بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

انڈیا روس سے رعایتی نرخوں پر کتنا تیل درآمد کر رہا ہے اور کیا پاکستان ایسا کر سکتا ہے؟

عالمی طاقتوں کے دباؤ کے باوجود انڈیا روس سے کتنا تیل درآمد کر رہا ہے اور کیا پاکستان روس سے سستے تیل کی درآمد کے قابل بھی ہے؟

  • شکیل اختر، تنویر ملک
  • بی بی سی اردو

تیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور مہنگائی کے ساتھ ساتھ سیاسی وجوہات کی بنا پر بھی روس سے تیل کی درآمد بحث کا موضوع ہے۔

سابق حکومت کی جانب سے سستے روسی تیل کی خریداری کے دعوے اور اس کے بعد موجودہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے روس سے گندم کی خریداری کے اعلان نے اس بحث میں کئی نئے سوالوں کو جنم دیا ہے۔

منگل کو امریکی ٹی وی چینل سی این این کی میزبان بیکی اینڈرسن کے روسی تیل کی خریداری سے متعلق ایک سوال کے جواب میں مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ حکومت نے روس کو خط لکھا تھا جس کا جواب نہیں آیا۔ اب تک روس نے تیل فروخت کرنے کی کوئی پیشکش بھی نہیں کی اور اس وقت اس پر پابندیاں عائد ہیں، تو میرے لیے یہ سوچنا مشکل ہے کہ ہم روس سے تیل خرید سکتے ہیں۔‘

ایک طرف جہاں یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا روس نے سابق حکومت کو تیل فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی یا نہیں، وہیں یہ سوال بھی اٹھ رہے ہیں کہ کیا پاکستان روس سے تیل درآمد کر بھی سکتا ہے یا نہیں جبکہ انڈیا ایسا کر رہا ہے؟

کیا یہ پاکستان کے لیے ایک قابل عمل منصوبہ ہو سکتا ہے اور کیا روسی خام تیل کو پاکستان کی ریفائنریز پٹرولیم مصنوعات کی تیاری کے لیے استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں؟

مگر اس سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ انڈیا نے روس سے کتنا تیل برآمد کیا ہے اور اس کا اسے کیا فائدہ ہوا؟

یورپی یونین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

34 ملین بیرل خام تیل کی سستے نرخوں پر درآمد

انڈیا نے فروری کے اواخر میں یوکرین پر روس کے حملے اور اس پر عائد کی گئی پابندیوں کے بعد روس سے انتہائی رعایتی نرخوں پر 34 ملین بیرل خام تیل در آمد کیا تھا۔ یہ مقدار 2021 کے پورے سال میں درآمد کیے جانے والے تیل کی مجموعی مقدار سے تین گنا زیادہ ہے۔

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے تحقیقی ادارے ’رفائنیٹیو آئکون‘ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے ایک خبر میں بتایا ہے کہ انڈیا نے روس سے مئی میں 24 ملین بیرل خام تیل حاصل کیا۔ اپریل میں یہ مقدار 7.2 ملین بیرل تھی جبکہ مارچ میں یہ محض تین ملین بیرل تھی۔

انڈیا کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق انڈیا جون میں روس سے خام تیل کی درآمد مزید بڑھا کر اس کی مقدار 28 ملین بیرل کرنے جا رہا ہے۔

تیل کی درآمد بڑھنے سے روس سے انڈیا کی درآمد کی مالیت 24 فروری اور 26 مئی کے درمیان 6.4 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ گذشتہ برس اس مدت میں یہ مالیت محض دو ارب ڈالر تھی، یعنی اس میں تین گنا سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔

امریکہ اور چین کے بعد انڈیا دنیا میں تیل کا تیسرا سب سے بڑا صارف ہے اور ملکی ضروریات کا 80 فیصد تیل دنیا سے مختلف ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے۔

سنہ 2021 میں انڈیا نے اپنی ضروریات کا صرف دو فیصد تیل یعنی تقریباً 12 ملین بیرل خام تیل روس سے درآمد کیا تھا۔ روس، یوکرین تنازع کے باعث روسی خام تیل کی قیمت عالمی مارکیٹ میں کافی گر گئی ہے یہی وجہ ہے کہ روس نے انڈیا کو خام تیل بہت رعایتی داموں پر دیا ہے۔

تحقیقی ادارے ’کیپلر‘ کے تجزیہ کار میٹ سمتھ کا کہنا ہے کہ ’عالمی تیل منڈی کے مقابلے روسی یورال خام تیل تقریباً 30 ڈالر فی بیرل سستا دیا جا رہا ہے۔ معمول کے دنوں میں روسی تیل اور دیگر منڈیوں کے تیل کی قیمت برابر ہوتی ہے۔ انڈیا یقینی طور پر روسی تیل اچھی رعایت پر حاصل کر رہا ہے۔‘

امریکہ اور یورپی ممالک کے باوجود درآمد جاری

تیل

،تصویر کا ذریعہReuters

یوکرین پر فروری میں روس کے حملے کے بعد امریکہ نے یورپی ملکوں اور انڈیا سے کہا تھا کہ وہ روس کے تیل کا بائیکاٹ کریں۔ انڈیا پر کئی طرف سے دباؤ پڑ رہا تھا کہ وہ روسی تیل نہ خریدے لیکن انڈیا نے امریکہ اور یورپی ملکوں کی اپیل یہ کہہ کر مستر کر دی کہ پورپی ممالک روس سے کہیں زیادہ تیل خریدتے ہیں اور یہ کہ انڈیا تو صرف اپنی ضرورت کا دو فیصد تیل روس سے خرید رہا ہے۔

امریکہ کی ناراضی کے باوجود روس سے تیل خریدنے میں انڈیا کو کوئی دشواری پیش نہیں آئی ہے۔ روسی تیل کی خریداری کے لیے دونوں ملکوں نے پیسے کی ادائیگی کے لیے ایک باہمی طریقہ کار وضع کیا ہے جس کے تحت کچھ ادائیگی روبل کے ذریعے، کچھ قزاقستان جیسے سبسیڈیئری ملکوں کے توسط سے اور کچھ انڈین اشیا کی برآمدات کے ذریعے کی جاتی ہے۔

روسی یورال خام تیل براہ راست بحر اسود مین واقع بندرگاہوں سے سمندر کے ذریعے انڈیا پہنچتا ہے۔ روس یورال خام تیل کے علاوہ سی پی سی بلینڈ تیل بھی مغربی ملکوں میں واقع قزاقستان کی سبسیڈیئری ٹرانزٹ کمپنیوں کے ذریعے انڈیا بھیجتا ہے۔

ایک بات اب پوری طرح واضح ہے کہ انڈیا اس وقت روس سے پہلے کے مقابلے کئی گنا خام تیل رعایتی داموں پر درآمد کر رہا ہے۔ دو ہفتے قبل انڈیا نے ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں سات سے نو روپے فی لیٹر کی کمی کی تھی۔

اگرچہ اس کی وجہ افراط زر کی اونچی شرح بتائی گئی تھی لیکن کئی ماہرین کا خیال ہے روس سے ہر مہینے بڑے پیمانے پر رعایتی تیل کی خریداری سے حکومت پٹرول کی قیمتوں میں کمی کرنے کی متحمل ہو سکی۔

گذشتہ روز یورپی ملکوں نے روس سے تیل کی درآمد بند کرنے پر اتفاق کر لیا ہے اور اس بات کے قوی امکان ہیں کہ انڈیا پر ایک بار پھر امریکہ اور یورپی ملکوں کی جانب سے دباؤ بڑھے گا کہ وہ روس سے تیل خریدنا بند کر دیں۔

کیا پاکستان کے لیے روس سے سستے تیل کی درآمد قابل عمل ہے؟

پیٹرول

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس بارے میں معاشی امور کے سینیئر صحافی خرم حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انڈیا روس سے تیل درآمد کرتا ہے تاہم یہ انڈیا کی توانائی کی ضروریات کا دس سے بارہ فیصد ہے اور یہ بہت پہلے سے روس سے درآمد کیا جا رہا ہے۔

لیکن اگر پاکستان روس سے تیل درآمد کرے، تو اس منصوبے کے قابل عمل ہونے کے بارے میں کچھ سوالات ہیں جن کے جوابات بہت ضروری ہیں کہ کیا روس سے تیل کا جہاز پاکستان بھیجنا قابل عمل ہے اور اس کے ساتھ کیا بینک اس بات کی لیے تیار ہوں گے کہ وہ روس سے تیل خریداری کے لیے فنانسنگ کریں۔

وزارت توانائی کے ترجمان زکریا علی شاہ روس سے تیل کی درآمد کے منصوبے کو قابل عمل قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق وزارت توانائی سمیت ہر حکومتی شعبے کا یہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ ملک و قوم کے مفاد میں کام کرے۔

انھوں نے کہا کہ روس سے تیل کی درآمد کا آپشن بھی دیکھا جا رہا ہے اور نئی حکومت کو بھی اس سلسلے میں بریف کیا گیا ہے۔

کیا روسی خام تیل سے پاکستانی ریفائنریاں مصنوعات تیار کر پائیں گی؟

روس کے خام تیل کو پاکستان درآمد کر کے کیا اسے پاکستانی ریفائنریوں میں مصنوعات تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے جواب میں پاکستان ریفائنری شعبے کے افراد کا کہنا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے۔

تیل کے شعبے کے ماہر اور پاکستان ریفائنری کے چیف ایگزیکٹیو زاہد میر نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ روسی خام تیل کو مقامی ریفائنریوں میں کام میں لایا جا سکتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ روس میں دو قسم کا خام تیل پیدا ہوتا ہے جن میں ایک سوکول (Sokol) اور دوسرا یورل (Ural) کہلاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ دونوں قسم کے تیل استعمال ہو سکتے ہیں اور ان سے تیل کی مصنوعات تیار ہو سکتی ہیں تاہم ان کے مطابق سوکول زیادہ بہتر ہے جس سے کم فرنس آئل پیدا ہوتا ہے۔

زاہد میر نے کہا تھا کہ اس وقت پاکستان میں مختلف ریفائنریوں میں مختلف خام تیل استعمال ہو رہے ہیں، جن میں عرب لائٹ خام تیل کے ساتھ عرب ایکسٹرا، کویت سپر اور ایک آدھ اور خام تیل بھی ہے۔

زاہد میر نے کہا کہ ریفائنریوں میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ جس طرح دوسرے ممالک کے خام تیل کو پراسس کر رہی ہیں اسی طرح روسی خام تیل کو بھی استعمال میں لا سکتی ہیں۔

پاکستان روس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کیا روسی تیل پاکستان میں مقامی قیمتوں میں کمی لا سکتا ہے؟

پاکستان میں اس وقت پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں ملکی معیشت اور نئی حکومت کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ سابقہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ روس سے سستا تیل حاصل کرنے سے مقامی صارفین کو فائدہ ہوتا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کے 28 فروری 2022 کے اعلان کے مطابق پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں کو نئے مالی سال کے بجٹ تک منجمد کر دیا گیا تھا اور عالمی مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے آنے والے فرق کو حکومت نے اپنے خزانے سے دینے کا اعلان کیا تھا۔

نئی حکومت نے آغاز میں تو اس سبسڈی کو برقرار رکھا تھا لیکن پھر مالیاتی خسارے کے خدشے اور آئی ایم ایف سے بات چیت کے نتیجے میں مئی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے پہلے نو مہینوں میں پاکستان نے تقریباً پندرہ ارب ڈالر مالیت کی پٹرولیم مصنوعات درآمد کیں جن میں پچھلے سال کے انھی مہینوں میں سو فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

اگرچہ درآمدات کے حجم میں کچھ اضافہ دیکھنے میں آیا تاہم تیل کی عالمی قیمتوں کے مہنگا ہونے کی وجہ سے درآمدات کی مالیت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔

زاہد میر نے روسی خام تیل کی درآمد سے پاکستان میں مصنوعات کی قیمتوں میں کمی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ اتنا آسان نہیں کیونکہ خام تیل حکومت پاکستان نہیں بلکہ ریفائنریاں عالمی مارکیٹ سے خریدتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ حکومت صرف قیمت کا تعین کرتی ہے اور یہ قیمت پٹرول و ڈیزل کی عالمی قیمتوں کی بنا پر مقامی مارکیٹ میں مقرر ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ جب حکومت قیمت مقرر کرتی ہے تو یہ پٹرول اور ڈیزل کی عالمی قیمتوں پر طے کی جاتی ہے نہ کہ خام تیل کی قیمت پر اس کا تعین ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا اگر روس سے رعایتی نرخوں پر خام تیل آتا ہے تو اس حکومت کو قیمت مقرر کرنے کا فارمولہ بدلنا پڑے گا۔

انھوں نے کہا ’روس سے آنے والے خام تیل سے اگر صارفین کو کوئی فائدہ پہنچانا ہے تو اس کے لیے حکومت کو سستا خام تیل خریدنے کی وجہ سے ڈالر میں تو بچت ہو گی لیکن جب اس سے بننے والی ڈیزل اور پٹرول کی مصنوعات کا تعین ان کی عالمی مارکیٹ کی قیمتوں پر ہو گا تو اس کے لیے حکومت کو سبسڈی دینی پڑے گی تاہم اس کی مالیت اتنی زیادہ نہیں ہو گی کیونکہ خام تیل رعایتی نرخوں پر مل رہا ہو گا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.