روسی جنگی جہاز ڈوب گیا، یوکرین کا ڈبونے کا دعویٰ، روس کا الزام سمندر پر
روسی وزارتِ دفاع نے کہا ہے کہ بدھ کو ایک دھماکے سے متاثر ہونے والا روسی جنگی بحری جہاز ڈوب گیا ہے۔
یہ میزائل بردار بحری جہاز عملے کے 510 ارکان پر مشتمل تھا اور روس کی بحری قوت کی علامت تصور کیا جاتا تھا۔ یہ یوکرین کے خلاف روس کے بحری حملوں میں بھی صفِ اول رہا اور بحیرہ اسود میں روسی بحری بیڑے کا پرچم بردار جہاز تھا۔
یوکرین کا کہنا ہے کہ یہ جہاز اس کے میزائلوں کے باعث ڈوبا ہے تاہم ماسکو نے کسی حملے کا ذکر نہیں کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ جہاز آگ لگنے کے باعث ڈوبا ہے۔
روس کا کہنا ہے کہ آگ کی وجہ سے اس پر لدا ہوا دھماکہ خیز مواد پھٹ گیا جس کے بعد پورے عملے کو بحیرہ اسود میں موجود قریبی کشتیوں کے ذریعے محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
پہلے تو روسی وزارتِ دفاع نے کہا تھا کہ یہ جہاز اب بھی تیر رہا ہے تاہم بعد میں انھوں نے اعلان کیا کہ یہ ڈوب گیا ہے۔
یہ جہاز 12 ہزار 490 ٹن وزنی تھا اور دوسری عالمی جنگ کے بعد دورانِ جنگ ڈوبنے والا سب سے بڑا روسی بحری جہاز ہے۔
روسی وزارتِ دفاع نے بتایا ‘جب اس جہاز کو کشتیوں سے کھینچ کر بندرگاہ تک لے جایا جا رہا تھا تو اس نے اپنا توازن کھو دیا کیونکہ آگ لگنے کے باعث اسلحے میں ہونے والے دھماکے سے اس کے ڈھانچے کو نقصان پہنچا تھا۔ بپھرے ہوئے سمندر کے باعث یہ ڈوب گیا۔’
7 اپریل 2022 کو سیٹیلائیٹ سے کھینچی گئی ایک تصویر میں موسکوا کو کرائمیا کے ساحل پر دیکھا جا سکتا ہے
یوکرینی فوجی حکام نے کہا کہ اُنھوں نے موسکوا نامی اس جہاز کو یوکرینی ساختہ نیپچون میزائلوں کے ذریعے نشانہ بنایا تھا۔
یہ میزائل یوکرین نے سنہ 2014 میں جزیرہ نما کرائمیا پر روسی قبضے کے بعد تیار کیا تھا کیونکہ بحیرہ اسود میں یوکرین کے لیے بحری خطرہ بڑھنے لگا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
اس جہاز کے ڈوبنے کو امریکہ کی جانب سے ‘بڑا دھچکا’ قرار دیا گیا ہے تاہم امریکی حکام یہ تصدیق نہیں کر پائے کہ اس کے ڈوبنے کی وجہ یوکرین کے نیپچون میزائل ہی ہیں۔
پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو بتایا کہ ‘یہ واقعتاً ممکن اور قابلِ فہم ہے کہ [یوکرین نے] درحقیقت اسے نیپچون یا کسی اور میزائل سے نشانہ بنایا۔’
ایک سینیئر یوکرینی عہدیدار نے کہا کہ موسکوا پر عملے کے تقریباً 510 اہلکار تھے۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن سنہ 2014 میں موسکوا پر
یوکرین پر روس کے حملے کے پہلے دن یعنی 24 فروری کو موسکوا عالمی طور پر اس وقت نمایاں ہوا جب اس نے بحیرہ اسود میں موجود ایک جزیرے کی حفاظت پر مامور یوکرینی فوجیوں سے ہتھیار ڈالنے کے لیے کہا تھا تاہم اُنھوں نے مبینہ طور پر مغلظات سے بھرے ایک ریڈیو پیغام میں اس حکم کو مسترد کر دیا تھا۔
سوویت دور میں تیار ہونے والا یہ جہاز 80 کی دہائی میں بحریہ میں شامل ہوا اور اسے پہلی بار سمندر میں یوکرین کے جنوبی شہر مائیکولائیف میں اتارا گیا تھا جسے اب روس کی سخت بمباری کا سامنا ہے۔
گائیڈڈ میزائلوں سے لیس اس جہاز کو اس سے پہلے ماسکو نے شام میں تعینات کیا تھا جہاں یہ ملک میں موجود روسی فوجوں کو بحری حفاظت فراہم کرتا تھا۔
یوکرین جنگ کے آغاز سے یہ اب تک ڈوبنے والا دوسرا اہم روسی جہاز ہے۔
برطانیہ کے سابق چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل لارڈ ویسٹ نے کہا کہ بحری جہاز کا نقصان ‘بہت شرمناک’ ہے۔
اُنھوں نے بی بی سی ریڈیو 4 سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘پوتن بحریہ سے محبت کرتے ہیں۔ جب وہ اقتدار میں آئے تھے تو سوویت فورسز میں سب سے پہلے اُنھوں نے بحریہ کی بحالی پر توجہ دی تھی۔ اُن کے دل میں بحریہ کے لیے ہمیشہ سے نرم گوشہ تھا۔’
ڈوبنے والے جنگی جہاز موسکوا کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
گائیڈڈ میزائل سے لیس موسکوا جون 2021 میں استنبول سے گذر رہا ہے
روسی میڈیا کے مطابق موسکوا کروئزر جنگی بحری جہاز کو دراصل یوکرین میں ہی بنایا گیا تھا اور 1980 کی دہائی کے اوائل میں اس نے باقاعدہ طور پر کام شروع کیا تھا۔
اس سے قبل اس میزائل کروئزر کو شام کی جنگ میں استعمال کیا گیا تھا جہاں یہ روسی افواج کو سمندر کی طرف سے تحفظ فراہم کرتا تھا۔
رپورٹ کے مطابق اس میں درجنوں ولکان اینٹی شپ میزائل تھے اور مختلف قسم کا اینٹی سب میرین اور اینٹی ٹورپیڈو اسلحہ موجود رہتا تھا۔
جب سے یوکرین کی جنگ شروع ہوئی ہے موسکوا دوسرا سب سے بڑا بحری جنگی جہاز ہے جو تباہ ہوا ہے۔
موسکوا کا دفاع کا کیسا نظام ہے؟
انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹیجک سٹڈیز میں بحری امور کے ماہر جوناتھن بینتھن نہ بی بی سی کو بتایا کہ سلاوا۔کلاس کروئزر روس کے فعال بحری بیڑے میں تیسرا بڑا جہاز ہے۔
اس کروئزر میں تین درجوں کا فضائی دفاع کا نظام موجود ہے جسے اگر مناسب طریقے سے استعمال کیا جاتا تو نیچون میزائل کے مبینہ حملے سے بچا جا سکتا تھا۔
درمیانی اور کم درجے کے مار کے علاوہ اس میں چھ شارٹ رینج کلوز ان ویپن سسٹمز (سی آئی ڈبلیو ایس) بھی ہیں جنھیں آخری حربے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
بینتھن کہتے ہیں کہ موسکوا کے پاس 360 ڈگری اینٹی ایئر ڈیفنس کوریج ہونی چاہیئے تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سی آئی ڈبلیو ایس ایک منٹ میں پانچ ہزار راؤنڈ چلا سکتا ہے، جو کہ دفاع کے آخری حربے کے طور پر کروئزر کے گرد اینٹی ایئکرافٹ گولیوں کی ایک دیوار بنا دیتا ہے۔
اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ حملہ کروز میزائل سے کیا گیا تو اس سے روسی بحری بیڑے کی جدیدیت پر سوال اٹھتے ہیں کہ کیا اس کے پاس مناسب مقدار میں اسلحہ تھا، کیا اس کے انجینیئرنگ کے کچھ مسائل تھے وغیرہ وغیرہ۔
بحیرہ اسود میں بالادستی
رشیئن میرین سٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کے مائیکل پیٹرسن نے بی بی سی کو بتایا کہ موسکوا جنگی جہاز ’بحیرہ اسود میں روسی بحری طاقت کا نشان تھا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ جب سے جنگ شروع ہوئی ہے موسکوا یوکرین کے لیے ایک دردِ سر تھا لیکن اب اسے تباہ دیکھنے سے ’یوکرینیوں کا حقیقی معنوں میں حوصلہ بڑھا ہو گا۔‘
Comments are closed.