بلوچستان میں بدامنی کی وجہ سے یہاں باشندوں کے لیے ملک کہ بیشتر اداروں میں مواقع کم دیے جاتے ہیں، ایسے میں جامعہ کراچی میں بلوچ خاتون سے منسلک خودکش بم دھماکے کی وجہ سے بلوچ نوجوانوں کے تعلیمی مستقبل کے لیے مشکلات سامنے آنے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
کمیونٹی ذرائع کے مطابق صوبۂ بلوچستان کے بڑے شہروں میں یونیورسٹیز اور دیگر تعلیمی ادارے موجود ہیں۔
بلوچستان یونیورسٹی ہے، بولان میڈیکل کالج ہے، خضدار انجینئرنگ کالج ہے مگر وہاں کا معیارِ تعلیم کراچی، لاہور یا ملک کے دیگر بڑے شہروں کے ہم پلہ نہیں۔
کوئٹہ، گوادر، پنجگور، خضدار، پسنی، جیونی، چمن سمیت بلوچستان کے لگ بھگ 80 فیصد نوجوان بہتر تعلیم کے حصول کے لیے کراچی، لاہور، اسلام آباد اور دیگر شہروں کے بڑے تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں۔
زیادہ تر پڑھے لکھے بلوچ اپنے بچوں کو ملک کے دیگر اداروں میں بھجوا دیتے ہیں۔
مبینہ طور پر خودکش لڑکی کو بلوچستان سے منسوب کیے جانے سے اس صوبے کے تعلیم کے متلاشی نوجوانوں کو ملک کے دیگر تعلیمی اداروں میں داخلے کے وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ذرائع کالعدم تنظیم کی ایسی کارروائی کو بلوچ کمیونٹی کے پاؤں پر کلہاڑی تصور کرتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اس خودکش حملے کے تناظر میں بلوچ نوجوانوں یا خواتین کو ملک کے دیگر تعلیمی اداروں میں مشکوک تصور کیا جائے گا۔
تعلیمی ادارے میں ان کی کڑی نگرانی بھی کی جا سکتی ہے، ان کی سرگرمیاں بھی محدود کی جا سکتی ہیں۔
Comments are closed.