ڈیجیٹل کرنسی: افریقی ملک جمہوریہ وسطی افریقہ نے بٹ کوائن کو قانونی کرنسی قرار دے دیا، آئی ایم ایف کی تنقید
جمہوریہ وسطی افریقہ (سی اے آر) بٹ کوائن کو اپنی قانونی کرنسی کا درجہ دینے والا دنیا کا دوسرا ملک بن گیا ہے۔
روس کا قریبی اتحادی یہ ملک ہیروں، سونے اور یورینیم کی دولت سے مالامال ہونے کے باوجود دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے۔
سی اے آر کئی دہائیوں سے مسلح تنازعے کا شکار ہے اور یہاں روسی نیم عسکری تنظیم ویگنر گروپ کے جنگجو بھی حکومت کی باغیوں سے نمٹنے میں مدد کر رہے ہیں۔
ایوانِ صدر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ ملک کی پارلیمان نے بٹ کوائن کو قانونی کرنسی قرار دینے کی متفقہ طور پر منظوری دی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ ‘اس اقدام سے سی اے آر ‘دنیا کے باہمت ترین اور سب سے پیش بین ممالک میں سے ایک بن گیا ہے۔’
ایل سلواڈور ستمبر 2021 میں بٹ کوائن کو اپنی باضابطہ کرنسی قرار دینے والا دنیا کا پہلا ملک بنا تھا۔
اس اقدام پر کئی معاشی ماہرین بشمول بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے تنقید کی تھی جن کا کہنا تھا کہ اس سے مالی عدم استحکام میں اضافہ ہو گا۔
کچھ دیگر کو خدشہ ہے کہ بٹ کوائن جیسی کرپٹو کرنسیوں سے مجرمان کے لیے کالا دھن سفید کرنا آسان ہو سکتا ہے جبکہ کچھ کا مؤقف ہے کہ ان کرنسیوں کی پیداوار میں بجلی کے بے تحاشہ استعمال کے باعث یہ ماحول کے لیے نقصان دہ ہیں۔
کسی بھی کرپٹو کرنسی کے استعمال کے لیے انٹرنیٹ ضروری ہے تاہم ورلڈ ڈیٹا نامی ویب سائٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2019 میں سی اے آر کے صرف چار فیصد افراد کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل تھی۔
فی الوقت اس ملک میں فرانسیسی پشت پناہی کا حامل سی ایف اے فرینک قانونی کرنسی ہے۔ یہی معاملہ افریقہ میں دیگر سابق فرانسیسی کالونیوں کے ساتھ بھی ہے۔
کچھ لوگوں کے نزدیک بٹ کوائن کو اپنانا سی ایف اے کی اہمیت گھٹانے کی کوشش ہے کیونکہ وسائل سے مالامال اس ملک پر اثر و رسوخ کے لیے فرانس اور روس کے درمیان رسّہ کشی جاری ہے۔
فرانسیسی تجزیہ کار تھیری ورکولون نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ‘اگر ہم سیاق و سباق کو دیکھیں، یعنی ادارہ جاتی بدعنوانی اور بین الاقوامی پابندیوں کے شکار ملک روس سے شراکت داری تو شک تو جنم لیتا ہے۔’
یہ بھی پڑھیے
مگر دارالحکومت بانگوئی میں ردِ عمل ملا جلا تھا۔
ماہرِ اقتصادیات یان داوورو نے بی بی سی افریقہ کو بتایا کہ اس سے زندگی آسان ہو گی کیونکہ لین دین سمارٹ فونز کے ذریعے ہو سکے گا جبکہ بٹ کوائن کو کسی دوسری کرنسی میں تبدیل کروانا آسان ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ‘کاروباری افراد کو بین الاقوامی خریداری کے لیے سی ایف اے فرینکس سے بھرے سوٹ کیسز اٹھا کر اُنھیں ڈالروں یا کسی اور کرنسی میں تبدیل کروانے کے لیے چلتے پھرتے نہیں رہنا پڑے گا۔’
اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ سی ایف اے فرینک ‘افریقہ کے فائدے’ کے لیے نہیں استعمال ہو رہے تھے۔ کئی ممالک میں اس کرنسی کو ترک کر دینے کے مطالبات کیے جاتے رہے ہیں کیونکہ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ کالونیل دور کی کرنسی ہے جس سے فرانس کو اقتصادی کنٹرول جمانے کا موقع ملتا ہے۔
مگر کمپیوٹر سائنٹسٹ سڈنی ٹکایا نے کہا کہ اُن کے نزدیک کرپٹو کرنسی کو اپنانا ‘غیر ذمہ دارانہ’، اور ‘جلد بازی’ میں کیا گیا فیصلہ ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ‘اس ملک میں انٹرنیٹ تک رسائی اب بھی محدود ہے جبکہ بٹ کوائن تو مکمل طور پر انٹرنیٹ پر منحصر ہے۔’
سڈنی ٹکایا کا کہنا تھا کہ سی اے آر میں فی الوقت تحفظ، تعلیم اور پینے کے پانی کی فراہمی جیسے کئی اہم مسائل اب بھی موجود ہیں۔
سنہ 1960 میں اپنی آزادی سے اب تک جمہوریہ وسطی افریقہ مسلح تنازعات کی زد میں رہا ہے۔
سنہ 2013 میں اکثریتی طور پر مسلمانوں پر مشتمل باغیوں نے اس مسیحی اکثریتی ملک پر قبضہ کر لیا تھا۔
مزاحمت میں دفاعی ملیشیائیں بنائی گئیں جس کے بعد ملک میں مذہبی بنیادوں پر وسیع پیمانے پر قتلِ عام ہوا۔
سنہ 2016 میں صدر فاؤسٹن ارشانگ تودیرا نے کہا تھا کہ ملک نے اپنا تزویراتی جھکاؤ فرانس کے بجائے روس کی طرف کرنا شروع کر دیا ہے۔
Comments are closed.