بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

یوکرین کے آسمانوں کو کنٹرول کرنے کی جنگ

روس یوکرین تنازع: یوکرین کی اپنے آسمان کو کنٹرول کرنے کی جنگ

  • جوناتھن بیل
  • دفاعی امور کے نامہ نگار، ڈونباس، یوکرین

کیپٹن ویسل کراوچک
،تصویر کا کیپشن

کیپٹن ویسل کراوچک

ابھی تک یوکرین کی جنگ میں زیادہ توجہ زمینی جنگ پر دی گئی ہے، لیکن آسمانوں پر غلبہ رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ بی بی سی کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں یوکرین کی ایئر فورس کے ایک اہلکار نے یوکرین کے آسمانوں کو کنٹرول کرنے کی جنگ کے متعلق بتایا۔

کیپٹن ویسل کراوچک 50 دنوں کی مسلسل جنگ کے باجود حیرت انگیز طور پر مسکرا رہے تھے۔ انھوں نے بی بی سی کے ساتھ ویڈیو لنک کے ذریعے ایک نامعلوم مقام پر واقع اپنے ٹھکانے سے بات کی۔

انھیں معلوم ہے کہ آنے والے ہفتوں میں بھی حالات ٹھیک نہیں ہوں گے۔ روس کو اگرچہ کیئو کے کنٹرول میں ناکام ہوئی ہے لیکن مغربی علاقے ڈونباس پر اب ماسکو کی پوری نظر ہے، اور جنگ کے اگلے مرحلے میں اب دنیپرو شہر کی اینٹی ایئرکرافٹ میزائل بریگیڈ ایک اہم کردار ادا کرے گی۔

روسی حملوں سے یوکرین کی فضاؤں کو بچانا پہلے ہی ایک چیلنج بن چکا ہے۔ یوکرین کے ایئر ڈیفنس آفیسر نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے ایک دیو قامت مکھیاں مارنے والے چھکے کو استعمال کیا جائے جس میں بڑے بڑے سوراخ موجود ہوں۔

کیپٹن کراوچک کہتے ہیں کہ ’ہم ساری فضائی حدود کی نگرانی نہیں کر سکتے۔‘

یہ حقیقت کہ وہ یہاں بیٹھ کر ہم سے بات کر رہے ہیں اور یہ اپنے آپ میں قابل ستائش بات ہے۔ خاص طور پر اس حقیقت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہ جنگ کے آغاز میں ہی ’بہت سی فضائی دفاعی تنصیبات مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔‘

یوکرین کی افواج کی طرف سے یہ ایک غیر معمولی عوامی اعتراف ہے کہ جنگ کے ابتدائی مراحل میں انھیں کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔

لیکن ان نقصانات کے باوجود، فضائی دفاع کے لیے کچھ اسلحہ اور تنصیبات جو بچ گئی تھیں، انھیں اب اچھی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔

اوریکس، جو بصری تصدیق (وژول کنفرمیشن) کا استعمال کرتے ہوئے جنگ کے دوران فوجی نقصانات کا سراغ لگا رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یوکرین نے اب تک کم از کم 82 روسی طیاروں کو یا تو تباہ کیا ہے یا نقصان پہنچایا ہے یا اپنے قبضے میں لے لیا ہے، ان طیاروں میں جیٹ، ہیلی کاپٹر اور ڈرونز شامل ہیں۔

خود یوکرین کے 33 کے قریب جہازوں کا نقصان ہوا ہے۔

ان کی ان کامیابیوں نے ان فوجی ماہرین کو پریشان کر دیا ہے جو کہتے تھے کہ روس یوکرین پر تیزی سے برتری حاصل کر لے گا۔

ایک طیارے کا ملبہ

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

ایک طیارے کا ملبہ

روس کو فضا میں کافی زیادہ برتری حاصل ہے، اور اس نے یوکرین سے تین گنا زیادہ جنگی جہاز جنگ کے لیے تعینات کیے ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگن کا کہنا ہے کہ روسی طیارے 250 فوجی مشن لے کر جا چکے ہیں اور روزانہ 30 کے قریب فضائی حملے کرتے ہیں۔ مغربی اہلکار کہتے ہیں کہ روس کو فضائی برتری کے لیے جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔

لیکن اس کے برعکس یوکرین کے پرانے فوجی طیارے، جن میں سے زیادہ تر مگ۔29 لڑاکا طیارہ ہیں، روس کا مقابلہ کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، جو ایک دن میں زیادہ سے زیادہ تقریباً 10 فوجی مشن کر پاتے ہیں۔

یوکرین جانتا ہے کہ فضا میں روس کو برتری حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے متعدد بار مغربی ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ اس کی فضا کو طیاروں کی پرواز کے لیے بند کیا جائے۔

لیکن ڈونباس میں روس کا متوقع حملہ ایک نیا اور زیادہ مشکل چیلنج ہے۔

رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ میں فضائی طاقت کے سینیئر ریسرچ فیلو جسٹن برونک کہتے ہیں کہ روس کو ملک کے باقی حصوں کی نسبت مشرقی علاقے کی فضائی حدود میں زیادہ آزادی حاصل ہونے کا امکان ہے کیونکہ یہ روسی کنٹرولڈ فضائی حدود کے زیادہ قریب ہے۔

یہاں لڑائی جیتنے کے لیے یوکرین کو لمبے، درمیانے اور کم فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کے مجموعے کی ضرورت ہوگی تاکہ انھیں وہ تحفظ فراہم ہو جسے ‘پرتوں والا دفاع’ کہا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

مغربی ممالک کی جانب سے زمین سے فضا میں کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی ایک قابل ذکر تعداد فراہم کی جا رہی ہے۔ امریکہ پہلے ہی اکیلے 2,000 سٹنجرز بھیج چکا ہے۔ برطانیہ نے بھی سٹار سٹریک ہائی ویلوسٹی میزائل فراہم کی ہیں لیکن ان کی تعداد کا علم نہیں ہے۔

لیکن کیپٹن کراوچک کہتے ہیں کہ ان کا ملک ان ہتھیاروں کے لیے شکر گزار ہے جنھیں مین پیڈز کے نام سے جانا جاتا ہے، تاہم وہ کہتے ہیں کہ یہ صرف فرنٹ لائن یعنی محاذ پر ہی موثر ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ مین پیڈز یعنی انسان کے ذریعے لے جایا جانے والا پورٹیبل ایئر ڈیفنس سسٹم کم بلندی پر پرواز کرنے والے ہوائی جہازوں کے خلاف سب سے زیادہ موثر ہیں۔ لیکن روس زیادہ تر طویل فاصلے تک مار کرنے والے کروز میزائل اور زیادہ اونچائی سے بمباری کر رہا ہے۔

کیپٹن کراوچک نے بی بی سی کو بتایا: ‘ہمارے پاس درمیانے اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے فضائی دفاعی نظام کی کمی ہے۔۔۔ یہ ہمارے پاس کافی نہیں ہیں۔’

ڈونباس میں ایک نیا روسی حملہ یوکرین کے محدود فضائی دفاع پر ایک اور سنگین دباؤ ڈالے گی۔

نقشے میں مشرق کی جانب سے روسی حملے کو دکھایا گیا ہے
،تصویر کا کیپشن

نقشے میں مشرق کی جانب سے روسی حملے کو دکھایا گیا ہے

اگرچہ جنگ کا رخ مشرقی یوکرین کی طرف ہے لیکن ملک کے باقی حصوں کو ابھی بھی تحفظ کی ضرورت ہے۔ ہم نے ایسے شواہد دیکھے ہیں کہ حالیہ دنوں میں یوکرین مشرق میں اپنے زیادہ اضافی فضائی دفاعی نظام بھیج رہا ہے۔ لیکن یہ اپنے تمام فضائی دفاعی نظام کو ڈونباس کے علاقے میں دوبارہ تعینات کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

کیپٹن کراوچک کا کہنا ہے کہ ‘ہم یوکرین کے نصف حصے کو مکمل طور پر بغیر تحفظ کے نہیں چھوڑ سکتے۔’

یوکرین کو اپنے فضائی دفاع کو نہ صرف روسی طیاروں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کرنا پڑ رہا ہے بلکہ روسی کروز اور بیلسٹک میزائلوں کو بھی نشانہ بنانے کے لیے استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔ انھیں اس میں کچھ کامیابی مل رہی ہے، لیکن وہ سب کچھ تباہ نہیں کر سکتے۔

کیپٹن کراوچک کا اندازہ ہے کہ ان کی یونٹ روس کے 50 سے 70 فیصد تک زیادہ فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو مار گرا رہی ہے۔ ایک مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ جب روس نے حال ہی میں ڈنپرو کے ارد گرد چھ میزائل فائر کیے تو وہ چار کو روکنے میں کامیاب رہے۔

اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایک قابل ذکر تعداد کو روکنے میں کامیابی مل رہی ہے۔ پینٹاگون کا کہنا ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے روس نے 1550 میزائل داغے ہیں۔

روس کا کہنا ہے کہ وہ ہائپر سونک میزائل بھی استعمال کر رہا ہے۔ یوکرین کے فضائی دفاع ان میزائلوں کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ وہ آواز کی رفتار سے پانچ گنا زیادہ تیزی سے سفر کرتے ہیں۔

لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ اگر جنگ زیادہ طویل عرصے تک جاری رہتی ہے تو قابل قدر حمایت کے بغیر یوکرین کے لیے روسی فضائیہ کے میزائل حملوں سے اپنا دفاع کرنا زیادہ مشکل ہو جائے گا۔

مغربی ممالک میں انٹیلیجنس کے ایک سینیئر اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ یوکرین کی جانب سے ہتھیاروں کی مزید فراہمی کی درخواستوں میں طویل اور درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے فضائی دفاعی سازوسامان سرفہرست ہیں: ‘وہ اس بارے میں بہت مخصوص ہیں کہ انھیں فضائی دفاعی گولہ بارود کی ضرورت ہے۔۔۔ اور انھیں بڑی مقدار میں ان کی ضرورت ہے۔’

اور پھر کیپٹن کراوچک کہتے ہیں کہ ‘ماضی کی جنگوں نے ثابت کیا ہے، جو بھی فضا میں غلبہ رکھتا ہے وہ جنگ جیت جاتا ہے۔’

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.