لاہور: صوبائی دارالحکومت میں پنجاب اسمبلی جنگ کا میدان بن گیا، لاتوں، مکوں اور لوٹوں کی برسات، اپوزیشن اور حکومت دست و گریباں ہوگئے ۔
واضح رہے کہ آج پنجاب اسمبلی میں صورت حال اس وقت سخت کشیدہ ہو گئی جب ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کو ایوان میں داخل ہونے کے بعد پی ٹی آئی ارکان کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان کے بال کھینچے گئے، اور تھپڑ مارے گئے۔
پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کے دوران متعدد ارکان اسمبلی زخمی ہوگئے، وزارت اعلیٰ کے امیدوار چوہدری پرویز الہٰی بھی ہنگامہ آرائی کے نرغے میں آگئے اور تشدد سے زخمی ہوگئے۔ ہنگامہ آرائی کے دوران چوہدری پرویز الہٰی کو ایوان سے باہر نکال لیا گیا۔بعد ازاں جیو نیوز سے گفتگو میں پرویز الہیٰ کا کہنا تھا کہ میرا بازو ٹوٹ گیا ہے اور سینے پر بھی چوٹیں آئی ہیں، اپوزیشن نے اپنے غنڈے بلائے ہیں، شریفوں کا اصل چہرہ سب نے دیکھ لیا ہے، سارے معاملے میں آئی جی پنجاب ملوث ہیں۔انہوں نے الزام لگایا کہ میں نے دیکھا کہ رانا مشہور مجھ پر تشدد کررہے تھے اور حمزہ دور سے بیٹھے انہیں ہدایات دے رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں کہاں جاؤں، میرے لیے کوئی عدالت نہیں ہے، میں نے معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے، مجھ پر حملہ کروا کر جان سے مارنے کی کوشش کی گئی۔
پنجاب اسمبلی کے ایوان میں پولیس داخل، کئی پی ٹی آئی ایم پی ایز حراست میں لے لیے گئےلاہور: پنجاب اسمبلی کے ایوان میں پولیس داخل ہو گئی، پولیس نے مزاحمت کرنے والے متعدد حکومتی ایم پی ایز کو حراست میں لے لیا۔
تفصیلات کے مطابق ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی جانب سے چیف سیکریٹری اور آئی جی پنجاب کو خط لکھے جانے کے بعد پولیس اہل کاروں نے ایوان میں داخل ہو کر کئی حکومتی اراکین اسمبلی کو حراست میں لے لیا اور باہر لے گئے۔
پنجاب اسمبلی میں داخل ہونے والوں میں خواتین اور اینٹی رائٹ فورس کے اہل کار شامل تھے، پولیس اہل کاروں نے بلٹ پروف جیکٹ پہن رکھی تھیں، پولیس نے ایوان سے مزاحمت کرنے والے پی ٹی آئی کے واثق عباسی، ندیم قریشی اور اعجاز حجازی کو زیر حراست میں لیا۔
ایوان میں پولیس کے داخل ہونے پر تحریک انصاف کے ارکان نے شدید رد عمل ظاہر کیا، خواتین ارکان نے لڑائی لڑی اور پولیس اہل کاروں کو لوٹے مارے، اسمبلی میں ارکان اور پولیس اہل کاروں میں دھکم پیل اور تلخ کلامی بھی ہوئی۔
واضح رہے کہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی نے چیف سیکریٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب کو ایک خط لکھ کر کہا تھا کہ تشدد میں ملوث ارکان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے، اور مزید پولیس اہل کار اسمبلی میں تعینات کیے جائیں۔
ڈپٹی اسپیکر نے خط میں لکھا کہ انھیں عمر بٹ، واثق عباسی، ندیم قریشی اور شجاع نواز نے تشدد کا نشانہ بنایا، انھوں نے لکھا میں نے ہائیکورٹ کے حکم پر اجلاس کی صدارت کی لیکن حکومتی ارکان نے تشدد کا نشانہ بنایا، اور زود و کوب کر کے اجلاس میں امن و امان کو سبوتاژ کیا گیا۔
پنجاب اسمبلی میں پولیس آپریشن،اراکین کی گرفتاریاںپنجاب اسمبلی میں مار دھاڑ اور ہنگامہ آرائی کے بعد تحریک انصاف کے کچھ اراکین کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔
ہیلمٹ پہنے اینٹی رائٹس فورس کےاہلکاروں نے ایوان میں داخل ہوکر ہنگامہ آرائی کرنے والے اراکین کو منتشر کیا اور پھر 4 اراکین کو گرفتار کرکے لے گئے۔
اس دوران ایوان میں خوب شور شرابہ ہوا اورپولیس نے اسپیکر ڈائس کا کنٹرول سنبھال لیا۔
پنجاب اسمبلی،حکومتی اراکین نے دوست سے دشمنی نکال لی پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کیلئے صوبائی اسمبلی کا اجلاس شروع کرنے کیلئے جب ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری ایوان میں پہنچے تو حکومتی اراکین کی جانب سے انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
اجلاس شروع ہونے سے قبل حکومتی اراکین کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر پر لوٹے پھینکے گئے اور دیگر اراکین ڈپٹی اسپیکر کی ڈیسک کے پاس پہنچ گئے۔ حکومتی اراکین کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کو تھپڑ مارنے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں، جب کہ ن لیگی اراکین کا کہنا ہے کہ حکومتی اراکین کی جانب سے ان کے بال بھی نوچے گئے ہیں۔ بعد ازاں پی ٹی آئی اراکین نے ڈپٹی اسپیکر کی کرسی اُچھال دی۔
صورت حال قابو سے باہر ہوئی تو سیکیورٹی انتظامات کیلئے اہل کاروں کو طلب کیا گیا، جس پر 50 پولیس اور اینٹی رائٹس فورس کے اہل کار ایوان میں پہنچ گئے، جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر کو سخت سیکیورٹی میں ایوان سے باہر لے جایا گیا۔
اس دوران اسمبلی کے اندر موجود پرویز الہٰی نے مسلم لیگ (ن) پر پولیس کو ایوان کے اندر لانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اسمبلیوں کے قیام کے بعد پہلی بار پولیس ایوان میں داخل ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کون ہوتی ہے جو اسمبلی میں داخل ہو؟۔
مسلم لیگ (ق) کے رہنما نے کہا ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) ہمارے سامنے پیش ہوں اور انہیں ایک ماہ کی سزا دی جائے گی۔
تمام تر ہنگامہ آرائی کے دوران پرویز الہٰی انگوٹھے کا نشان بنا کر اراکین کو شاباشی دیتے رہے۔
میڈیا سے گفتگو میں ڈپٹی اسپیکر صوبائی اسمبلی دوست محمد مزاری کا کہنا تھا کہ ایوان کے استحقاق کو مجروح کیا گیا۔ عمر بٹ، واثق عباسی، ندیم قریشی، شجاع نواز نے مجھ پر تشدد کیا۔ ذرائع کے مطابق دوست محمد مزاری کی درخواست پر مقدمہ درج کرایا جائے گا۔ تشدد کرنیوالے ارکان کی رکنیت معطل کرنے کا بھی امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
ایوان میں ہنگامہ آرائی کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنما عطا تارڑ نے اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہا کہ آج آئین اور قانون کو پیروں تلے روندا گیا، آئین پاکستان کے ساتھ یہ کھلواڑ یکم اپریل سے جاری ہے، وزیراعلیٰ کا انتخاب خلاف آئین اور خلاف قانون تاخیر کا شکار کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم پہلے دن سے چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ ان کی نیت میں کھوٹ ہے یہ الیکن آگے کروانا پر چاہتے ہیںِ یہ بدنیتی پر مبنی فیصلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج جس طریقے سے ڈپٹی اسپیکر پر حملہ کیا گیا یہ دہشتگردی کا واقعہ ہے، میری اطلاعات ہیں کہ چوہدری پرویز الہی ایک دو بندوں کو قتل کروانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے گزارش کروں گا کہ آج جو ہنگامہ آرائی ہوئی وہ ان کے حکم کی خلاف ورزی ہے، اگر انہوں نے نوٹس نہ لیا تو یہ حالات برقرار رہیں گے، ہم رات 12 بجے تک یہیں پر ہیں۔
دریں اثنا مسلم لیگ (ن) کے رہنما مریم نواز نے کہا کہ غنڈہ گردوں کے گروہ نے جس کا نام ہے پنجاب میں اپنی شکست سامنے دیکھتے ہوئے پھر سے غنڈہ شروع کر دی۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے کی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے سے قبل اراکین کی جانب سے شدید نعرے لگائے گئے۔ اراکین نے ایک دوسرے کو لوٹے لوٹے کہہ کر پکارنا شروع کیا۔ اس دوران ایوان میں اراکین کی جانب سے ایک دوسرے پر لوٹے بھی پھینکے گئے۔ ایک رکن کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر صوبائی اسمبلی کی جانب بھی لوٹا پھینکنے کی کوشش کی گئی۔ اجلاس شروع کرنے کیلئے متعدد بار اراکین کو بلانے کیلئے گھنٹیاں بھی بجائی گئیں۔
اپوزیشن کے 100 سے زائد اراکین بینچوں پر موجود ہیں، جب کہ اسمبلی اراکین کو ایوان میں بلانے کے لیے گھنٹیاں بجائی جا رہی ہیں۔ کچھ حکومتی خواتین اراکین اسمبلی میں اپنے ساتھ لوٹے بھی لے آئیں اور انہوں نے لوٹے لوٹے کے نعرے لگانا شروع کر دیے جس کے باعث ایوان میں شور شرابہ شروع ہوا۔
، ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری اور پرویز الہی پنجاب اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچ چکے ہیں جبکہ حمزہ شہباز بھی اپوزیشن اتحاد کے ساتھ اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچ گئے ہیں
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پنجاب کی وزارت کا عہدہ سرداری عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور ہونے کے بعد یکم اپریل سے خالی ہے۔
واضح رہے کہ ایجنڈے کے مطابق پنجاب اسمبلی کا اجلاس آج بروز ہفتہ صبح ساڑھے 11 بجے شروع ہونا تھا۔ اجلاس میں آئین کے آرٹیکل 130 کے تحت وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب ہوگا۔
محکمہ داخلہ پنجاب کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اجلاس کے موقع پر پنجاب اسمبلی کےاطراف دفعہ 144 نافذ کی گئی ہے۔ ملکی و غیر ملکی میڈیا کو بلا روک ٹوک الیکشن آبزرو کرنے کی اجازت ہوگی۔
پنجاب اسمبلی کے ترجمان کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے شفاف انتخابات کے لیے پنجاب اسمبلی میں انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں، تمام اراکین اسمبلی کی بلا رکاوٹ اجلاس میں شرکت کو یقینی بنایاجائے گا۔
ترجمان کے مطابق اسمبلی کی حدود میں دوران سیشن کسی غیر متعلقہ شخص یا مہمان کو لانے کی اجازت نہیں ہوگی، ملکی و غیر ملکی میڈیا سمیت فافن اور پلڈاٹ کو بھی وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب آبزرو کرنے کی اجازت ہوگی۔
دوسری جانب محکمہ داخلہ پنجاب نے 16 اور 17 اپریل کو پنجاب اسمبلی کے اطراف دفعہ 144 نافذ کردی ہے۔ جاری کردہ نوٹی فیکیشن کے مطابق پنجاب اسمبلی کے 500 گز کی حدود میں 5 سے زیادہ لوگ اکٹھے نہیں ہوسکیں گے، ممبران اسمبلی، اسٹاف اور میڈیا کو داخل ہونے کی اجازت ہوگی، معروف سیاستدان بھی داخل ہوسکیں گے، جن کی تعداد 40 تک ہوگی۔
ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب ہر صورت ہوگا، اگر کسی نے ووٹنگ میں خلل کی کوشش کی تواس کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔
نئے وزیراعلیٰ کے منصب کیلئے پاکستان مسلم لیگ نواز (ن) اور پیپلز پارٹی کی جانب سے مشترکا طور پر حمزہ شہباز کو امیداوار نامزد کیا گیا ہے، جب کہ پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ قائداعظم (ق) نے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الہی کو وزارت اعلی کا امیدوار نامزد کیا ہے۔
اجلاس میں پریذائیڈنگ افسر کے فرائض ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری انجام دیں گے۔ دونوں امیدوار اس بات کا دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے پاس سادہ اکثریت موجود ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ق کے رہنما پرویز الہی کا دعویٰ ہے کہ انہیں 189 ارکان کی حمایت حاصل ہے، جب کہ حمزہ شہباز کہتے ہیں کہ 200 سے زائد ایم پی ایز ان کے ساتھ ہیں۔
پنجاب اسمبلی کے کُل 371 ارکان میں سے وزیراعلیٰ بننے کے لیے 186 ووٹ درکار ہیں۔ پنجاب اسمبلی کا ایوان 371 ارکان پر مشتمل ہے، جب کہ پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ بننے کے لیے 186 ووٹ درکار ہیں۔
موجودہ اسمبلی میں پاکستان تحریکِ انصاف کے 183 ارکان ہیں، مسلم لیگ ن کے ارکان کی تعداد 166 ہے، مسلم لیگ ق کے 10 ارکان ہیں، پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 7 ہے۔ ایوان میں اس وقت آزاد ارکان کی تعداد 4 ہے جب کہ راہِ حق پارٹی کا ایک رکن ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریکِ انصاف کے ناراض ارکان کی تعداد 21 ہے، مسلم لیگ ن کے 5 ارکان اپنی جماعت سے ناراض ہیں، جب کہ چوہدری نثار علی خان ووٹنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔
آج ہونے والے اہم اجلاس میں شرکت کیلئے اراکین صوبائی اسمبلی کو قریبی واقع ہوٹل سے بسوں میں بھر کر لایا گیا۔ حمزہ شہباز کے حامی ارکانِ پنجاب اسمبلی ایئر پورٹ کے قریب واقع ہوٹل میں موجود تھے۔ متحدہ اپوزیشن کے ارکان بسوں میں پنجاب اسمبلی پہنچیں گے، ارکان کو ہوٹل سے لیکر 5 بسیں اسمبلی پہنچی۔ ہوٹل میں بھی سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ بسوں کے ساتھ پولیس ٹیمیں بھی پنجاب اسمبلی تک آئیں۔
گزشتہ ماہ 28 مارچ کو پنجاب میں اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے سیکریٹری محمد خان بھٹی کو عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی تھی۔
چنانچہ 28 مارچ کو ہی عثمان بزدار نے وزیر اعظم عمران خان کو اپنا استعفیٰ پیش کیا تھا جس کی تصدیق پی ٹی آئی کی وزرا کی جانب سے بھی گئی تھی ساتھ ہی پی ٹی آئی کی جانب سے مسلم لیگ (ق) کے چوہدری پرویز الہٰی کو وزیراعلیٰ کا امیدوار نامزد کردیا گیا تھا۔
ایسے میں کہ جب اپوزیشن اور حکومت دونوں کی جانب سے سادہ اکثریت کا دعویٰ کیا گیا ترین گروپ نے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار حمزہ شہباز کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
بعد ازاں یکم اپریل کو گورنر پنجاب نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور کرنے کے ساتھ 2 اپریل بروز ہفتہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس بھی طلب کرلیا تھا، جس کے ایجنڈے میں قائد ایوان کا انتخاب شامل تھا۔
تاہم 2 اپریل کو ہونے والا اجلاس اپوزیشن اور حکومتی اراکین کی ہنگامہ آرائی کے باعث وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے بغیر ہی ملتوی کردیا تھا۔
اس کے بعد 3 اپریل کو وزیر اعلیٰ کے انتخابات کے لیے پنجاب اسمبلی کا منعقد کیے جانے والا اجلاس بھی بغیر ووٹنگ کے ملتوی کردیا گیا تھا۔
بعد ازاں 5 اپریل کو پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے وزیر اعلیٰ کا انتخاب عمل میں لائے بغیر اسمبلی کا اجلاس 16 اپریل تک مؤخر کردیا تھا۔
تاہم رات گئے سامنے آنے والی اہم پیش رفت میں انہوں سابق حکم نامے کو مسترد کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی کا اجلاس اگلے روز ساڑھے 7 بجے بلانے کا حکم جاری کیا تھا جس کی پنجاب اسمبلی کے ترجمان اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کی جانب سے تردید کی گئی تھی۔
اگلے روز 6 اپریل کو پنجاب اسمبلی میں کام کے باعث اجلاس نہ ہوسکا، جب کہ اپوزیشن کی جانب سے مقامی ہوٹل میں اسمبلی کا علامتی اجلاس منعقد کیا گیا جہاں مریم نواز سمیت اپوزیشن نے دعویٰ کیا کہ حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوگئے ہیں۔
اس کے بعد 7 اپریل کو پنجاب اسمبلی میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے اپنے ہی ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی گئی تھی جس کے بعد سردار دوست محمد مزاری اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کے مجاز نہیں رہے تھے۔
بعد ازاں اپوزیشن جماعتیں بھی اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرانے میں کامیاب ہو گئیں جس سے صوبائی حکومت کے لیے اپنے کارڈز کھیلنے کی گنجائش مزید کم ہو گئی تھی۔
بعد ازاں 9 اپریل کو مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز نے وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب کرانے کیلئے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں اسپیکر پرویز الہٰی، ڈپٹی اسپیکر اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ یکم اپریل سے وزیر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ خالی ہے اور صوبہ پنجاب یکم اپریل سے بغیر چیف ایگزیکٹو کے چل رہا ہے، لہٰذا پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کر کے فوری وزیر اعلیٰ کا انتخاب کرایا جائے۔
حمزہ شہباز کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امیر بھٹی نے حکم دیا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری 16 اپریل کو نئے قائد ایوان کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کا عمل مکمل کرائیں۔
تاہم لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف مسلم لیگ (ق) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے درخواستیں دائر کردی تھیں۔
جن پر گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست مزاری کے اجلاس کی صدارت کرنے کے خلاف مسلم لیگ (ق) کی دائر کردہ اپیلیں خارج کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس امیر بھٹی کے فیصلے کو برقرار رکھا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ تھا کہ تمام حقائق کو دیکھنے کے بعد عدالت کو ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ دوست مزاری سیشن کے اجلاس کی صدارت کریں گے۔
Comments are closed.