gay hookup apps nz boyne tannum hookup rules dailydot hookup app glasgow hookups galaxy s10 stereo hookup hookup Cragsmoor New York

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

کیا روس پر یوکرین میں نسل کشی کرنے کے الزامات درست ہیں؟

روس یوکرین تنازع: کیا روس پر یوکرین میں نسل کشی کرنے کے الزامات درست ہیں؟

  • جارج رائٹ
  • بی بی سی نیوز

زیلنسکی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یوکرین جنگ میں روسی افواج کے مبینہ مظالم پر جنگی جرائم کے الزامات لگائے جا رہے ہیں جبکہ چند آوازیں ایسی بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ ماسکو اس سے بھی آگے بڑھ چکا ہے۔

یوکرین کے صدر زیلینسکی نے بوچا شہر میں کہا تھا کہ ’جو یہاں دیکھا جا رہا ہے وہ نسل کشی ہے۔‘

واضح رہے کہ بوچا شہر سے روسی افواج کے انخلا کے بعد اب تک تقریباً پانچ سو افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے۔

پولینڈ کے وزیر اعظم میٹوئیسز موراویکی کا کہنا ہے کہ ’بوچا اور یوکرین کے دارالحکومت کیئو کے قریبی قصبوں میں ہونے والی ہلاکتوں کو نسل کشی کہا جائے اور اسی طرح ڈیل کیا جائے۔‘

برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ ’بوچا شہر میں عام شہریوں پر ہونے والے حملے نسل کشی جیسے ہی لگتے ہیں۔‘

اب امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی روسی فوج پر نسل کشی کے اقدامات کا الزام عائد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’روس کے صدر ولادیمیر پوتن یوکرین کی شناخت مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

لیکن بہت سے ممالک ایسے بھی ہے جو اس لفظ (نسل کشی) کا استعمال کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ فرانس کے صدر ایمانوئیل میکخواں نے کہا کہ ’وہ اس لفظ کے استعمال سے گریز کر رہے ہیں‘ اور انھوں نے خبردار کیا کہ بیان بازی کو اتنا بڑھانا نہیں چاہیے۔

تو کیا روس کی فوج پر ایک ایسے جرم کا الزام عائد کرنا درست ہے یا نہیں جسے ’کرائم آف آل کرائمز‘ کہا جا رہا ہے؟

یوکرین کا شہر بچا

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

بوچا شہر سے روسی افواج کے انخلا کے بعد اب تک تقریباً پانچ سو افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے

نسل کشی کیا ہے؟

نسل کشی کو انسانیت کے خلاف بدترین جرم سمجھا جاتا ہے۔ اس کی تعریف کچھ یوں کی جاتی ہے کہ بڑے پیمانے پر ایک مخصوص گروہ کے لوگوں کا قتل عام کرنا۔

مثال کے طور پر دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی جانب سے ساٹھ لاکھ یہودیوں کا قتل عام کیا گیا جسے ’ہولوکاسٹ‘ کا نام دیا گیا۔

اقوام متحدہ کا نسل کشی کنونشن کہتا ہے کہ ’یہ ایک ایسا اقدام ہے جس میں کسی مخصوص زبان بولنے والے، کسی مخصوص نسل سے تعلق رکھنے والے یا کسی مذہبی گروہ کے خلاف درج ذیل اقدامات اٹھائے جائیں:‘

  • اس گروہ کے افراد کو قتل کرنا
  • اس گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچانا
  • جان بوجھ کر کسی گروہ کے لیے ایسے حالات پیدا کرنا جس سے ان کی زندگی مشکل ہو جائے اور اس گروہ کی تباہی کے امکانات پیدا ہو جائیں
  • ایسے اقدامات کرنا جن سے اس مخصوص گروہ میں بچوں کی پیدائش کا عمل روکنا مقصود ہو
  • زبردستی ایک گروہ سے بچوں کو کسی دوسرے گروہ کو منتقل کر دینا

کیا روس یوکرین میں نسل کشی کر رہا ہے؟

اس سوال پر اب تک اتفاق نہیں ہوا۔

امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر یوجین فنکل کا ماننا ہے کہ یوکرین میں نسل کشی ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک بوچا اور دیگر مقامات پر ایسے شواہد ملے ہیں کہ لوگوں کو ان کی شناخت کی وجہ سے قتل کیا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ صرف قتل کرنا نہیں بلکہ ایک مخصوص قومی شناخت کو نشانہ بنانا ہے۔‘

وہ ماسکو سے ہونے والی بیان بازی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نسل کشی کا ارادہ واضح ہے۔ انھوں نے ایک اخباری آرٹیکل کی نشاندہی کی جس کا عنوان ہے کہ ’روس کو یوکرین کے ساتھ کیا کرنا چاہیے؟‘

یہ آرٹیکل گزشتہ ہفتے ہی روس کی سرکاری خبر رساں میڈیا ایجنسی ’ریا‘ پر شائع ہوا۔

یوکرین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس آرٹیکل کو تحریر کرنے والے ٹیموفی سرگئٹسیو نے لکھا کہ ’یوکرین ایک قومی مملکت کے طور پر نہیں رہ سکتا اور اس کا نام بھی باقی نہیں رکھا جا سکتا، یوکرین کے ایلیٹ طبقے کو ختم کرنا ہو گا کیوںکہ اس کو دوبارہ تعلیم دینا نا ممکن ہے۔‘

ان کے اس بیان کی بنیاد وہ بے بنیاد دعویٰ ہے کہ یوکرین دراصل ایک نازی ریاست ہے۔ انھوں نے یہ بھی لکھا کہ ’یوکرین کی عوام کی ایک بڑی تعداد بھی مجرم ہے کیوںکہ وہ خاموش نازی ہیں اور اسی لیے جرم میں برابر کے شریک ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’روس کی فتح کے بعد یوکرین کے لوگوں کو کم از کم ایک نسل تک دوبارہ تعلیم دینی ہو گی تاکہ ان میں سے یوکرین قوم ہونے کا خیال نکالا جا سکے۔‘

پروفیسر فنکل کہتے ہیں کہ حالیہ ہفتوں کے دوران جس طرح کا بیانیہ روس میں اپنایا جا رہا ہے، خصوصاً ایلیٹ طبقے میں، اس سے ’واضح ہوتا ہے کہ ارادہ اور نیت کیا ہے اور وہ صرف ملک کو نہیں بلکہ شناخت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اس جنگ کا مقصد صرف یوکرین کی ریاست نہیں بلکہ ان کا نشانہ یوکرین کے لوگ ہیں، وہ یوکرین کی شناخت ختم کرنا چاہتے ہیں۔‘

جینو سائیڈ واچ کے بانی گریگوری سٹینٹن کہتے ہیں کہ اس چیز کا ثبوت موجود ہے کہ ’روسی فوج درحقیقت یوکرین کے قومی گروپ کو تباہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔‘

’اسی لیے وہ عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ وہ صرف فوجیوں یا لڑنے والوں کو نشانہ نہیں بنا رہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ حملے کی قیادت میں صدر پوتن کے دعوے، کہ یوکرین کے مشرق میں آٹھ برس کی جنگ نسل کشی کی طرح دکھائی دیتی تھی، اسے کچھ سکالرز ’آئینہ دکھانے‘ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

’اکثر نسل کشی کے مجرم دوسری طرف پر الزام عائد کرتے ہیں کہ نشانہ بنائے گئے متاثرین پہلے نسل کشی کا ارادہ رکھتے تھے لیکن درحقیقت مجرم ایسا کرتے ہیں اور اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔‘

یہ بھی پڑھیے

’شواہد ابھی اتنے مضبوط نہیں‘

لیکن نسل کشی کے معاملات پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ روسی مظالم کو اس زمرے میں شامل کرنا ابھی قبل از وقت ہے۔

کنگز کالج لندن میں بین الاقوامی سیاست کے لیکچرار جوناتھن لیڈر مینارڈ کہتے ہیں کہ ’نسل کشی کنونشن کے سخت الفاظ میں شواہد ابھی تک غیر واضح ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ نسل کشی نہیں ہو رہی لیکن یہ ’بہت حد تک واضح‘ ہے کہ جرائم/مظالم ڈھائے جا رہے ہیں تاہم ابھی ان کو نسل کشی کے زمرے میں شامل کرنے کے لیے ابھی وضاحت کی ضرورت ہے۔

’یہ ممکن ہے کہ یہ جرائم نسل کشی ہوں یا مستقبل میں بڑھ کر نسل کشی میں تبدیل ہو جائیں‘ لیکن ان کا کہنا ہے کہ ’شواہد ابھی اتنے مضبوط نہیں۔‘

تاہم وہ روسی صدر کے ’شدید پریشان کن‘ بیانات کی جانب اشارہ کرتے ہیں، جن میں وہ خودمختار یوکرین کے تاریخی وجود سے انکار کرتے ہیں۔

جوناتھن لیڈر کہتے ہیں کہ یہ بیان بازی ایک طرح سے ’نسل کشی پر مبنی سوچ‘ کی عکاسی کرتی ہے جہاں پوتن کا ماننا ہے کہ یوکرین ’کوئی حقیقت نہیں‘ تو انھیں وجود کا بھی کوئی حق نہیں۔

پوتن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

وہ کہتے ہیں کہ ’اس قسم کی گفتگو کی وجہ سے نسل کشی کا خدشہ بڑھ رہا ہے لیکن ہم خود سے یہ فرض نہیں کر سکتے کہ یہ بیان بازی میدان جنگ میں جاری کارروائیوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔‘

یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر فلپ سینڈز کے نزدیک عام شہریوں کو نشانہ بنانے کے شواہد اور ماریوپل شہر کا محاصرہ انسانیت کے خلاف جرم دکھائی دیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق نسل کشی ثابت کرنے کے لیے استغاثہ کو ایک گروہ کو ختم کرنے کے لیے ارادے کو ثابت کرنا ہو گا۔

یہ ارادہ اس براہ راست ثبوت کی بنا پر بھی ثابت کیا جا سکتا ہے کہ مجرم، کسی خاص گروہ کو ختم کرنے کے لیے لوگوں کو مار رہے ہیں لیکن پروفیسر سینڈز کا ماننا ہے کہ یوکرین کے معاملے میں ایسا نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ارادے کا اندازہ برتاؤ کے رجحان سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ اس بارے میں ابھی تک زیادہ معلومات نہیں کہ مبینہ طور یہ مظالم کرنے والے روسیوں کے ارادے کیا ہیں۔‘

پروفیسر سینڈز کہتے ہیں کہ ’کسی گاؤں میں جانا اور کسی خاص قومیت یا مذہب کے بالغ مردوں کی ایک نمایاں تعداد کو بظاہر منظم بنیادوں پر قتل کرنا، نسل کشی کی جانب اشارہ ہو سکتا ہے۔‘

’لیکن اس مرحلے پر ہمارے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا، موجود شواہد ناکافی ہیں۔ میرے خیال میں نسل کشی کے ارادے کے بارے میں تنبیہ جاری کرنا درست ہے کیونکہ یوکرین کے مشرق میں جاری جنگ بیہمانہ ہوتی جارہی ہے۔‘

پروفیسر سینڈز کہتے ہیں کہ نسلی کشی کی اصطلاح کو اکثر قانون کی بجائے سیاسی انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پروفیسر سینڈز کو ’اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ اگر یوکرین کے صدر زیلنسکی اور امریکی صدر جو بائیڈن جنگ کی ہولناکیوں کی جانب توجہ مبذول کرانے کے لیے ممکنہ نسل کشی کی بات کر رہے ہیں۔‘

رٹجرز یونیورسٹی میں سینٹر فار دا سٹڈی آف جینو سائیڈ اینڈ ہیومن رائٹس کے ڈائریکٹر ایلکس ہنٹن کہتے ہیں کہ ’ایک ہفتے میں بہت کچھ تبدیل ہوا‘ اور ’ممکن ہے‘ کہ روس یوکرین میں نسل کشی کر رہا ہو۔ وہ اموات اور ریپ کی جانب ممکنہ ثبوت کے طور پر اشارہ کرتے ہیں۔

ایلکس ہنٹن کہتے ہیں کہ ’صدر پوتن نسل کشی پر مبنی بیان بازی کر رہے ہیں لیکن اسے نسل کشی کے ارادے کو ثابت کرنے کے لیے میدان جنگ میں ہونے والے مظالم سے واضح طور پر جوڑنے کی ضرورت ہو گی۔‘

’اگر یوکرینی حکومت کی اطلاعات تصدیق شدہ ہیں کہ یوکرینی بچوں کو ان کے والدین سے جدا کیا جا رہا ہے اور روسی خاندان انھیں گود لے رہے ہیں تو یہ نسل کشی کا عمل ہو گا۔

نسل کشی سے ہٹ کر ایلکس ہنٹن دیکھتے ہیں کہ روسی افواج یوکرین میں واضح طور پر جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہیں۔

’ہم جانتے ہیں کہ جنگی جرائم ہو رہے ہیں جن کے خلاف اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ ایسا معاملہ نہیں ہونا چاہیے جہاں ہمیں لگے کہ مزید کچھ کرنے کے لیے ان مظالم یا جرائم کا نسل کش ہونا ضروری ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.