مرضی کے بغیر ’برتھ ڈے پارٹی‘ کا انعقاد، امریکی شہری نے اپنی کمپنی کے خلاف ساڑھے چار لاکھ ڈالر کا مقدمہ جیت لیا
امریکی ریاست کینٹکی میں ایک شخص کو عدالت نے اس بنیاد پر ساڑھے چار لاکھ ڈالر کی رقم کا حقدار قرار دیا کیونکہ ان کی کمپنی نے ان کی مرضی کے بغیر ان کے لیے سرپرائز برتھ ڈے پارٹی کا انعقاد کیا تھا۔
کیون بِرلنگ نامی شخص نے عدالت کو بتایا کہ سنہ 2019 میں ان کی کمپنی ’گریوٹی ڈائیگناسٹکس‘ کی طرف سے منعقد کی گئی اس تقریب کی وجہ سے ان میں اضطرابی کیفیت (پینک اٹیک) پیدا ہوئی اور ذہنی تناؤ میں اضافہ ہوا۔
کیون نے اپنی کمپنی ’گریوٹی ڈائیگناسٹکس‘ کو اپنی صحت اور کیفیت سے متعلق پہلے خبردار کیا تھا مگر پھر بھی کمپنی نے اُن کے اعزاز میں یہ تقریب منسوخ نہیں کی۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ کمپنی نے معذوری کی بنیاد پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا تاہم کمپنی نے کسی بھی جرم کے ارتکاب سے انکار کیا ہے۔
کینٹکی کی کینٹن کاؤنٹی میں دائر کیے گئے مقدمے کے مطابق کیون، جو اضطراب کے عارضے میں مبتلا ہیں، نے اپنے مینیجر سے کہا تھا کہ کمپنی اپنی روایت کے برعکس دفتر میں ان کی سالگرہ کی تقریب کا اہتمام نہ کرے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں ان پر بچپن کی یادوں کا غلبہ طاری ہو سکتا ہے، جس سے پھر وہ خوف میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔
کیون کی طرف سے دائر درخواست کے باوجود کورونا وائرس کے ٹیسٹ کرنے والی اس کمپنی نے اگست 2019 میں ان کے اعزاز میں ایک سرپرائز برتھ ڈے پارٹی کا انعقاد کیا، جس سے انھیں ’پینک اٹیک‘ (اضطراب کیفیت) ہوا۔ وہ جلدی سے پارٹی سے نکلے اور پھر اپنی گاڑی میں جا کر اپنا لنچ کیا۔
مقدمے میں کہا گیا ہے کہ کیون کو اگلے دن ایک میٹنگ میں اس رویے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے اپنے ساتھی ملازمین کی ’خوشیوں کو چھینا‘ اور ان کے اس ردعمل کو کسی ’چھوٹی بچی جیسا رویہ‘ قرار دیا۔
اس تناؤ والی میٹنگ کے نتیجے میں کیون مزید حواس باختہ ہو گئے اور پھر کمپنی نے انھیں بحالی صحت کے لیے آٹھ اور نو اگست کو گھر بھیج دیا۔
11 اگست کو کمپنی نے ’ورک پلیس سیفٹی‘ جیسے خدشات کو وجہ بتا کر انھیں ملازمت سے برطرف کر دیا۔
کیون نے عدالت کو بتایا کہ ’کمپنی نے ان کی معذوری کی وجہ سے ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا اور ان کی تقریب نہ کرنے کی درخواست کو غلط رنگ دے کر ان کے خلاف غیر منصفانہ جوابی کارروائی عمل میں لائی گئی۔
مارچ کے آخر میں دو دن کے مقدمے کی سماعت کے بعد جیوری نے اسے کیون کے حق میں فیصلہ سُناتے ہوئے کمپنی کو انھیں ساڑھے چار لاکھ ڈالر ادا کرنے کا حکم دیا۔
اس رقم میں کیون کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے تین لاکھ ڈالر جبکہ باقی ڈیڑھ لاکھ ان کی تنخواہ کے بقایا جات کے طور پر ادا کیے گئے۔
بی بی سی نے مقدمے کے نتائج پر تبصرہ کرنے کے لیے ’گریوٹی ڈائیگناسٹک‘ اور فرم کی نمائندگی کرنے والے ایک وکیل سے رابطہ کیا۔
کمپنی کی چیف آپریٹنگ آفسر جولی برازیل نے مقامی نیوز آؤٹ لیٹ لنک ’این کے وائی‘ کو بتایا کہ کمپنی کیون کو برطرف کرنے کے اپنے فیصلے پر قائم ہے۔ ان کے مطابق کیون نے ’ورک پلیس وائلنس‘ پالیسی کی خلاف ورزی کی۔
ان کے مطابق ’کیون کے بجائے اس کیس سے میرے ملازمین متاثر ہوئے۔‘
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے مزید کہا کہ ’کمپنی اس فیصلے کو چیلنج کر رہی ہے اور اس کے خلاف اپیل دائر کرنے پر غور کر رہی ہے۔‘
کیون کے وکیل ٹونی بوچر نے بی بی سی کو بتایا کہ اس بات کا ’بالکل کوئی ثبوت نہیں تھا‘ کہ انھوں نے کمپنی میں کسی کے لیے خطرہ لاحق کیا ہو، جس کی وجہ سے انھیں برطرف کیا جا سکے۔
ٹونی بوچر نے کہا کہ ان پر بس ’پینک اٹیک‘ ہوا تھا اور چونکہ اس کمپنی کے نمائندے ان کی اس کیفیت کو نہیں سمجھ پائے تھے جس کی وجہ سے وہ ہیجان کا شکار ہو گئے اور کیون کو اپنے لیے خطرے کا سبب قرار دیا۔
ان کے مطابق ’محض یہ فرض کر لینا کہ ذہنی صحت کے مسائل میں مبتلا افراد بغیر کسی پرتشدد رویے کے ثبوت کے ہی خطرناک ہوتے ہیں ایک امتیازی سلوک ہے۔‘
واضح رہے کہ ذہنی عارضے پر ’نیشنل الائنس‘ کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ چار کروڑ سے زیادہ امریکی جو تقریباً ملک کی کل آبادی کا 20 فیصد تعداد بنتی ہے، اس وقت ’انیگزائیٹی ڈس آرڈرز‘ کی کیفیت کا شکار ہیں۔
Comments are closed.