاہے شواہد کچھ اور ہی کیوں نہ کہتے ہوں۔
یہ مفروضہ پہلی بار کئی دہائیوں پہلے تجویز کیا گیا تھا اور امریکہ کی کارنیگی میلن یونیورسٹی میں بیہیویئرول اکانومکس کے اسسٹنٹ پروفیسر پیٹر شوارڈمین کا ایک حالیہ مضمون اس خیال کا مضبوط ثبوت فراہم کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
چانس کے مطالعے کی طرح شوارڈمین کے ابتدائی تجربات آئی کیو یعنی ذہانت کے ٹیسٹ کے ساتھ شروع ہوئے۔
شرکاء کو ٹیسٹ کے نتائج نہیں دیے گئے۔ لیکن ٹیسٹ ختم ہونے کے بعد انھیں اپنی کارکردگی کی درجہ بندی کرنے کے لیے کہا گیا کہ ان کے خیال میں انھوں نے کیسا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے قائل کرنے کا امتحان لیا جس کے تحت انھیں فرضی آجروں کی جیوری کے سامنے پیش ہونا تھا اور پینل کو اپنی دانشورانہ صلاحیت کے متعلق قائل کرنا تھا، اگر ججوں کو یقین ہو کہ وہ گروپ میں سب سے زیادہ ہوشیار ہیں تو ممکنہ طور پر وہ 16 امریکی ڈالر کے انعام کے مستحق ہوں گے۔
ملازمت کے انٹرویو میں خود کو زیادہ باصلاحیت دکھانے کی کوشش نظر آئی
کچھ لوگوں کو اپنی کارکردگی کے متعلق خود اپنی درجہ بندی کرنے سے قبل قائل کرنے کے کام کے بارے میں بتا دیا گیا تھا جبکہ دوسروں کو اس کے بارے میں بعد میں بتایا گیا۔ مفروضے کے مطابق شوارڈمین نے پایا کہ اس چیز نے ان کی صلاحیتوں کی درجہ بندی کو تبدیل کر دیا۔ جنھیں پہلے سے علم تھا کہ انہیں دوسروں کو قائل کرنا پڑے گا ان میں اپنی کارکردگی کی درجہ بندی ظاہر کرنے میں زیادہ اعتماد دیکھا گیا بنسبت ان لوگوں کے جنھیں اس کا علم نہیں تھا۔
دوسروں کو قائل کرنے کی ضرورت کے علم نے انھیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ وہ زیادہ ہوشیار ہیں جبکہ وہ واقعی اتنے ہوشیار نہیں تھے۔
انھوں نے اسے ایک قسم کے ’ریفلیکس‘ (غیر اختیاری عمل) کے طور پر بیان کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ شوارڈمین کے تجربات نے ظاہر کیا کہ خود فریبی کا نتیجہ بہتر نکلا۔ بے بنیاد حد سے زیادہ اعتماد دراصل لوگوں کے فرضی آجروں کو قائل کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کا موجب بنا۔
جانبداری
شوارڈمین نے اسی طرح کے عمل کو ڈیبیٹ یعنی علمی مباحثوں کے مقابلوں میں دیکھا ہے۔ اس قسم کی تقریبات میں شرکاء کو ایک موضوع دیا جاتا ہے اور پھر انھین اس کے حق میں یا ان کے خلاف اپنا موقف رکھنے کے لیے اور دلائل پیش کرنے کے لیے 15 منٹ کا وقت دیا جاتا ہے۔ بحث کے دوران فیصلہ اس بات پر کیا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے نقطۂ نظر کو کتنی اچھی طرح سے پیش کیا ہے۔
شوارڈمین نے شرکاء کے ذاتی خيال کو مسائل کے پس منظر میں جانچا۔ اس سے پہلے کہ انھیں ان کا موضوع اور موقف تفویض کیا جائے یا جب وہ اپنے دلائل تیار کرنے لگیں اور پھر مباحثے کے بعد۔
امریکی یونیورسٹی کے ایک تجربے میں یہ بات سامنے آئی کہ خود فریبی لوگوں کو قائل کرنے کی جانب لے جاتی ہے
انھوں نے پایا کہ کس طرح خود فریبی ہمیں دوسروں کو قائل کرنے میں مدد کرنے کے لیے تیار ہوئی۔ انھوں نے دیکھا کہ کس طرح لوگوں کی رائے بدلی جب انھیں کسی موضوع کے حق میں یا اس کی مخالفت میں بولنے کے لیے کہا گیا۔
شوارڈمین کا کہنا ہے کہ ’ان کے نجی تصورات اس طرف چلے گئے جو موضوع انھیں صرف 15 منٹ پہلے دیا گیا تھا، تاکہ وہ اپنے دلائل سے دوسروں کو قائل کر سکیں۔‘
بحث و مباحثے کے بعد، شرکاء کو ممکنہ تنظیموں کی ایک طویل فہرست میں سے منتخب کردہ خیراتی اداروں کے لیے تھوڑی سی رقم مختص کرنے کا موقع بھی ملا۔ شوارڈمین نے محسوس کیا کہ وہ ایسی تنظیموں کو منتخب کرنے کے بہت زیادہ امکان رکھتے ہیں جو ان کی پیش کردہ دلیل کے مطابق ہوں، اگرچہ انھوں نے ابتدا میں انھیں یوں ہی منتخب کیا تھا۔
ہمارے بہت سے تصورات اس طرح بنے ہوں گے۔ سیاست میں یہ ہو سکتا ہے کہ ایک کارکن کو جسے کسی خاص نکتے پر مہم چلانے کے لیے کہا جاتا ہے وہ دراصل اپنے آپ کو یہ باور کراتا ہے کہ اس کو دیکھنے کا یہی واحد نقطۂ نظر ہے، اس لیے نہیں کہ اس نے حقائق کا بغور جائزہ لیا ہے، بلکہ محض اس لیے کہ انھیں ایسا کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ شوارڈمین کا خیال ہے کہ زیادہ تر سیاسی پولرائزیشن جو ہم آج دیکھ رہے ہیں ان کے پیچھے اسی طرح کے عوامل کارفرما ہیں۔
عظمت کا وہم
ان تمام طریقوں سے پتا چلتا ہے کہ ہمارا دماغ ہمیں ایسی چیزوں پر یقین کرنے کے لیے دھوکہ دے سکتا ہے جو درست نہیں ہیں۔ خود فریبی ہمیں اپنی صلاحیتوں کے بارے میں اپنی رائے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی اجازت دیتی ہے تاکہ ہمیں یقین ہو کہ ہم اپنے آس پاس کے فرد سے زیادہ ہوشیار ہیں۔
شیمون ہیوت کے بارے میں کہا جاتا ہے ان میں میں اہم ہوں جیسی خود فریبی گھر کر گئی تھی
اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنے عمل کے متلعق دوسرے لوگوں کے تاثرات کو نظر انداز کرتے ہیں، تاکہ ہمیں یقین ہو کہ ہم عام طور پر اخلاقی طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ اور اپنے خیالات کی سچائی کے بارے میں خود کو دھوکہ دے کر، ہم اپنی رائے پر زیادہ یقین ظاہر کرتے ہیں، جو کہ بدلے میں ہمیں دوسروں کو قائل کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔
ہم کبھی نہیں جان سکتے کہ ہومز، سوروکن یا ہیوت اور دیگر دھوکہ بازوں کے ذہنوں میں واقعی کیا چل رہا تھا، لیکن یہ قیاس کرنا آسان ہے کہ ان کے اندر کچھ میکانزم کس طرح کام کر رہے تھے۔
کم از کم، ایسا لگتا ہے کہ یہ جعل ساز اپنی صلاحیتوں کے بارے میں غیر معمولی طور پر اونچیٰ رائے رکھتے تھے اور یہ سوچتے تھے کہ جو کچھ وہ چاہتے ہیں اسے حاصل کرنے کا انھیں حق ہے، اور جو کچھ وہ کر رہے تھے اس کے ممکنہ اخلاقی مضمرات کو بخوشی نظر انداز کر رہے تھے۔
ایسا لگتا ہے کہ بطور خاص ہومز کو اپنی مصنوعات پر بہت یقین تھا کہ وہ گمراہ کن اعداد و شمار کے ساتھ اس کے استعمال کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ تمام شواہد کے برعکس انھوں نے مقدمے کی سماعت میں گواہی دی کہ ’سیمنز جیسی بڑی میڈیکل ڈیوائس کمپنیاں آسانی سے جو کچھ ہم نے کیا ہے اس کی نقل تیار کر سکتی ہیں۔‘ جبکہ ہیوت کا دعویٰ ہے کہ وہ ’سب سے زیادہ شریف انسان‘ ہیں اور انھوں کچھ غلط نہیں کیا۔
شوارڈمین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ کچھ سکیمرز ناقابل یقین حد تک اپنے جھوٹ کو غذا فراہم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ تو پوچھنے پر سچ مچ کا غصہ بھی ظاہر کرتے ہیں، جسے جعلی کہنا مشکل ہو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’شاید یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ واقعی اپنے جھوٹ پر یقین رکھتے ہیں۔‘
یہ جاننا دلچسپ ہوگا کہ سماجی حیثیت کی خواہش لوگوں میں خود فریبی کے رجحان کو بڑھاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر جب لوگ دوسروں کی طرف سے خطرہ محسوس کرتے ہیں تو وہ اپنی صلاحیتوں کو حقیقت سے زیادہ محسوس کرتے ہیں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ جتنا زیادہ خطرہ ہو، اتنی ہی بڑی خود فریبی میں ہم مبتلا ہو سکتے ہیں۔
پہلا قدم مسئلے کو پہچاننا ہے
زیادہ تر وقت ہماری خود فریبی بے ضرر اور پوشیدہ ہو سکتی ہے، جو ہمیں نسبتا تھوڑا زیادہ پراعتماد محسوس کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ لیکن خاص طور پر اگر ہم زندگی بدل دینے والے فیصلے کر رہے ہوں تو یہ ہمیشہ ان رجحانات میں سرفہرست رہتی ہے۔ مثال کے طور پر، آپ اپنی موجودہ ملازمت میں شارٹ کٹ لینے کے خطرات، یا کیرئیر میں کوئی بڑی تبدیلی کی کامیابی کے امکانات کے بارے میں خود کو فریب دینے سے بچتے ہیں۔
ہر قسم کے تعصبات سے دور رہنے کا ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے نتائج کے ’مخالف پر غور کریں۔‘ تکنیک اتنی ہی آسان ہے جتنی کہ نظر آتی ہے: آپ ان تمام وجوہات کو تلاش کرنے کی کوشش کریں کہ آپ کا خیال غلط کیوں ہو سکتا ہے، جیسے کہ آپ خود سے سوال کر رہے ہوں۔
متعدد مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ہمیں کسی صورت حال کے بارے میں مزید تجزیاتی طور پر سوچنے کی طرف لے جاتا ہے۔ لیبارٹری ٹیسٹوں میں، یہ منظم استدلال صرف لوگوں کو ’عقلی طور پر سوچنے‘ کے لیے کہنے سے کہیں زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے۔
یہ اسی وقت ممکن ہے جب آپ یقیناً اپنی خامیوں کو قبول کریں۔ پہلا قدم مسئلے کو پہچاننا ہے۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ آپ کو اس مشورے کی ضرورت نہیں ہے، یہ کہ خود فریبی صرف دوسروں کے ساتھ ہوتی ہے جبکہ آپ اپنے ساتھ بالکل مخلص ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ آپ کے لیے سب سے بڑا دھوکہ ہو سکتا ہے یعنی آپ یقینا خود فریبی کا شکار ہیں۔
Comments are closed.