cd hookups in cochise county hookup agency in singapore hookup Stafford CT knoxville hookups a v hookup on xbox 360 hookup Monmouth Junction NJ

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

ملکہ برطانیہ کی تخت نشینی کی پلاٹینم جوبلی: آج بالکنی پر کون موجود ہوگا اور کون نہیں؟

ملکہ برطانیہ کی پلاٹینم جوبلی پر شاہی محل کی بالکونی پر کون موجود ہو گا اور کون نہیں

  • سین کوگھلن
  • شاہی نامہ نگار

The Royal Family on the balcony for Trooping the Colour 2019

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

آخری مرتبہ جب شاہی خاندان 2019 میں بالکونی پر نمودار ہوا تھا جس میں پرنس ہینری اور ان کی شریک حیات میگھن شامل تھیں۔ اس کے علاوہ شہزادہ اینڈریو بھی تھے

برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ سنہ 1851 میں جب پہلی مرتبہ لندن کے شاہی محل بکنگھم پیلس کی بالکونی پر جلوہ افروز ہوئی تھیں اس وقت سے اب تک فتح کے جشن ہوں یا شاہی خاندان کی شادی کی تقریبات یہ بالکونی اہم قومی موقعوں پر ہمیشہ ہی عوام کی نگاہوں کا مرکز بنتی رہی ہے۔

ملکہ برطانیہ کی پلاٹینم جوبلی کے لیے، بالکونی ایک بار پھر ایک تاریخی سنگ میل پر تصویر کشی کا موقع فراہم کرے گی، جس میں ملکہ الزبتھ دوم اور شاہی خاندان کے دیگر 17 ارکان جمعرات کو جلوہ گر ہوں گے۔

لندن یونیورسٹی کے رائل ہولوے میں سینٹر فار دی سٹڈی آف ماڈرن مونارکی کی پروفیسر پولین میکلرن کہتی ہیں، ’عوامی حلقوں میں یہ بات موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ وہاں کون آنے والا ہے اور کون نہیں۔‘

صرف ’شاہی ذمہ داریاں نبھانے والے‘ اور ان کے بچے نظر آئیں گے، جس میں ملکہ کے بیٹے پرنس اینڈریو، اور ان کے پوتے پرنس ہیری، اور ان کی اہلیہ میگھن، ڈچس آف سسیکس شامل نہیں ہیں۔

The Royal Family on the balcony for Trooping the Queen's Silver Jubilee in 1977

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

مالکہ کی سلور جوبلی پر پورا شاہی خاندان بالکونی پر آیا تھا

Balcony appearance at the Queen's Golden Jubilee in 2002

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سنہ 2002 میں گولڈن جوبلی میں کم شخصیات نمودار ہوئی تھیں

Royal Family on the balcony for the Diamond Jubilee in 2012

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سنہ 2012 میں ڈائمنڈ جوبلی پر شاہی خاندان کے چھ افراد نے دیدار کروایا تھا

پروفیسر میکلرن کا کہنا ہے کہ یہ تنازعات سے نمٹنے کا ایک ’حکمت مندانہ‘ طریقہ ہے۔ پرنس اینڈریو امریکی جنسی زیادتی کے مقدمے کے تناظر میں مستعفی ہو گئے۔ شہزادہ ہیری اور میگھن اپنی شاہی ذمہ داریوں سے دستبردار ہو کر امریکہ چلے گئے ہیں۔

پروفیسر میکلران کہتی ہیں کہ ’بالکونی میں جلوا افروز ہونے کی روایت کو شاہی خاندان بہت حکمت عملی کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ شاہی خاندان کی اہمیت اور مقام کو اجاگر کرنے میں ایک پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا فریضہ ہے جس پر انھیں مکمل اختیار ہے لہٰذا وہ کوئی مبہم تاثر نہیں دینا چاہتے۔

وہ کہتی ہیں کہ اس کا ادارک اچھی طرح پایا جاتا ہے کہ اگر شاہی خاندان نے پرنس اینڈریو کو بالکونی میں آنے کی اجازت دی تو اس کا ملک اور ملک سے باہر کیا ممکنہ ردعمل ہو سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ایک عنصر ہے جسے وہ کنٹرول کر سکتے ہیں، لہٰذا کوئی مبہم سگنل نہیں دینا چاہتے۔‘

جہاں تک ہیری اور میگھن کا تعلق ہے تو یہ تاثر قائم نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی شخص شاہی خاندان کا آدھا رکن ہے اور آدھا اس سے باہر ہے۔

اہم کھلاڑی

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

گذشتہ مواقع پر بالکونی میں 40 سے زیادہ افراد موجود تھے، لہٰذا مجموعی تعداد کو محدود کرنا بھی سوچ سجھ کر انتخاب کرنے کی ایک وجہ ہو سکتا ہے۔

یہ روایت شاہی خاندان میں شامل افراد کی اہمیت کا بھی مظہر ہے۔ یہ صرف ایک لائن اپ نہیں ہے، بلکہ جانشینی کی ایک لائن ہے۔

ایسی تجاویز بھی سامنے آ رہی ہیں کہ ملکہ اتوار کو دوبارہ بالکونی میں جلوہ گر ہوں اور اس مرتبہ صرف اپنے جانشینوں پرنس چارلس، اپنے پوتے پرنس ولیم اور نواسے پرنس جارج کے ہمراہ۔

پروفیسر میکلرن کہتی ہیں ’یہ سب بہت علامتی ہے۔ یہ بادشاہت کے استحکام کو ظاہر کرتا ہے، اگرچہ چہرے بدل جاتے ہیں۔‘

بالکونی انتہائی اہم شاہی جگہ ہے۔ برطانوی تاریخ میں صرف دو وزرائے اعظم کو بالکونی تک رسائی کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ نیویل چیمبرلین، 1938 میں جرمنی کے ساتھ میونخ معاہدے پر بات چیت کے بعد، اور سر ونسٹن چرچل نے 1945 میں یورپ میں جنگ کے خاتمے کے جشن کے موقع پر اس بالکونی پر نمودار ہوئے تھے۔

بالکونی پر لوگ کو کہاں کھڑے ہونا ہے اس کی کوئی باقاعدہ ترتیب نہیں ہے، لیکن پروفیسر میکلرن کہتی ہیں کہ اس کا ایک واضح طریقہ نظر آتا ہے۔

ملکہ نمایاں طور پر آگے ہوں گی۔ اُن کے اردگر بالکل قریب شاہی خاندان کے سینئر افراد، پرنس چارلس اور ان کی اہلیہ کامیلا، ڈچس آف کارن وال، اور پرنس ولیم اور ان کی اہلیہ کیتھرین، ڈچس آف کیمبرج موجود ہوں گے۔

ہو سکتا ہے کہ چھوٹے بچے اپنا چہرہ دکھانے کی کوشش میں ادھر ادھر سے منہ نکلنے کی کوشش کریں، لیکن پروفیسر میکلران کا کہنا ہے کہ اس موقعے پر نظم و ضبط دکھائی دے گا۔

William and Kate wedding

،تصویر کا ذریعہAnwar Hussein

،تصویر کا کیپشن

شاہی خاندان میں شادیوں کے موقع پر ملکہ بیچ میں نہیں ہوتیں

ڈیانا

،تصویر کا ذریعہTim Ghram

،تصویر کا کیپشن

شہزادی ڈیانا اپنے بچوں کے ہمراہ

یہ ایک ان کہی کوریوگرافی ہے کہ شاہی خاندان کے سینیئر افراد بالکونی کے وسط میں اپنی جگہوں پر کھڑے ہوں گے جبکہ خاندان کے باقی افراد اطراف میں پھیل جائیں گے جیسے کہ وہ کسی پوشیدہ فوٹوگرافر کی ہدایات پر عمل کر رہے ہوں۔

ملکہ کے بیچ میں ہونے کی واحد استثنیٰ شاہی خاندان میں کسی شادی کا موقع ہوتا ہے جب شادی شدہ جوڑا بالکونی پر مرکز نگاہ ہوتا ہے۔

جوبلی پر حاضری کے لیے مدعو کیے گئے 17 افراد میں ملکہ کا بیٹا اور بہو ارل اور ویسیکس کی کاؤنٹیس اور ان کے دو بچے، اور اس کی بیٹی این، شہزادی رائل اور ان کے شوہر، سر ٹموتھی لارنس شامل تھے۔ ملکہ کے کزن ڈیوک اور ڈچس آف گلوسٹر اور ڈیوک آف کینٹ اور شہزادی الیگزینڈرا بھی تھے، جو ان کی جانب سے شاہی مصروفیات انجام دیتے ہیں۔

یہ تعداد 2012 میں ڈائمنڈ جوبلی کے موقعے سے کہیں زیادہ ہے۔ کفایت شعاری کے تناظر میں ہونے والی تقریب میں بالکونی پر صرف چھ افراد تھے، جو کہ شاہی کی طرف سے اس مشکل دور میں بچت اور اخراجات میں کمی کا مظہر تھے۔

‘قومی لمحات’

ایک اور اہم عنصر ہے وہ بالکونی پر نہیں بلکہ اس کے سامنے جمع ہونے والے عوام ہیں۔

یونیورسٹی کالج لندن کی مصنفہ اور تاریخ کی پروفیسر ہیدر جونز کہتی ہیں کہ بالکونی کے لمحات ’عوام کی طرف سے شاہی خاندان کا احترام اور شاہی خاندان کی طرف سے عوام کا احترام کرنے کا ایک مظاہرہ ہوتے ہیں۔

ایک ایسی بادشاہت کے لیے جو عوامی حمایت پر منحصر ہے، یہ سب سے بڑے علامتی مراحل میں سے ایک ہے جہاں شاہی خاندان اور عوام باہمی رشتے میں جڑ سکتے ہیں۔

پروفیسر جونز کا کہنا ہے کہ بڑے مواقع پر، جیسے کہ پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی، یہ ہجوم رہا ہے جس نے شاہی خاندان کے جلوہ افروز ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ 1914 میں کنگ جارج پنجم نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا کہ انھیں لگا کہ عوامی ہجوم نے انھیں بالکونی پر آنے پر مجبور کر دیا ہے، کیونکہ ملک جنگ کے لیے تیار تھا۔

جب ملک دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کی شکست کا جشن منا رہا تھا اس وقت عوام نے اس قدر اصرار کیا کہ آٹھ مرتبہ بالکونی سجانی پڑی۔

وہ کہتی ہیں ’ان بڑے قومی مواقعوں پر بکنگھم پیلس کی طرف رخ کرنے کا رحجان ہے۔‘

Trooping the Colour, 1927

،تصویر کا ذریعہPA

،تصویر کا کیپشن

ملکہ سنہ 1927 میں جب ایک برس کی تھیں تو اپنے والدین کے ساتھ

Coronation of George VI

،تصویر کا ذریعہPA Media

،تصویر کا کیپشن

سنہ 1937 میں اپنے والد کی تاج پوش کے وقت

یہ بھی پڑھیے

پروفیسر جونز کہتی ہیں کہ بالکونی بادشاہت کے دیدار کی بہترین جگہ ہے۔ یہاں شاہی خاندان کے دیدار کے ساتھ ہی ساتھ ایک فاصلہ بھی برقرار رہتا ہے۔

پروفیسر جونز کا خیال ہے کہ ’ایک قسم کی دوری بھی ہے جو واقعی اہم ہے۔‘

اس سے شاہی خاندان کے قابل رسائی ہونے کا تاثر ملتا ہے لیکن بالکونی کی بلندی پر اور عام پہنچ سے دور۔ اس سے شاہی توازن برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے کہ ’قومی خاندان‘ ہونے کے ناطے ان کا عوام سے رشتہ مضبوط رہتا ہے، لیکن تزک و احتشام کے ساتھ۔

اس ہفتے کے آخر میں ہجوم بالکونی سے ہاتھ ہلائے جانے کی توقع کر سکتا ہے۔ لیکن ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔

شاہی مورخ ایڈ اوونس کا کہنا ہے کہ یہ 1934 تک نہیں تھا کہ ہجوم کی طرف سے جذبات کے اظہار کا جواب ہاتھ ہلا کر دیا جائے ایسا پہلی مرتبہ شہزادی مرینا کی طرف سے کیا گیا تھا، جو موجودہ ملکہ کی خالہ ہیں تب تک بالکونی کے سامنے موجود عوام کے خراج عقیدت کا جواب ’تھوڑا سا جھک کر اور عجیب و غریب مسکراہٹ‘ تک محدود تھا۔

اس کے بعد ایسے موقعوں کی ریکارڈنگ سے میں شاہی خاندان کے ہاتھ ہلانے اور عوام کا جواب دینے کے مختلف انداز دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان میں ملکہ اپنی کم عمری میں ہاتھ کو اس انداز میں گھما کر عوام کا جواب دیتی نظر آئیں گے جیسے روشنی کے بلب کو کھولنے کے لیے گھمایا جاتا ہے۔

اور بھی حالیہ رسومات ہیں۔ پرنس چارلس اور ڈیانا اپنی شاہی شادی کے بعد بالکونی پر بوسہ لینے والا پہلا شاہی جوڑا تھا، جو بعد میں ایک روایت بن گیا اور پھر پرنس اینڈریو اور ڈچز آف یارک اور پرنس ولیم اور ڈچس آف کیمبرج نے اس روایت کو زندہ رکھا۔

مجموعی طور پر بالکونی کی یہ تصاویر قومی فیملی فوٹوگرافی البم کی طرح بن جاتی ہیں۔ شاہی خاندان کی بدلتی ہوئی نسلیں خاندانی زندگی کے سنگ میل کی علامت ہیں اور ہجوم کا شکریہ ادا کرتی ہیں۔ فیشن اور چہرے بدل جاتے ہیں، لیکن تاثر وہی رہتا ہے۔

مسٹر اوونز کہتے ہیں ’یہ ایک ماہرانہ کوریوگرافی والا لمحہ ہے‘ اتنا بے ساختہ نظر آنے میں کئی دہائیوں کی مشق لگتی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.