انڈیا نے امریکہ کو یوکرین تنازع پر اپنا مؤقف سمجھنے پر کیسے مجبور کیا؟
- وکاس پانڈے
- بی بی سی نیوز، نئی دہلی
انڈیا اور امریکہ کے درمیان ورچوائل اجلاس میں بات چیت
یوکرین کے معاملے پر پائے جانے والے اختلافات کے تناظر میں دو روز قبل ہی انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکی صدر جو بائیڈن کی ایک ورچوئل اجلاس میں بات چیت ہوئی۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ اس بات چیت سے صرف چند دن قبل جو بائیڈن نے یوکرین کے مسئلے پر انڈیا کی طرف سے اپنائے جانے والے مؤقف کو ’ہچکچاہٹ‘ کا شکار قرار دیا تھا اور ایک امریکی اہلکار نے خبردار کیا تھا کہ ماسکو کے ساتھ کھلی دفاعی صف بندی یا تعاون کے طویل المدتی اور معنی خیز نتائج ہوں گے۔
تاہم انڈیا امریکہ کی طرف سے شدید دباؤ کے باوجود اپنے مؤقف پر سختی سے قائم ہے اور دہلی کی جانب سے مسلسل جنگ کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔
انڈیا نے روس پر براہِ راست تنقید سے گریز کرتے ہوئے قدرِ سخت الفاظ میں دوسرے ملکوں کی خودمختاری اور سلامتی کی پاسداری اور احترام پر زور دیا ہے۔
اس پسِ منظر میں وائٹ ہاؤس کی طرف سے کواڈ لیڈرز سمٹ کا انعقاد جو پہلے سے شیڈول کا حصہ نہیں تھا عالمی جغرافیائی سیاست کے لیے بہت معنی خیز ثابت ہوا۔
اس کے بعد امریکہ اور انڈیا کے درمیان پہلے سے طہ شدہ 2+2 کے نام سے سالانہ میٹنگ کا انعقاد ہونا تھا جس میں انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے اپنے امریکی ہم منصب انتھونی بلنکن اور لائڈ آسٹن سے ملاقات ہوئی۔
دونوں جانب سے جو بیانات سامنے آئے، ان سے صاف ظاہر ہے کہ یوکرین کے معاملے پر ایک دوسرے کے مؤقف کو سمجھنے کی خواہش پائی جاتی ہے۔
ڈائریکٹر برائے کنٹرول رسک کنسلٹینسی فار جنوبی ایشیا پریتوش راؤ کے مطابق یہ ملاقات دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے بہت حساس مرحلے پر ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ دو طرفہ تعلقات کو قائم رکھنے کا اعلیٰ ترین سطح پر واضح اعادہ ہے باوجود اس کے کہ یوکرین کے معاملے پر دونوں ملکوں کے درمیان تعلاقات میں تناؤ کے حوالے سے ذرائع ابلاغ پر مسلسل قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔
’یہ واضح پیغام ہے کہ روس سے تعلقات پر دونوں ملکوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں اور ان اختلافات کو ختم بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کا اثر انڈو پیسیفک خطے میں وسیع تر تعاون پر پڑنے نہیں دیا جائے گا۔‘
جہاں نریندر مودی اور ان کے وزرا نے یوکرین کے معاملے پر غیر وابستگی کی پالیسی اپنائے رکھنے پر زور دیا، وہیں جو بائیڈن اور ان کے وزرا بظاہر دہلی کے مؤقف کو سمجھنے پر تیار نظر آئے۔
یہ ماضی میں واشنگٹن سے جاری ہونے والے بیانات کے بالکل برعکس تھا۔
روس کے صدر یوکرین میں فوجی اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں
انٹونی بلنکن نے کہا کہ ’انڈیا نے اس مشکل صورت حال میں کیا کرنا ہے اس کا فیصلہ اس نے خود کرنا ہے۔‘
انھوں نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ ’اقوام متحدہ میں انڈیا نے بڑے سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے یوکرین کے علاقے بوچا میں شہریوں کے قتل عام کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔‘
دوستانہ انداز اپناتے ہوئے بلنکن نے کہا کہ ’انڈیا اور روس کے تعلقات کئی دہائیوں میں پروان چڑھے ہیں جس دور میں امریکہ انڈیا سے تعلقات بڑھانے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ‘وقت بدل گیا ہے’ اور امریکہ اس بات پر تیار ہے کہ وہ انڈیا کے لیے تجارت، ٹیکنالوجی، تعلیم اور سیکیورٹی کے علاوہ تمام شعبوں میں ایک پسندیدہ شراکت دار ہو۔
سابق انڈین سفارت کار انیل ترگونیات نے کہا کہ ’اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ وسیع تر عالمی جغرافیائی سیاست میں انڈیا کے موقف کو سمجھ گیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اگر باہمی تعلقات خراب ہوتے ہیں تو دونوں ملک بہت کچھ کھو دیں گے۔ ان کے تعلقات بہت وسیع ہیں اور ان ملاقاتوں سے اس بات کا اعادہ ہوا ہے۔
یوکرین کے سوا دونوں اطراف سے ‘انڈو پیسفک’ میں باہمی تعاون کے عزم کا اعادہ کیا اور تجارت، دفاع اور سیکیورٹی کے شعبے میں تعاون کو جاری رکھنے کی بات کی۔
امریکہ نے کہا کہ وہ انڈیا کو اس خطے میں سلامتی کا اولین ضامن سمجھتا ہے۔
انٹونی بلکن نے کہا کہ ‘چین اس خطے اور بین الاقوامی نظام کو بدلنے اپنے مفادات کے مطابق بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔’
چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کا کم کرنے کے لیے امریکہ اور انڈیا اس بات پر متفق ہیں کہ وہ زیادہ موثر کردار ادا کریں۔
انڈیا کے چین کے ساتھ طویل متنازع سرحد ہے۔ ان کے فوجیوں کے درمیان سنہ 2020 میں گلوان وادی میں تصادم ہوا تھا جس میں انڈیا کے 20 فوجی مارے گئے تھے۔
چین نے بعد میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ اس کے بھی چار فوجی اس جھڑپ میں مارے گئے تھے۔
انڈیا کے وزیر خارجہ جے شنکر نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ‘کواڈ’ یا چار ملکی اتحاد جس میں امریکہ کے علاوہ جاپان، آسٹریلیا اور انڈیا شامل ہیں وہ بین الاقوامی بہتری کے لیے ایک موثر اتحاد بن کر ابھارا ہے اور اس سے پورے انڈو پیسفک خطے کی بہتری ہوئی ہے۔
پریتوش راؤ انڈیا کی طرف سے چار ملکی اتحاد پر اعتماد کا اظہار بہت اہم ہے۔
یوکرین کے کئی شہر ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں
انڈیا کے مشکل وقت میں دوستی نبہانے والے پرانے دوست ملک روس نے امریکہ کی طرف سے بنائے گئے چار ملکی اتحاد پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ اسے چین کو نشانہ بنانے کے لیے بنایا گیا ہے۔
ماسکو اور بیجنگ کے درمیان تعلقات میں بہت قربت آئی ہے اور دونوں ملکوں نے مشترکہ طور پر مغرب کی کے خلاف موقف اختیار کیا ہے۔
اس سیاق و سباق میں راؤ کا کہنا ہے کہ انڈیا کے وزیر خارجہ کی طرف سے سرے عام اور کھلے بندوں چار ملکی اتحاد کی توثیق بہت اہم ہے اور اس کی گونج امریکہ میں سنائی دے گی۔
دفاعی تعلقات
واشنگٹن نے یہ بھی تسلیم کیا کہ روس انڈیا کو ہتھیار فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، جو اس کے اسلحے کی درآمدات کا 50 فیصد سے زیادہ ہے۔
اس کے برعکس، امریکہ روس کے بعد 2011 اور 2015 کے درمیان انڈیا کا دوسرا سب سے بڑا اسلحہ فروش تھا، لیکن 2016 اور 2021 کے درمیان فرانس اور اسرائیل سے پیچھے رہ گیا۔
سابق انڈین سفارت کار جے این مسرا نے کہا کہ انڈیا نے روس سے درآمدات جاری رکھی ہیں کیونکہ اسے کچھ شعبوں میں بہتر اور سستے ہتھیار اور ٹیکنالوجی منتقلی کی سہولت بھی ملتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ‘امریکہ کو ٹیکنالوجی کی منتقلی کا یقین دلانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ انڈیا کی دفاعی درآمدات کا ایک بڑا حصہ حاصل کر سکے۔‘
وزیر دفاع سنگھ نے وزیراعظم مودی کی ’میک ان انڈیا‘ مہم کے بارے میں بات کی اور امریکی دفاعی کمپنیوں کو انڈیا میں اسلحے کی صنعتیں قائم کرنے کی دعوت دی۔
لیکن اس بارے میں کوئی بڑا اعلان نہیں ہوا ہے۔ تاہم، دونوں ممالک کی جانب سے مشترکہ طور پر ہوائی جہاز سے چلنے والے بغیر پائلٹ کے ڈرون تیار کرنے کے بارے میں ایک اہم اقدام کا اعلان کیا گیا۔
یوکرین نے روس پر شہری علاقوں میں بے دریغ بمباری کرنے کا الزام لگایا ہے
مسٹر مسرا نے مزید کہا کہ ‘انڈیا کی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے اور ماسکو پر اس کا انحصار کم کرنے میں مدد کرنے کے لیے اس طرح کے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔’
لیکن انڈیا کی طرف سے روس کے S-400 میزائل دفاعی نظام کے حصول کا اہم مسئلہ ابھی تک حل طلب ہے۔
یہ خریداری ‘کاؤنٹرنگ امریکن ایڈورسریز تھرو سینکشن ایکٹ’ (کاسٹا) کے تحت کی گئی ہے، جو 2017 میں روس، ایران اور شمالی کوریا کو اقتصادی اور سیاسی پابندیوں کا نشانہ بنانے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا۔
یہ کسی بھی ملک کو ان ممالک کے ساتھ دفاعی معاہدوں پر دستخط کرنے سے بھی منع کرتا ہے۔ مسٹر بلنکن نے کہا کہ ‘امریکہ نے کاسٹا کے قانون کے تحت ممکنہ پابندیوں یا ممکنہ چھوٹ کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔’
روسی دفاعی نظام ایس فور ہنڈرڈ کے خریداروں میں انڈیا بھی شامل ہے
انڈیا کو ڈھکے چھپے الفاظ میں تجویز بھی دی گئی جب مسٹر بلنکن نے کہا کہ امریکہ دوسرے ملکوں سے کہہ رہا ہے کہ وہ روسی ہتھیاروں کے نظام کے لیے بڑے نئے لین دین سے گریز کریں۔
مسٹر تریگنیت کا کہنا ہے کہ S-400 پر ابہام ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ اپنے آپشنز کو کھلا رکھنا چاہتا ہے لیکن وہ اس وقت اس میں کوئی خلل نہیں ڈالنا چاہتا۔
یہ واضح ہے کہ امریکہ کے پاس ماسکو کو انڈیا کے سب سے بڑے دفاعی سپلائر کے طور پر تبدیل کرنے کے لیے اور بھی بہت کچھ ہے۔
یہ بھی پڑھیے
دریں اثنا، مسٹر بلنکن نے انڈیا کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کے بارے میں بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ انڈیا میں ہونے والی کچھ حالیہ واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہے جن میں سرکاری اہلکاروں، پولیس اور جیل کے حکام کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات شامل ہیں۔
انڈیا کے وزرا نے اس پر کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی سابق صدر اوباما سمیت ڈیموکریٹس نے اس طرح کے مسائل کو پارلیمنٹ میں اٹھایا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ اس بیان سے انڈیا کے لوگوں کو تکلیف ہوئی ہو لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ یہ مسئلہ تعلقات میں بڑا مسئلہ بن جائے۔
دو جمع دو مذاکرات میں دونوں ملکوں کے وزراء خارجہ اور دفاع شامل ہوتے ہیں
توانائی اور تجارت
انڈین کمپنیاں روسی فرمز کی طرف سے تیل کی قیمتوں میں رعایتی قیمتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے پابندیوں سے بچنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
جب یہ سوال مسٹر جے شنکر سے کیا گیا تو انھوں نے انکار کیا کہ انڈیا روس سے تیل کی درآمدات بڑھا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اعداد و شمار کو اگر دیکھا جائے تو اس مہینے روس سے انڈیا نے جو تیل خریدا ہے اتنا تیل شاید یورپ نے روس سے صرف ایک سہ پہر میں حاصل کیا ہو جس کے بارے میں امریکہ کو سوچنا چاہیے۔
امریکہ نے انڈیا کو خام تیل اور صاف کردہ پیٹرولیم مصنوعات کی برآمد میں مسلسل اضافہ کیا ہے، جو کہ انڈیا اور امریکہ کے درمیان باہمی تجارت کا 15 فیصد بنتا ہے، اور سنہ 2021 میں اس کا حجم 113 ارب ڈالر تھا۔
دونوں ممالک کا خیال ہے کہ مستقبل میں دو طرفہ تجارت کو 500 ارب ڈالر تک لے جانے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔
فریقین نے تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے متعدد اقدامات کا اعلان کیا، جس میں امریکہ انڈیا کمرشل ڈائیلاگ اور امریکہ انڈیا سی ای او فورم کو دوبارہ شروع کرنا شامل ہے۔
Comments are closed.