نائجیریا میں اغوا ہونے والے پاکستانی ڈاکٹر: ’بیٹا شوق سے نہیں، مجبوری میں گیا تھا‘
- محمد زبیر خان
- صحافی
’میں ماں ہوں۔ اپنے لائق فائق کماؤ بیٹے کے اغوا کے بعد صرف نیند کی گولیاں کھا کر ہی سو پاتی ہوں۔ حکومت پاکستان، حکومت نائیجیریا اور اغوا کرنے والوں کو واسطہ دیتی ہوں کہ میرے بیٹے اور دیگر لوگوں کو چھوڑ دیں۔ بے گناہ لوگوں کے اغوا کے بعد ان کے گھر والوں پر کیا بیت رہی ہوگئی یہ وہ ہی سمجھ سکتا ہے۔ جس پر گزر رہی ہوتی ہے۔‘
یہ کہنا تھا کہ پنجاب کے ضلع راجن پور کی تحصیل جام پور کی رہائشی خاتون فرحت بی بی کا، جن کے سب سے بڑے بیٹے ڈاکٹر ابوذر افضل عفاری کو نائجیریا میں ایک شہر سے دوسرے شہر جاتے ہوئے ٹرین کے سفر کے دوران 28 مارچ کو اغوا کر لیا گیا تھا۔
مختلف رپورٹوں کے مطابق اغوا کی اس واردات میں مجموعی طور پر 160 سے زیادہ لوگوں کو اغوا کیا گیا ہے، جن میں اکثریت نائیجیریا کے شہریوں کی ہے، جبکہ ان میں سے ایک پاکستانی ڈاکٹر ابوذر افضل بھی ہیں۔
اغوا کی ذمہ داری بنڈیٹ کہلانے والے گروپ نے قبول کی ہے۔ اس گروپ کے نائجیریا کی حکومت کے ساتھ طویل عرصہ سے تنازعات چل رہے ہیں، اور نائجیریا کی حکومت نے اس مسلح گروپ پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
ڈاکٹر ابوذر کے بھائی دانیال افضل کے مطابق وہ نائجیریا میں کام کرنے والی کمپنی ’جے میرنیز‘ میں کچھ عرصہ سے بحثیت جنرل مینجر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔
ڈاکٹر ابوذر مائیکروبیالوجی میں پی ایچ ڈی ہیں جبکہ انھوں نے ایم فل میں گولڈ میڈل حاصل کیا تھا۔
ڈاکٹر ابوذر عفاری
ڈاکٹر ابوذر کی والدہ فرحت بی بی کہتی ہیں کہ اغوا کاروں نے دو تین دن قبل جے میرنیز کو نائجیریا ہی میں ان کی ایک ویڈیو بھیجی جس میں اغوا کار حکومت سے مختلف مطالبات کر رہے ہیں۔ اسی ویڈیو میں ان کے بیٹے کا پیغام بھی ہے۔ اغوا کاروں نے نائجیریا کی حکومت کو مطالبات پورے کرنے کے لیے کچھ دنوں کی مہلت دی ہے۔
ڈاکٹر ابوذر نے وڈیو پیغام میں کیا کہا؟
ڈاکٹر ابوذر افضل کے اہل خانہ کو کمپنی کے ذریعے ملنے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر ابوذر افضل اغوا کاروں کے چنگل میں ہیں۔ ان کے ہمراہ پانچ دیگر لوگ بھی موجود ہیں جن میں تین خواتین اور دو مرد ہیں۔ یہ پانچوں افراد نائیجیریا کے مقامی لگ رہے ہیں۔
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک مسلح نقاب پوش ان کے ہمراہ کھڑا ہے۔ ویڈیو میں ڈاکٹر ابوذر کہہ رہے ہیں کہ میرا نام ابوذر افضل ہے اور میں پاکستانی شہری ہوں۔
ڈاکٹر ابوذر کہتے ہیں کہ انھیں 28 مارچ کو ٹرین کا سفر کرتے ہوئے اغوا کیا گیا تھا۔ ’ہم یہاں پر 62 لوگ ہیں۔ یہاں کے حالات اچھے نہیں ہیں۔ ہم بین الاقوامی برادری، پاکستان اور نائجیریا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہماری رہائی کے لیے اقدامات کرے۔‘
وڈیو میں نائجیریا کے مقامی لو گ بھی بات کر رہے ہیں۔
حکومت پاکستان کیا کہتی ہے؟
ڈاکٹر ابوذر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ
ڈاکٹر ابوذر کے والد شیخ محمد افضل کہتے ہیں کہ ’ہم تک جو اطلاعات پہنچی ہیں ان کے مطابق ٹرین میں سے اغوا کرنے کے بعد تمام مغویوں کو تین مختلف کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔‘
’ایک کیمپ میں میرا بیٹا بھی شامل ہے۔ بیٹے کے اغوا کے بعد جو کچھ ممکن ہے کر رہے ہیں۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کو خطوط لکھنے کے علاوہ اعلیٰ احکام سے رابطے کیے ہیں۔‘
ڈاکٹر ابوذر کے اسلام آباد میں موجود ایک قریبی عزیز وقاص عظیم کے مطابق وزیر مملکت حنا ربانی کھر اور ترجمان دفتر خارجہ نے اپنے پیغام میں یقین دلایا ہے کہ وہ ڈاکٹر ابوذر کی رہائی کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔
وقاص عظیم کو بھیجے گئے ایک پیغام میں ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ نائجیریا میں بوکو حرام کے دہشت گردوں نے ٹرین حملے میں لوگ اغوا کیے ہیں، جس میں پاکستانی قومیت کے حامل پی ایچ ڈی ڈاکٹر ابوذر افضل بھی شامل ہیں۔
ترجمان کے مطابق دفتر خارجہ اس وقت نائجیریا کی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے اور رہائی کے لیئے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیئے
وقاص عظیم کہتے ہیں کہ وزیر مملک برائے خارجہ حنا ربانی کھر نے رہائی کی بھرپور کوشش کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔
شیخ محمد افضل کہتے ہیں کہ ’بیٹا شوق میں نہیں، مجبوری میں نائجیریا گیا تھا۔ وہ ہی ہمارا واحد سہارا ہے، میرے باقی بچے ابھی پڑھ رہے ہیں۔ مگر میں کہتا ہوں کہ بیٹا واپس آ جائے تو دوبارہ نائیجیریا نہیں بھیجوں گا۔ پاکستان ہی میں کوئی مزدوری کر لے۔‘
گولڈ میڈلسٹ کو پاکستان میں ملازمت نہ ملی
ڈاکٹر ابوذر اور ان کا بیٹا
شیخ محمد افضل کہتے ہیں کہ ’میں خود ان پڑھ ہوں، شادی کے وقت اور شادی سے پہلے میں کراچی میں محنت مزدوری کرتا تھا۔ شادی کے دو سال بعد واپس اپنے علاقے میں آ گیا تھا۔ کراچی میں شادی کے بعد دوستوں نے مجھے کہا کہ تم خود تو پڑھ نہیں سکے اپنے بچوں کو ضرور پڑھانا۔‘
شیخ محمد افضل کہتے ہیں کہ ’یہ بات میرے ذہن میں بیٹھ گئی تھی۔ کراچی میں تعلیم کی اہمیت بھی دیکھ لی تھی۔ خود محنت مزدوری کرتا رہا مگر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی ہے۔ جو کچھ ممکن ہوسکا بچوں کی تعلیم کے لیے کیا۔ میرے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ ابوذر سب سے بڑا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ابوذر نے ایف ایس سی تک اپنے علاقے ہی سے پڑھا اور پھر لاہور چلا گیا تھا۔ ’لاہور کے بعد فیصل آباد میں پی ایچ ڈی کی۔ ایم فل میں گولڈ میڈل بھی حاصل کیا تھا۔ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد کہتا تھا کہ بہت اچھی نوکری ملے گی۔ مگر دربدر رہا، بے روزگار رہا۔ پھر جب نائجیریا سے نوکری کی آفر ہوئی تو ادھر چلا گیا۔‘
شیخ محمد افضل کہتے ہیں کہ ’میں اب کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر پاکستان میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بھی نوکری نہیں ملتی تو پھر مجھ جیسا ان پڑھ تو بہت اچھا ہے جو محنت مزدوری کر کے رزق تو کما لیتا ہے، پھر کس لیے پی ایچ ڈی تک پڑھنے اور اتنی محنت کرنے کی ضرورت ہے؟‘
وہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر ابوذر کے دو بچے ہیں۔ بڑا بیٹا دو سال کا ہے جبکہ بیٹی چند ماہ کی ہے۔ ’دونوں باپ بیٹی نے ایک دوسرے کو نہیں دیکھا ہے۔ ابوذر نے کبھی بھی اپنی نو مولود بیٹی کو گود میں نہیں کھیلایا ہے۔ سوچتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو کتنا یاد کرتا ہو گا۔ بالخصوص اپنی بیٹی کے لیے کتنا پریشان ہوتا ہو گا۔‘
Comments are closed.