روس یوکرین جنگ: یوکرین کے مشرقی شہر میں کیمیکل پلانٹ پر حملہ، خارخیو میں وسیع پیمانے پر کلسٹر بموں کے استعمال کے شواہد ملے ہیں
- جوئل گنٹر
- خارخیو، یوکرین
خارخیو میں پلے گراؤنڈ کے قریب کھڑی کار کی چھت پر کلسٹر گولہ بارود کے نشانات دیکھے جا سکتے ہیں
یوکرین میں روسی حملے جاری ہیں اور یوکرینی حکام نے روسی افواج پر الزام عائد کیا ہے کہ ان کی گولہ باری کے نتیجے میں اہم مشرقی شہر سیویرودونتسک کے ازوٹ کیمیکل پلانٹ میں آگ لگ گئی ہے۔ مبینہ طور پر یہاں 800 شہری پناہ لیے ہوئے ہیں۔
علاقے کے گورنر کا کہنا ہے کہ شہر میں مسلسل لڑائی جاری ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ یوکرینی فورسز کا ازوٹ پلانٹ پر کنٹرول برقرار ہے دوسری جانب لوہانسک میں روسی افواج اور ان کے علیحدگی پسند اتحادیوں نے کہا ہے کہ وہ اس بڑے کیمیائی پلانٹ پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
یوکرین نے مغربی ممالک سے ملک کے مشرق میں روسی افواج کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بھاری ہتھیاروں کی تیز تر فراہمی کی اپیل کی ہے۔
دوسری جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل کی نئی تحقیق کے مطابق روس نے شمال مشرقی یوکرین کے شہر خارخیو میں اندھا دھند گولہ باری اور ممنوعہ کلسٹر گولہ بموں کا استعمال کرتے ہوئے سینکڑوں شہریوں کو ہلاک کیا۔
ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ اسے ایسے شواہد ملے ہیں کہ روسی افواج نے بار بار 9N210/9N235 کلسٹر بموں کے ساتھ ساتھ ’بکھرے جانے والے‘ بارود سے بھرے چھوٹے راکٹ استعمال کیے ہیں، ان راکٹوں میں بھرا بارود مقررہ وقفوں کے بعد پھٹتا ہیں۔
بی بی سی نے خارخیو کے رہائشی علاقوں میں پانچ الگ الگ مقامات کا دورہ کیا اور کلسٹر بم پھٹنے کے ثبوت دیکھے ہیں۔
ہم نے ان سائٹس سے لی گئی تصاویر ہتھیاروں کے تین ماہرین کو دکھائیں، ان سب کا کہنا ہے کہ یہ اثرات متنازعہ ہتھیاروں کے استعمال کا نتیجہ ہیں۔
مارک ہزنی جو ہیومن رائٹس واچ کے ہتھیاروں کے ڈویژن میں سینئیر ریسرچر ہیں، کا کہنا ہے کہ ’یہ اثرات کلسٹر بموں کے ہیں، یہ ایسے ہی نشان چھوڑتا ہے‘۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’ایک تصویر میں آپ ہتھیاروں میں سے ایک سے سٹیبلائزر فن کی باقیات دیکھ سکتے ہیں۔‘
ایک رہائشی نے بی بی سی کو سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی جس میں کلسٹر بمبوں کو پھٹتے دیکھا جا سکتا ہے، اس کے بارے میں برطانوی فوج کے ایک سابق کرنل اور کیمبرج یونیورسٹی میں ہتھیاروں کے ماہر ہمیش ڈی بریٹن گورڈن کا کہنا ہے کہ یہ کلسٹر بم پھٹنے کا بہت واضح ثبوت ہے۔
40 سال کے لیتوینینکو نے بی بی سی کو بتایا کہ جس وقت حملہ ہوا وہ اپنی پانچ برس کی بیٹی کے ساتھ پلے گراؤنڈ سے گزر رہے تھے
کلسٹر بم متنازعہ ہتھیار ہیں کیونکہ یہ ہوا میں پھٹ کر چھوٹے کلسٹر بم چھوڑتے ہیں جو کسی بھی وسیع علاقے میں ہر طرف گر کر پھٹتے ہیں اور شہریوں کی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
یہ چھوٹے بم اکثر اسی وقت نہیں بھی پھٹ پاتے اور آنے والے برسوں کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔ 120 سے زیادہ ممالک نے ان ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں تاہم روس یا یوکرین دونوں ممالک نے اس پر دستخط نہیں کیے۔
خارخیو کے ایک صنعتی علاقے کی ہاؤسنگ سٹیٹ میں پلے گراؤنڈ کے اردگرد تین مختلف مقامات پر اس گلسٹر گولہ بارود کے اثرات نظر آتے ہیں۔
آئیون لیتوینینکو کی اہلیہ اوکسانہ ان حملوں میں بری طرح زخمی ہونے کے بعد ہلاک ہو گئیں۔
40 سال کے لیتوینینکو نے بی بی سی کو بتایا کہ جس وقت حملہ ہوا وہ اپنی پانچ برس کی بیٹی کے ساتھ پلے گراؤنڈ سے گزر رہے تھے۔ ان کا 14 برس کا بیٹا ان کے اپارٹمنٹ میں تھا۔
لیتوینینکو بتاتے ہی کہ ’اچانک میں نے روشنی کا جھماکا دیکھا اور پھر پہلا دھماکہ سنا، میں نے اپنی بیٹی کو پکڑ کر ایک درخت کے پیچھے چھپا دیا۔ میری بیوی تقریباً پانچ میٹر دور تھی اور وہ وہیں گر گئی۔‘
پلے گروانڈ کے ساتھ والی جگہ جہاں آئیون لیتوینینک کی اہلیہ کو نشانہ بنایا گیا تھا
41 سال کی اوکسانہ کی کمر، سینے اور پیٹ میں شارپنل گھس گئے، ان کے پھیپھڑوں میں پنکچر ہو گیا اور ریڑھ کی ہڈی کو نقصان پہنچا۔
لیٹوینینکو نے بتایا کہ وہ دو ماہ تک انتہائی نگہداشت میں رہیں اور اتوار کو ذیابیطس کی پیچیدگیوں اور اپنی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئیں۔ ڈاکٹروں نے ان کے کئی آپریشن کیے لیکن ان کا جسم اتنی اذیت برداشت نہ کر سکا۔
حملے کے بارے میں مزید بتاتے ہوئے لیتوینینکو کا کہنا تھا کہ ہم نے ’ایک کے بعد ایک دھماکے دیکھے، بہت سے بم پھٹ رہے تھے۔‘
دو دیگر رہائشی جو حملے کے وقت اپنے اپارٹمنٹ کے اندر موجود تھے، نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے بھی یکے بعد دیگرے دھماکوں کی آوازیں سنیں۔
26 سال کی دانیہ وولینیس نے بتایا کہ ’چند منٹ تک دھماکوں کی آوازیں آتی رہیں، جب ہم باہر آئے تو میں نے جلتی ہوئی کاریں دیکھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہر چیز میں آگ لگ گئی ہے۔‘
ایک 53 سال کی نرس تتیانا احیوا اپنی عمارت کے سامنے کھڑی تھیں جب گولے ان کی عمارت کو آ کر لگے۔ انھوں نے ایمنسٹی کو بتایا کہ ’اچانک ہر طرف سے پٹاخوں کی آواز سنائی دی، ہر طرف گولے گر رہے تھے، ہم نے زمین پر لیٹ کر بچنے کی کوشش کی۔‘
’ہمارے پڑوسی کا 16 سال کا بیٹا آرتیم شیوچینکو، موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔ اس کے سینے میں 1 سینٹی میٹر چوڑا سوراخ تھا۔ اس کے والد کا کولہا ٹوٹ گیا اور شارپنل ان کی ٹانگ میں آ کر لگے۔‘
اوکسانا اپریل میں بری طرح زخمی ہوئی تھیں اور اتوار کو چل بسیں
خارخیو کے ہسپتال میں ڈاکٹروں نے بتایا کہ پلے گراؤنڈ پر حملے کے بعد لائے گئے متاثرین کے پیٹ، سینے اور کمر میں گہرے زخم تھے اور انھوں نے جو دھات کے ٹکڑے اکٹھے کیے وہ 9N210/9N235 کلسٹر بموں سے مماثلت رکھتے ہیں۔
ایمنسٹی کے مطابق صنعتی علاقے میں ہونے والے حملے میں کم از کم نو شہری ہلاک اور 35 زخمی ہوئے، یہ دھماکہ 700 مربع میٹر کے رقبے پر ہوا۔
یہ بھی پڑھیے
خارخیو کے ہری بالدی سٹریٹ کے علاقے میں ایک اور رہائشی عمارت کے سامنے والے حصے کو گولہ بارود سے نشانہ بنایا گیا جس سے دو بزرگ خواتین ہلاک اور ایک اور شدید زخمی ہو گئیں۔ دروازے کے آس پاس اور قریبی جگہوں پر اس حملے کا اثر دیکھا جا سکتا ہے۔
61 سالہ رہائشی نادیہ کراوچک نے بتایا کہ ’ایک کے بعد ایک دھماکوں کا سلسلہ جاری تھا۔ میں نے باہر نکل کر دیکھا تو ایک عورت منہ کے بل پڑی ہوئی تھی جبکہ ایک اور گر گئی تھی اور ان کے ساتھ ہی لینا تھی جو اپنی دونوں ٹانگیں کھو چکی تھی۔ وہ چیخ رہی تھی ’میری ٹانگ نہیں رہی۔‘
تتیانا بیلووا اور اولینا سوروکینا باہر ایک بینچ پر بیٹھی ہوئی تھیں جب ان کے قریب ہی ایک دھماکہ ہوا۔ وہ عمارت میں داخل ہونے کے لیے اٹھیں لیکن اسی وقت دوسرا گولہ داخلی راستے پر گرا جس سے بیلووا اور تتیانا نامی ایک اور خاتون ہلاک ہو گئیں۔ سوروکینا دھماکے میں اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہو گئیں۔
نادیہ کراوچک گولہ باری سے ہونے والے نقصان کو دیکھ رہی ہیں جس میں ان کے دو پڑوسی ہلاک ہو گئے
ایمنٹسی کے مطابق دو ہفتوں کی فیلڈ ریسرچ کے دوران انھوں نے خارخیو میں 41 حملوں کی تحقیقات کیں جن میں کم از کم 62 شہری ہلاک اور 196 زخمی ہوئے۔ انھیں کلسٹر بموں اور ’ان گائیڈڈ راکٹوں‘ کے شواہد ملے جنھوں نے بازاروں میں خریداری کرنے والوں، کھانے کے لیے قطاروں میں کھڑے شہریوں اور سڑکوں پر چلنے والے افراد کو نشانہ بنایا۔
ایمنسٹی کی کرائسس ریسپانس کی سینئر ایڈوائزر ڈونٹیلا روویرا نے بی بی سی کو بتایا ’ان ہتھیاروں کو کبھی استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ وہ صرف کسی ایک مقام کو نشانہ نہیں بناتے بلکہ یہ پورے علاقے میں تباہی پھیلاتے ہیں۔ یہ بہت سے شہریوں کی موت اور زخمی ہونے کا سبب بنتے ہیں۔‘
روویرا کا کہنا ہے کہ ’شہریوں کو نشانہ بنانے کے لیے جان بوجھ کر ان ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ روس یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ اس قسم کے ہتھیاروں کے اثرات کے متعلق نہیں جانتا اور ان کے استعمال کا فیصلہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ روس کو عام شہریوں کی زندگی کی کوئی پرواہ نہیں۔
روس یوکرین میں کلسٹر بموں اور گولہ بارود کے استعمال کی تردید کرتا آیا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ روسی افواج نے صرف فوجی اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔
Comments are closed.