احمد قریشی اور دیگر افراد کا دورہ اسرائیل ایک بار پھر زیر بحث: ’برائے مہربانی اپنی سیاسی لڑائیاں خود لڑیں‘
- اعظم خان
- بی بی سی اردو، اسلام آباد
پاکستان کے سوشل میڈیا پر ایک بار پھر پاکستانی نژاد امریکی شہریوں کے ایک وفد کے دورہ اسرائیل کے معاملے پر خاصی بحث جاری ہے اور اس حالیہ بحث کی وجہ اسرائیلی صدر کا تین روز قبل دیا گیا وہ بیان ہے جس میں انھوں نے اس وفد سے ہونے والی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے اسے ’حیرت انگیز تجربہ‘ اور ’بہترین تبدیلی‘ قرار دیا ہے۔
مئی کے اوائل میں اس دورے پر جانے والے اس وفد میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے صحافی احمد قریشی اور سماجی کارکن انیلہ علی بھی شامل تھیں، جو پاکستانی نژاد امریکی شہری ہیں۔ اس وفد کے شرکا نے پارلیمنٹ ہاؤس سمیت اہم مقامات کے دورے کیے اور اسرائیلی صدر سمیت اہم شخصیات سے ملاقاتیں کی تھیں۔
اس دورے پر باقاعدہ اعتراضات تحریک انصاف کی سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی طرف سے سامنے آئے تھے۔
شیریں مزاری نے اس دورے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے صحافی احمد قریشی اور سماجی کارکن انیلہ پر سخت تنقید کی تھی۔ یوں تو انیلہ علی کا تعلق امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے مگر شیریں مزاری نے اپنے ٹویٹ میں ایک پرانی تصویر کی بنیاد پر ان کا تعلق پاکستان مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز سے بھی جوڑا۔
شیریں مزاری نے پاکستانی فوج کے ترجمان کو بھی اپنی ایک ایسی ہی تنقیدی ٹویٹ میں مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ احمد قریشی کے ذریعے عمران خان کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔
اسرائیلی صدر کے حالیہ بیان کے بعد شیریں مزاری نے ایک بار پھر ٹوئٹر پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’امپورٹڈ حکومت اور سازش میں ملوث ان کے دیگر حواریوں کی جانب سے تبدیلئ سرکار کی سازش کے تحت امریکہ سے کیا گیا ایک اور وعدہ پورا ہو گیا! شرمناک غلامی۔‘
سوشل میڈیا پر ردعمل
اسرائیلی صدر کے اس حالیہ بیان کے بعد سوشل میڈیا پر جہاں صحافی احمد قریشی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہیں اس بارے میں بھی سوال کیے جا رہے ہیں کہ پاکستان کے پاسپورٹ پر یہ ہدایات واضح طور پر درج ہیں کہ اس پاسپورٹ پر اسرائیل کا دورہ نہیں کیا جا سکتا تو پھر پاکستانی شہری اسرائیل کیسے پہنچے۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے بہت سے صارفین اس دورے کو ایک دوسرے کی جماعت پر الزام تراشی کے طور پر استعمال کرتے نظر آ رہے ہیں۔
اس دورے پر تنقید کی حالیہ لہر کے بعد وفد میں شامل انیلا علی نے خاصے غصے کا اظہار اور عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا: ’ہمارا گروپ پاکستانی امریکی بین المذاہب خواتین رہنماؤں پر مشتمل تھا۔ برائے مہربانی پاکستانیوں میں غلط معلومات پھیلانے کے لیے ہمیں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا بند کریں۔ اپنی سیاسی لڑائیاں خود لڑیں۔ جیسا کہ ملک ریاض ٹیپ، ڈاکٹر مزاری کا معاملہ اور پی ٹی آئی مارچ کی ناکامی۔‘
انھوں نے مزید لکھا: ’امریکی مسلم اور امریکی شہری ہونے کی حیثیت سے پاکستان، بنگلہ دیش اور ملائیشیا سے تعلق رکھنے والے افراد اسرائیل اس لیے گئے تاکہ مسلمانوں اور یہودیوں میں امن پیدا کیا جا سکے۔ غلط معلومات مت پھیلائیں۔ اللہ سچائی کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔‘
رہنما ایم کیو ایم رضا ہارون نے اس دورے کے حوالے سے اخبار ’دی نیوز‘ کی ایک خبر کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’اس دورے پر جانے والے ایک پاکستانی یہودی کو پاسپورٹ عمران خان کی حکومت میں دیا گیا۔‘
اس ٹویٹ کے جواب میں ایک صارف نے لکھا کہ ’سابقہ حکومت نے سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک یہودی مذہب کے پیروکار کو مذہبی بنیادوں پر اسرائیل جانے کی اجازت دی لیکن احمد قریشی اور انیلا علی وغیرہ کو عمران خان حکومت نے اجازت نہیں دی۔ وہ ذاتی حیثیت میں امریکہ سے اسرائیل گئے۔‘
تصور نامی صارف نے اس وفد میں شامل انیلا علی کی رہنما پاکستان مسلم لیگ نون مریم نواز اور احسن اقبال سے ملاقاتوں کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’کیا نون لیگ وضاحت کرے گی اس وفد میں شامل اراکین کا اس جماعت سے کیا تعلق ہے؟‘
لیکن جہاں بہت سے صارفین نے احمد قریشی کو ’اسرائیلی ایجنٹ‘ قرار دیا تو وہیں کچھ ٹویٹس صحافی احمد قریشی کے اس دورے کے دفاع میں بھی نظر آئیں۔
ایک صارف نے لکھا: ’اسرائیل کا دورہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ پاکستان کو اسرائیل سے اچھے تعلقات قائم کرنے چاہییں اور اس کے ساتھ ساتھ مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر ہمارے اسرائیل سے اچھے تعلقات نہیں ہوں گے تو ہم اس تنازع کو کیسے حل کریں گے۔‘
پاکستان کے اسرائیل سے تعلقات کے کوئی امکانات موجود ہیں؟
پاکستان میں اسرائیل کے خلاف پائی جانی والی رائے کے ہوتے ہوئے ہر حکومت کو اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے جیسے دباؤ کا سامنا رہتا ہے اور اگر حکمران اس حوالے سے کوئی نرمی برتیں تو انھیں سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
ماضی میں پاکستانی حکام پر خفیہ طور پر اسرائیل سے روابط کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔
پاکستان میں اسرائیل سے متعلق تعلقات میں بہتری پیدا کرنے کی تجاویز سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں سامنے آئیں تو عوام نے سابق صدر پر بھی اسرائیل سے دوستی کرنے جیسے الزامات عائد کیے۔
سابق سفیر آصف درانی نے 16 مئی کو بی بی سی کو بتایا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ پاکستان کا براہ راست کوئی تنازعہ نہیں اور نہ اسرائیل کبھی پاکستان کے خلاف براہ راست بیانات دیتا ہے۔ ان کے مطابق اچھے تعلقات کا فائدہ ہی ہوتا ہے۔
آصف درانی کے مطابق انڈیا نے سنہ 1992 میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو مزید مربوط بنایا اور اگر اس وقت پاکستان بھی تعلقات بہتر کر لیتا تو اس کا اچھا اثر پڑنا تھا۔
سابق سفیر کے مطابق 57 اسلامی ممالک میں سے 36 کے اسرائیل کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات قائم ہیں۔
اسرائیل کے سفارت کاوں سے امریکہ کے شہر نیویارک میں اپنی ایک ملاقات کی تفصیلات بتاتے ہوئے آصف درانی نے کہا کہ اسرائیلی سفات کاروں کے مطابق اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے تو باقی بچ جانے والے اسلامی ممالک بھی انھیں تسلیم کر لیں گے۔
سابق سفیر کے مطابق پاکستان میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حق اور مخالفت میں اپنے دلائل موجود ہیں جس وجہ سے یہ بحث جلد کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے گی۔
کیا پاکستانی شہری اسرائیل کا دورہ کر سکتے ہیں؟
وفد کے اسرائیل کے اس دورے کے مقاصد پر بات کرنے سے قبل یہ جاننا بھی اہم ہے کہ اس وفد میں پاکستان شہری بھی شامل تھے جبکہ پاکستان کے پاسپورٹ پر یہ ہدایات واضح طور پر درج ہیں کہ اس پاسپورٹ پر اسرائیل کا دورہ نہیں کیا جا سکتا۔
احمد قریشی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ پاکستان کے پاسپورٹ پر عام شہری کی حیثیت سے اسرائیل گئے اور ان کے اس دورے سے حکومت یا فوج کا کوئی تعلق نہیں۔
شیریں مزاری کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کے سرکاری ٹی وی کے ملازم نہیں بلکہ ریاست نام کے ایک پروگرام کی میزبانی کرتے ہیں اور ہر پروگرام کا انھیں معاوضہ دیا جاتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں احمد قریشی نے بتایا کہ وہ کویت میں پیدا ہوئے مگر وہ پاکستان کے شہری ہیں۔ ان کے مطابق اس دورے میں ان کے ساتھ ایک یہودی پاکستانی بھی شامل تھے۔
احمد قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ پر انٹری اور ایگزٹ کی مہر ثبت نہیں کی جاتی باقی اس پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر کیا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق اسرائیل میں ہزاروں پاکستان آ چکے ہیں اور یہاں ان کی بڑی تعداد پاکستانی پاسپورٹ پر ملازمت بھی کر رہی ہے۔
ان کے مطابق اسرائیل کا دورہ کرنا جرم نہیں اور نہ کبھی پاکستان نے ماضی میں کسی کو اس بنیاد پر سزا سنائی ہے۔
تاہم شیریں مزاری نے اپنی ٹویٹس میں اس دورے کے مقاصد پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے ساتھ مل کر اسرائیل نے پاکستان میں عمران خان کی حکومت کو ختم کیا۔
اسرائیل کے دورے کے مقاصد کیا؟
جب اس دورے کے مقاصد سے متعلق سوال کیا گیا تو احمد قریشی نے بتایا کہ اس وفد میں امریکہ میں ڈیموکریٹک اور ریپلکن جماعتوں کے حامی پاکستانی بھی شامل تھیں۔ ان کے مطابق اس وفد کا مقصد امن کے راستے تلاش کرنا تھا۔
احمد قریشی کے مطابق اس دورے کے لیے پاکستانی امریکن کمیونٹی نے فنڈنگ کی۔ ان کے مطابق دبئی کی شراکا نامی تنظیم ان کی اس دورے میں معاون ہے، جسے مختلف ممالک سے ان پرامن مقاصد کے لیے فنڈنگ ملتی ہے۔
انیلہ علی کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے احمد قریشی نے بتایا کہ وہ امریکہ میں مسلم خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں۔ ان کے مطابق انیلہ علی مختلف مذاہب میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے بھی متحرک ہیں۔
انیلہ علی نے بی بی سی کو اس دورے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس دورے کا انتظام ان کی تنظیم امریکن مسلم ملٹی فیتھ ویمن امپاورمنٹ کونسل نے کیا۔
ان کے مطابق وہ شراکا کی بورڈ ممبر بھی ہیں۔ انیلہ علی کہتی ہیں کہ ان کے اسرائیل کے اس دورے کا مقصد انفرادی رابطوں( People to People contact) کے ذریعے ڈپلومیسی کرنا ہے۔
ان کے مطابق اس طرح فلسطینیوں کو امن حاصل ہو سکے گا۔ ان کے مطابق ہر انسانی زندگی اہمیت کی حامل ہے اور ان کے بچے بھی تعلیم حاصل کر سکیں گے۔
اپنی تنظیم کے بارے میں بات کرتے ہوئے انیلہ علی نے کہا کہ مقصد تمام مذاہب کے ماننے والوں کو حضرت ابراہیم کے جھنڈے تلے جمع کرنا ہے۔ ان کے مطابق ان کی تنظیم کا نعرہ ‘بُکس ناٹ بمبز‘ ہے۔
اپنی ایک ٹویٹ میں انیلہ علی نے شیریں مزاری کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے لکھا تھا کہ پاکستانی امریکن ’پِیس میکرز‘ کے لیے نفرت بھڑکانا خود ایک غیر اسلامی اور پاکستان مخالف رویے کو ظاہر کرتا ہے۔
انھوں نے واضح کیا کہ وہ پاکستانی امریکن ہوتے ہوئے وہ امریکی فوج سے محبت کرتی ہیں کیونکہ وہ انھیں تحفظ فراہم کرتی ہے۔ انھوں نے شیریں مزاری کو مشورہ دیا کہ وہ بھی اپنی فوج اور ملک سے وفادار ہونے کی کوشش کریں۔
احمد قریشی نے تو شیریں مزاری سے فوج کو اس بحث میں گھسیٹنے پر معافی مانگنے کا بھی مطالبہ کیا۔
انھوں نے کہا جب شیریں مزاری اسلام آباد میں واقع ایک سرکاری ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی سربراہ تھیں تو اس وقت کے ان کے باس اور پاکستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ خورشید محمود قریشی نے ترکی میں اسرائیل کے وزیر خارجہ سے ملاقات کی تھی۔
یہ بھی پڑھیے
احمد قریشی نے بی بی سی کو بتایا کہ اسرائیل کے اس دورے سے فلسطینیوں کو کوئی مسئلہ ہے اور نہ ہی اسرائیلیوں نے کسی ناراضگی کا اظہار کیا۔
احمد قریشی کے مطابق اس دورے کے دوران انھوں نے فلسطینی اور اسرائیلی سول سوسائٹی کے نمائندوں سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔
احمد قریشی کے مطابق ان کے وفد نے اسرائیل کے صدر سے 45 منٹ تک ملاقات کی، جس میں پہلی بار کسی اسرائیلی حکمران نے قائد اعظم کے پورٹریٹ کو بھی تصویر میں جگہ دی۔ ان کے مطابق ان کے وفد نے اسرائیلی پارلیمنٹ کا دورہ بھی کیا اور وہاں تین ارکان نے ان کے وفد کو بریفنگ بھی دی اور اجلاس کے باوجود ان اراکین نے ان کے ساتھ وقت بھی گزارا۔
احمد قریشی کے مطابق وہ جلد اس دورے سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کریں گے اور اہم جگہوں کے دوروں اور اہم شخصیات سے ملاقاتوں کی تصاویر بھی جاری کریں گے۔
Comments are closed.