بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

انڈین عوام کے غصے کی وجہ بننے والی امریکی پروفیسر کون ہیں؟

پروفیسر ایمی ویکس: انڈین عوام کے غصے کی وجہ بننے والی امریکی پروفیسر کون ہیں؟

ایمی ویکس

،تصویر کا ذریعہLAW.UPENN.EDU

،تصویر کا کیپشن

ایمی ویکس پہلے بھی ایسے بیان دے چکی ہیں

امریکہ کی پنسلوینیا یونیورسٹی کی ایک پروفیسر نے حال ہی میں ایک ٹی وی انٹرویو میں انڈیا کے بارے میں کچھ ایسے تبصرے کیے ہیں جس پر انڈیا میں عوام شدید غصے میں ہیں۔

پروفیسر ایمی ویکس نے حال ہی میں ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران انڈیا کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے۔ اس کے ساتھ انہوں نے جنوبی ایشیا سے امریکہ جانے والے لوگوں سے لیکر برہمن خواتین تک کے لیے قابل اعتراض الفاظ استعمال کیے ہیں۔

اس انٹرویو کے کلپس سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں اور امریکہ میں آباد انڈین نژاد لوگ ان کے بیان کی مذمت کر رہے ہیں۔

ایمی ویکس نے کیا کہا

ایمی ویکس نے 8 اپریل کو امریکی ٹی وی چینل فاکس نیوز کے اینکر ٹکر کارلسن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انڈین تارکین وطن کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

انہوں نے اس انٹرویو میں کہا تھا کہ ‘مغربی لوگوں کی بہترین کامیابیوں اور زبردست خدمات کی وجہ سے غیر مغربی لوگوں میں ان کے خلاف شدید ناراضگی اور شرمندگی کا احساس ہے’۔

ایشیا، جنوبی ایشیا اور انڈین لوگوں پر طنز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’انہیں یہاں اعلیٰ تعلیم اور بہترین مواقع ملتے ہیں لیکن بدلے میں وہ امریکہ پر تنقید کرتے ہیں۔‘

پروفیسر ایمی ویکس نے کہا ‘یہ عجیب بات ہے کہ ایشیائی، جنوبی ایشیائی اور انڈین ڈاکٹر پنسلوینیا کی میڈیکل سروس میں کام کرتے ہیں۔ میں وہاں کے لوگوں کو جانتی ہوں اور میں جانتی ہوں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ وہ نسل پرستی کے خلاف مورچہ سنبھالے ہوئِے ہیں۔ وہ امریکہ پر الزام لگاتے رہتے ہیں جیسے کہ امریکہ ایک بدکردار نسل پرست ملک ہے’۔

اس کے بعد انہوں نے انڈین برہمن خواتین پر بھی تبصرہ کرتے ہوئے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا ‘انڈیا سے آنے والی خواتین کامیابی کی سیڑھی چڑھتی ہیں۔ وہ بہترین تعلیم حاصل کرتی ہیں، ہم انہیں بہترین مواقع فراہم کرتے ہیں اور وہ پلٹ کر ہم پر ہی الزام لگاتی ہیں کہ ہم نسل پرست ہیں، ایک بُرا ملک ہیں، جس میں اصلاحات کی ضرورت ہے، طبی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ انہیں سکھایا گیا ہے کہ وہ دوسروں سے بہتر ہیں کیونکہ وہ برہمن یا اشرافیہ نسل سے ہیں۔’

یہ کہنے کے بعد انہوں نے انڈیا کے حوالے سے ایک ایسا لفظ استعمال کیا جسے گالی سمجھا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہنگامہ

ایمی ویکس کا یہ بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔

جہاں ایک طرف بہت سے لوگ ان پر تنقید کر رہے ہیں وہیں دوسری طرف انڈیا کے مظلوم اور پسماندہ طبقوں کی آواز بننے والے ویکس کے اس بیان سے بھی اتفاق کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں دلت سیاست پر لکھنے والے ایک سینئر صحافی دلیپ منڈل نے لکھا ‘انڈیا میں استحصال کرنے والی اعلیٰ ذاتیں بڑی چالاکی سے امریکہ میں مظلوم بن جاتی ہیں اور اپنے آپ کو مظلوم کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ سیاہ فام، مقامی امریکی لوگوں اور ایک حد تک ہسپانویوں نے اپنے حقوق کی جنگ لڑی ہے۔ اونچی ذات کے ہندو ایسے عہدوں پر قبضہ کر رہے ہیں جو واقعی سیاہ فام لوگوں، ہسپانویوں یا مقامی امریکیوں کو ملنے چاہیے تھے’۔

وہیں مصنف اور صحافی سدانند دھومے نے اس معاملے پر ایک مختلف ٹویٹ کیا ہے۔

انہوں نے لکھا ‘کچھ انڈین تارکین وطن ایمی ویکس کی تشریح پر پورا اترتے ہیں جو امریکہ پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ ان سے یہ پوچھنا جائز ہے کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ملک اتنا برا ہے تو وہ یہاں کیوں آئے؟ لیکن میرے تجربے میں ایسے لوگ بہت کم ہیں۔ زیادہ تر لوگ، امریکہ نے انہیں جو مواقع فراہم کیے ہیں اس کے لیے شکر گزار ہیں’

یونیورسٹی آف پنسلوینیا کے پروفیسر اسیم شکلا نے ٹویٹ کیا کہ ‘ایمی ویکس، ہم میں سے کچھ انڈین نژاد امریکی ڈاکٹر امریکہ کے نظامِ صحت کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ایسی صورت حال میں ہمیں بھی تنقید کرنے کا حق ہے’۔

پنسلوینیا کے محکمہ لاء کے لیکچرر نیل مکھیجا نے بھی ایمی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ٹویٹ کی۔

انہوں نے کہا ہے کہ ‘پروفیسر ایمی میڈیسن میں براؤن چہرے دیکھتی ہیں اور ان سے پوچھنا چاہتی ہیں کہ وہ یہاں کیوں آئے ہیں جبکہ ان میں سے زیادہ تر امریکہ میں پیدا ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنی پوری زندگی امریکہ میں گزاری ہے۔ اگر وہ ہسپتال میں داخل ہوئیں تو شاید یہی لوگ ان کا علاج بھی کریں گے ‘۔

ایمی ویکس کون ہیں؟

ایمی ویکس ایک معروف وکیل ہیں جو یونیورسٹی آف پنسلوینیا کے شعبہ قانون میں بطور پروفیسر کام کر رہی ہیں۔

نیویارک کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہونے والی ایمی ویکس کے والدین مشرقی یورپ سے امریکہ منتقل ہوئے تھے۔ یہ بات انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں بتائی تھی۔

اس کے ساتھ ہی ایمی ویکس نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ان کے والد ابتدائی دنوں میں کپڑے کی فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ اور ان کی والدہ ٹیچر تھیں۔

اور اس انٹرویو میں انہوں نے خود کو ایک محنت کش طبقے کی لڑکی کے طور پر پیش کیا تھا۔

ایمی ویکس نے امریکہ کی نامور ییل یونیورسٹی سے بائیو فزکس اور بائیو کیمسٹری میں تعلیم حاصل کی اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے فلسفہ بھی پڑھا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ہارورڈ لاء سکول سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔

امریکہ کی بش اور ریگن انتظامیہ کے ساتھ کام کرنے والی ایمی ویکس اپنے متنازع بیانات کی وجہ سے پہلے بھی سرخیوں میں رہ چکی ہیں۔

اس سے قبل وہ امریکہ میں ایشیائی لوگوں کی موجودگی اور ایشیائی تارکین وطن کے بارے میں دیے گئے متنازعہ بیان کے حوالے سے زیرِ بحث رہ چکی ہیں۔

اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ اگر امریکہ آنے والے ایشیائی تارکین وطن کی تعداد کم ہوتی ہے تو یہ امریکہ کے لیے بہتر ہوگا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.