ٹیکساس کے سکول میں فائرنگ: امریکہ میں اسلحہ رکھنے پر آئینی تحفظ کیوں حاصل ہے؟
امریکہ میں ہتھیار رکھنے کے حق کو آئینی تحفظ حاصل ہے
اوولڈے (ٹیکساس) کے ایک سکول میں قتل عام کا 18 سالہ مجرم سلواڈور راموس تھا جس نے 19 بچوں اور دو اساتذہ کو فائرنگ کر کے ہلاک کرنے کے بعد خود کو بھی ہلاک کر لیا تھا۔
اپنی اٹھارہویں سالگرہ کے موقع پر اس نے اپنے لیے کچھ تحفے خریدے تھے۔ ان میں دو اے آر 15 ٹائپ کی نیم خودکار رائفلیں، اور گولیوں کے 370 راؤنڈ شامل تھے۔
اے آر 15 ٹائپ رائفل فائرنگ کے واقعات میں استعمال ہونے والا عام ہتھیار ہے۔
راموس کے رشتہ داروں کے مطابق وہ نفسیاتی مسائل سے دو چار نوجوان تھا اور اس نے یہ ہتھیار مکمل طور پر قانونی طور پر حاصل کیے تھے۔
سلواڈور راموس، ٹیکساس میں اوولڈے کے اسکول میں حملہ آور
ان ہتھیاروں کو حاصل کرنے کے لیے اسے صرف ایک دکان میں جانا پڑا، اپنا آرڈر دیا، ادائیگی کی اور بس۔ اتنی آسانی سے ہتھیاروں کا حصول کسی بھی دوسرے ملک میں ناقابل فہم ہے۔
لیکن امریکہ میں نہیں، جہاں بندوق رکھنا شہریوں کے بنیادی حقوق میں شامل ہے اور امریکی آئین میں دوسری ترمیم کے تحت اسے آئینی تحفظ حاصل ہے۔
یہ آئینی حق کیا ہے اور اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
15 دسمبر 1791 کو نئی قائم شدہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے بل آف رائٹس کی توثیق کی جو آئین میں پہلی دس ترامیم ہیں جو اس کے شہریوں کے بنیادی حقوق کی تصدیق کرتی ہیں۔
اس آئینی ترمیم کے تحت ہتھیار رکھنے کے حق کو، آزادی رائے، پریس، مذہب اور اجتماع کی آزادی کے حقوق کے برابر بنا دیا گیا۔
اگر آزاد ریاست کی سلامتی کے لیے ایک منظم ملیشیا ضروری ہے تو عوام کے ہتھیار رکھنے اور برداشت کرنے کے حق کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔
امریکی آئین میں دوسری ترمیم
1791 میں امریکہ نے اپنے موجودہ علاقے کے تقریباً ایک تہائی حصے پر قبضہ کر لیا جس کا مقصد مغرب کی طرف وسعت دینا تھا۔ جنگ آزادی (1775-83) میں برطانیہ کے خلاف فتح، جس میں ملیشیا نے اہم کردار ادا کیا تھا، کو ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔
ملیشیا وہ مسلح گروہ تھے جو اپنی برادریوں، قصبوں، کالونیوں کے تحفظ کے لیے اکٹھے ہوئے اور جب ملک نے 1776 میں آزادی کا اعلان کیا تھا اور بالآخر ریاستیں وجود میں آئیں۔
اس وقت عام ہتھیار ہتھیار مسکٹ تھی جو پیادہ فوج کے نوادرات میں شامل ہے اور اسے انیسویں صدی تک استعمال کیا جاتا تھا اور یہ تقریباً 100 میٹر کے فاصلے تک بڑی موثر تھی اور اسے تقریباً ایک منٹ میں تین بار چلایا جا سکتا تھا۔
اس وقت جب امریکی ثقافتی شناخت قائم ہو رہی تھی، بہت سے لوگ باقاعدہ فوجیوں کو اقتدار کے آلہ کار سمجھتے تھے جن کو شہریوں پر ظلم کرنے کی صلاحیت حاصل تھی اور ان کا خیال تھا کہ اپنے دفاع کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہتھیار لے کر چلیں اور اگر ضروری ہو تو ملیشیا یا مسلح گروہ بنائیں یا ان میں شامل ہو جائیں۔
درحقیقت وفاقیت کے مخالفوں (ایک مضبوط مرکزی حکومت کے مخالفین) نے ایک پیشہ ور فوج کے وجود کو مسترد کر دیا، حالانکہ یہ قائم ہوئی کئی دیگر چیزوں کی طرح کیونکہ اسے کسی بیرونی جارحیت کی صورت میں ضروری سمجھا گیا۔
اس طرح 1788 میں آئین کی باضابطہ توثیق کے بعد جیمز میڈیسن، جو امریکہ کے بانیوں میں شامل تھے بعد میں امریکہ کے صدر بنے نے اس کی باضابطہ توثیق کر دی گئی۔
امریکہ میں انھوں نے ریاستوں میں ملیشیا کو بااختیار بنانے کے مقصد سے دوسری ترمیم کا مسودہ تیار کیا۔ اور اگرچہ دوسری ترمیم نے طاقت کے استعمال کے ذریعے قانون کے نفاذ کی حکومت کی اہلیت کو محدود نہیں کیا لیکن اس نے ان شہریوں کو غیر مسلح کرنے کا اختیار ضرور چھین لیا جو اپنا دفاع کرنا چاہتے تھے۔
ایک ترمیم، دو تصورات
امریکہ میں برسوں سے شہریوں کے اسلحہ رکھنے کے حق کے حامیوں نے دوسری ترمیم کو اپنے حقوق کی ضمانت کے طور پر دیکھا ہے۔ نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کی دستاویز کے مطابق ’دوسری ترمیم قانون کی پاسداری کرنے والے بندوق مالکان کے حقوق کے تحفظ کے لیے اہم ہے۔‘
این آر اے، جس کے 55 لاکھ ارکان ہیں، امریکی سیاست کا سب سے بااثر مخصوص مفاد پر قائم گروپوں میں سے ایک ہے اور یہ اسلحہ رکھنے کے بارے میں ضوابط کو سخت کرنے کی اکثر تجاویز کی مخالفت کرتا ہے۔
2018 میں این آر اے کے کنونشن میں اسلحہ کی نمائش
اس مؤقف کے حامیوں کا کہنا ہے کہ دوسری ترمیم کا ایک حصہ ’عوام کے ہتھیار رکھنے اور ہتھیار بند ہو کر چلنے کا حق‘ انفرادی آئینی حق کا مظہر ہے اور کسی بھی قدغن یا پابندی کا قانون یا ضابطہ آئین کے منافی ہو گا۔
تاہم بندوق کی ملکیت کے مخالفین دوسری ترمیم کے متن کے پہلے حصے پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں جس میں ’ایک منظم ملیشیا‘ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
اس دوسرے مؤقف کے نظریہ سازوں کا استدلال ہے کہ 1791 میں آئین سازوں کا مقصد شہریوں کو اسلحہ رکھنے کا انفرادی حق دینا نہیں تھا بلکہ بیرونی جارحیت کی صورت میں دفاع کا اجتماعی حق قائم کرنا تھا۔
اس طرح وہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو آتشیں اسلحہ لینے اور رکھنے کا انفرادی حق نہیں ہونا چاہیے اور وفاقی، ریاستی اور مقامی حکام غیر آئینی حیثیت میں آئے بغیر اس قسم کے ہتھیاروں کو منظم، محدود یا ممنوع قرار دے سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
بندوق کی ملکیت کے مخالفین نے متعدد مواقع پر اور ملک بھر کے مختلف شہروں میں مظاہرے کر چکے ہیں۔
ڈی سی بمقابلہ ہیلر
درحقیقت ہتھیار اٹھانے کا حق اجتماعی دفاعی افواج سے جڑا ہوا ہے، یہ نقطہ نظر 1939 میں امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے میں نافذ کیا گیا تھا۔
اس فیصلے کے تحت ریاستی اور مقامی حکومتوں کو انفرادی بندوق کی ملکیت پر پابندی لگانے کا اختیار حاصل تھا جیسا کہ ڈسٹرکٹ آف کولمبیا (واشنگٹن ڈی سی) میں ہوا تھا۔
یہ بات تقریباً سات دہائیوں سے درست تھی لیکن 2008 میں ڈی سی بمقابلہ (ڈک) ہیلر میں سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کے ساتھ اس میں تبدیلی آئی، ایک مقامی پولیس افسر جس نے مقدمہ دائر کیا تھا کیونکہ اسے ذاتی بندوق درج کرنے سے روک دیا گیا تھا۔
ڈک ہیلر نے 2008 میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں کی گئی تشریح کے بعد امریکہ میں ہتھیاروں سے متعلق قانون سازی میں تبدیلی کی گئی۔
سب سے بڑی امریکی عدالت نے چار کے عوض پانچ ووٹوں کے فرق سے فیصلہ کیا کہ دوسری ترمیم قانونی استعمال کے لیے فرد کے آتشیں اسلحہ رکھنے کے حق کا تحفظ کرتی ہے۔
اگرچہ یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ یہ حق لامحدود نہیں ہے (مثال کے طور پر، اس میں مشین گن جیسے بڑے کیلیبر ہتھیار شامل نہیں ہیں) سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ گھر کی ملکیت کے لیے شہریوں پر بندوقوں سے مکمل پابندی غیر آئینی ہے، کیونکہ اس طرح کی پابندی دوسری ترمیم کے خود دفاعی مقصد کی خلاف ورزی ہو گی۔
اس کے بعد سے نچلی عدالتوں کو ہتھیاروں پر پابندیوں، رجسٹریشن کی ضروریات اور بعض ریاستوں کی جانب سے عائد کی جانے والی ظاہری پابندیوں کے خلاف متعدد مقدموں کی سماعت کرنی پڑی ہے۔
آج امریکہ میں آتشیں اسلحہ رکھنے کی انفرادی اجازت یا ممانعت جاری رکھنے کی تجاویز پر ایک تلخ سیاسی اور سماجی تنازعہ ہے جو خاص طور پر اس وقت بھڑک اٹھتا ہے جب اوولدے ایلیمنٹری سکول جیسے سانحے رونما ہوتے ہیں۔
Comments are closed.