بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

کیا عمران خان کا اپنے خلاف سازش سے متعلق بیانیہ عوام کو سڑکوں پر لا رہا ہے؟

عمران خان کے حق میں ملک گیر احتجاج میں امریکہ اور فوج کے خلاف غصہ

  • ریاض سہیل اور سکندر کرمانی
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام

عمران خان کے حمایتی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

کراچی میں عمران خان کے حق میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر نکلی

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی قیادت میں جب حکومت کے خلاف کراچی سے مارچ کا آغاز کیا گیا تو تحریک انصاف نے گھوٹکی سے حقوق سندھ مارچ کا اعلان کیا جو تقریباً ایک ماہ قبل 6 مارچ کو کراچی پہنچا، لیکن یہاں یہ کوئی بڑا سیاسی شو کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ لیکن اتوار کو صورتحال مختلف نظر آئی جب لوگوں کی ایک بڑی تعداد احتجاج میں شرکت کے لیے سڑکوں پر نکلی۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے جمعے کو بطور وزیرِ اعظم قوم سے آخری خطاب میں اتوار کے دن احتجاج کی اپیل کی تھی۔

کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف نعرے لگائے گئے اور ایک ویڈیو کے مطابق پارٹی کا جھنڈہ بھی جلایا گیا اور یہ نعرے لگائے گئے کہ ’مہاجروں کا ووٹ فروخت کیا گیا ہے‘۔

کیا عوام کا یہ ردعمل متوقع تھا؟

عمران خان کو وزیراعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے خلاف پاکستان کے کئی شہروں میں دسیوں ہزار افراد سڑکوں پر نکلے۔ ملک میں ہنگامہ خیز سیاسی ڈرامہ فی الحال ختم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کی حمایت میں سڑکوں پر نکلنے والے لوگ ان کے اقتدار کے خاتمے کا ذمہ دار کس کو سمجھتے ہیں؟

اسلام آباد میں مظاہرے میں شریک ایک خاتون نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ‘میرے خیال میں عمران خان وہ واحد شخص بچا ہے جو ایماندار ہے۔ ہم صرف اسی پر اعتماد کر سکتے ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ یہ غدار ہمارے حکمران ہوں۔’

لاہور اور کراچی میں بالخصوص عوامی رد عمل کی کیا توقع تھی، صحافیوں نے عمران خان سے پیر کو اسمبلی میں آمد پر بار بار یہ سوال کیا اور انھوں نے آدھی سطر میں جواب دیا کہ ’عزت دینے والا اللہ ہے۔‘

تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اور سابق وفاقی وزیر جہاز رانی علی حیدر زیدی کا کہنا ہے کہ انھیں اس عوامی رد عمل کی توقع تھی کیونکہ عمران خان نے ’قوم کو اٹھا دیا اور جس طرح سے یہ باہر نکلی ہے یہ امپورٹیڈ حکومت نہیں چلے گی۔‘

عمران خان کے حمایتی

سیاسی تجزیہ کار عوامی رد عمل پر منقسم نظر آتے ہیں۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹوڈولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی یعنی پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ انھیں توقع نہیں تھی کہ اتنا بڑا رد عمل ہوگا۔

’یہ توقع سے زیادہ ہجوم تھا اور کئی شہروں میں تو قیادت بھی موجود نہیں تھی پھر بھی لوگوں نے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔‘

تجزیہ کار سہیل وڑائچ بھی احمد بلال کے اس موقف کی تائید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ فوری ردعمل ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحریک انصاف ایک بہت بڑی سیاسی قوت ہے اور یہ مقبول سیاسی قوت کے طور پر ابھی موجود ہے۔‘

ان کے مطابق ’پنجاب میں تحریک انصاف اربن مڈل کلاس میں نظر آ رہی ہے۔ ہمارا اندازہ یہ تھا کہ پنجاب کے جو پچھلے ضمنی انتخابات ہوئے اس میں اربن مڈل کلاس کا رخ شہروں میں مسلم لیگ ن کی طرف تھا جبکہ دیہات میں تحریک انصاف جیت رہی تھی لیکن اتوار کو جو احتجاج ہوا ہے وہ اربن مڈل کلاس نے کیا ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ متوسط کلاس دو حصوں میں تقسیم ہے یعنی مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان۔‘

عمران خان کے حمایتی

تجزیہ کار مظہر عباس کو عوامی ردعمل کی توقع تھی۔ بقول ان کے ’جب بھی حکومت کو اس طرح سے ہٹایا جاتا ہے تو اس پر ایک فطری رد عمل نظر آتا ہے اور اس جماعت کی عوامی حمایت تو رہتی ہے اور آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے اور سب سے زیادہ مضبوط سوشل میڈیا ونگ بھی تحریک انصاف کا رہا ہے، اس نے بھی لوگوں کو متحرک کیا ہے۔‘

ان کے مطابق ’عمران خان کا ایک خاص ووٹ بینک ہے، ایسے لوگ بھی ہیں جو سنہ 2013 سے قبل کبھی پولنگ سٹیشن نہیں گئے تھے۔ وہ خاندان، وہ نوجوان لڑکے لڑکیاں جو کبھی سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے، وہ عمران خان کی وجہ سے متوجہ ہوئے۔ ہم نے کل شہروں میں دیکھا شرکا میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو اس ووٹ بینک سے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔‘

عمران خان کا بیانیہ کتنا مقبول ہے؟

عمران خان کے حمایتی

عمران خان کا الزام ہے کہ ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد امریکی سازش کا حصہ ہے اور انھیں خارجہ پالیسی کے فیصلوں کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے جس میں ماسکو کا دورہ کرنے کا فیصلہ بھی شامل ہے جس نے ان کے بقول مغربی اہلکاروں کو ناراض کر دیا تھا۔

دوسری جانب اپوزیشن کے رہنما ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہیں اور عمران خان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ اقتدار میں رہنے کے لیے ’عوام کو بے وقوف‘ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ وہ پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کھو چکے ہیں۔

بعض تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان جان بوجھ کر معمول کے ایک سفارتی مراسلے (کیبل) کے الفاظ کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔ یہ مراسلہ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر نے بھیجا تھا اطلاعات کے مطابق جس میں اس مبینہ وارننگ کا ذکر کیا گیا تھا کہ اگر عمران خان اقتدار میں رہے تو پاکستان کو اس کے ‘نتائج’ بھگتنا پڑیں گے۔

تاہم یہ بیانیہ عمران خان کے حمایتوں میں مقبول ہو رہا ہے جن میں سے بہت سے لوگ مظاہروں کے دوران نعرے لگا رہے تھے کہ ‘امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے۔’

اسلام آباد کے ایک پارک میں ہونے والی ایک ریلی میں پورے پورے خاندان اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے شریک ہوئے۔ ان میں بڑی تعداد میں نوجوان مرد اور خواتین تھے۔

مظاہرین میں سے ایک نے کہا ‘ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم غلاموں کی زندگی نہیں گزاریں گے۔’

کراچی میں ایک بزرگ کے ہاتھوں میں پلے کارڈ تھا جس پر تحریر تھا کہ ’بھٹو کو میں نے کھویا، عمران کو تم نہ کھونا۔‘

سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ پر شہباز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کی تصویر کے ساتھ تحریر تھا کہ ’امریکہ کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ عمران خان کو خرید لیتے اس لیے انھوں نے کباڑ لے لیا‘۔ یاد رہے کہ امریکی حکومت نے واضح کیا تھا کہ پاکستان میں تبدیلی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

سینئر تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہمیشہ سے امریکی مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔ ’جیسے سنہ 2002 میں ہم نے دیکھا کہ مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کو اتنی کامیابی ہوئی کہ اس نے خیبر پختونخواہ میں حکومت بنائی۔ اس سے قبل کبھی مذہبی جماعتوں کو اس طرح سے پذیرائی نہیں ملی تھی۔‘

یہ بھی پڑھیئے

مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ’سنہ 1977 میں گو کہ مارشل لا لگ گیا تھا اس کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو کا بیانیہ لوگوں میں بڑا مقبول تھا اور جب نوے روز میں الیکشن کا اعلان کیا گیا تو پیپلز پارٹی کی کامیابی کی پیش گوئی کر لی گئی تھی۔ بھٹو نے بھی کہا تھا کہ ان کی حکومت کے خلاف سازش کی جا رہی ہے جو اتحاد بنا ہے وہ بھی اس سازش کا حصہ ہے۔ عمران خان بھی اس بیانیے کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔‘

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ عمران خان کے بیانیے میں عالمی اور مقامی دونوں ہی عنصر موجود ہیں کہ ’عمران نے پاکستان کے لیے خود داری دکھائی ہے اور پاکستان کے لیے کھڑا ہوا ہے‘۔

عمران خان کے حمایتی

اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے لیے چلینج

مظاہروں میں پاکستان کی فوج کے خلاف بھی غصہ نظر آ رہا ہے۔ عمران کی حمایت کرنے والے زیادہ تر افراد سیاست میں فوج کے کردار کی تعریف کرتے رہے ہیں اس لیے یہ ایک طرح کا یو ٹرن ہے کہ وہ اب فوج کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ایک عام تاثر یہی ہے کہ سنہ 2018 میں عمران خان کو وزیراعظم بنوانے میں فوج نے مدد کی تھی۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں لوگوں کو فوج اور اس کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف نعرے لگاتے دیکھا جا سکتا ہے جو پاکستان میں کم ہی ہوتا ہے۔

پاکستان میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان اور فوج کے درمیان اختلافات گزشتہ برس شروع ہوئے جس کے نتیجے میں فوج نے عمران خان کی مخلوط حکومت کی حمایت کرنا بند کر دی تھی۔

عمران خان کے مخالف سیاستدان فوج کے کردار کو ‘نیوٹرل’ کہتے ہیں اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے میں اگر براہ راست فوج ملوث نہیں بھی ہے تو ان کے اقتدار کے خاتمے پر مطمئن ہے۔

عمران خان کے قریبی ساتھی شہباز گِل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت فوج کی عزت کرتی ہے اور فوج سے محبت کرتی ہے۔

عمران خان کے کئی مخالفین جو انٹیلیجنس سروسز کے ہاتھوں کئی مرتبہ ہراس کا نشانہ بنیں ہیں، وہ عمران خان کے حامیوں کی جانب سے فوج کی مخالفت پر حیران ہیں۔

کچھ لوگ اسے منافقت سے تعبیر کر رہے ہیں جبکہ بعض افراد کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے کارکنوں کو بھی سویلین بالادستی پر یقین ہوا ہے تو یہ مثبت پیش رفت ہے۔

سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ایک ویڈیو میں مظاہرے میں ایک شخص کے پوسٹر پر لکھا ہے کہ ‘تم کتنی ویگو لا سکتے ہو۔’ ویگو گاڑی انٹیلیجنس سروسز کے اہلکاروں کے استعمال کے حوالے سے بدنام ہے جس میں سیاسی کارکنوں کو پکڑ کر لے جایا جاتا ہے۔

پاکستان فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ حالیہ صورتحال سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے تاہم تحریک انصاف کے احتجاجوں میں نہ صرف نعرے لگائے گئے بلکہ فوجی سربراہ قمر جاوید باجوہ کے خلاف پلے کارڈ بھی موجود تھے اور سوشل میڈیا پر بھی مہم جاری ہے۔

سابق وفاقی وزیر علی حیدر زیدی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے افواج پاکستان کے خلاف نہ کبھی بات کی ہے نہ کریں گے اور نہ کسی کو کرنے دیں گے۔

’اگر کوئی سپورٹر ہے یا پاکستان کے عوام نکلے ہیں تو یہ ان کے اپنے جذبات کا اظہار ہے۔ جس طرح سے سوشل میڈیا پر نام لے کر بات کی جارہی ہے یہ بالکل ٹھیک نہیں ہے۔

’ہماری افواج نے ملک کو جوڑے رکھا ہے، ہماری سرحدوں کی محافظ ہے۔ ایک پروفیشنل فوج ہے۔ ہم اس کے خلاف مہم کو پروموٹ کرتے ہیں نہ سپورٹ کرتے ہیں۔ جو لوگ یہ کر رہے ہیں وہ ایسا نہ کریں۔‘

کیا حکومتی جماعت کے فارغ ہونے پر عوام ماضی میں اس طرح سڑکوں پر نکلی ہے؟

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عمران خان پہلے وزیراعظم ہیں جن کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی ہے۔ وہ بھی محمد خان جونیجو سے لے کر بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی سمیت وزیرِ اعظموں کی اس فہرست میں شامل ہیں جنھوں نے اپنی مدت پوری نہیں کی۔

تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’محمد خان جونیجو کے پاس عوامی حمایت نہیں تھی اسی لیے کوئی رد عمل نہیں ہوا۔ اس کے بعد بینظیر بھٹو کی حکومت جب ختم ہوئی تو لوگ ان کے لیے نکلے تھے۔ اس وقت صورتحال اندرونی تھی امریکی مخالفت والی نہیں تھی۔ اسی طرح 1993 میں جب نواز شریف نے تقریر کی کہ میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا تو ان کا سیاسی قد بڑھا تھا۔ اسی طرح جب 12 اکتوبر 1999 کو نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا تو مسلم لیگ ن بطور سیاسی جماعت اپنی جگہ کھڑی رہی باوجود اس کے کہ اس کو توڑا گیا۔‘

احمد بلال کہتے ہیں کہ ’ماضی میں عوام ایسے باہر نہیں نکلی اور اس کی کئی اور بھی وجوہات ہوں گی لیکن ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے اس وقت یہ ظاہر ہوگیا تھا کہ فوج کہاں کھڑی ہے۔ موجودہ وقت کچھ حد تو واضح ہے لیکن مکمل طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ فوج کیا کرے گی جب ایسے لوگ باہر نکلیں گے‘۔

ان کے مطابق ماضی میں خوف کا عنصر زیادہ تھا اور ان کا خیال ہے کہ وہ عنصر اب نہیں ہے۔

تجزیہ کار سہیل وڑائچ بھی احمد بلال کے موقف سے اتفاق کرتے ہیں کہ ماضی میں ایسا کوئی فوری رد عمل نظر نہیں آیا ہے۔

’نواز شریف نے اسلام آباد سے لاہور تک جو مارچ کیا تھا اس میں کچھ قدر رد عمل نظر آیا تھا لیکن اس طرح سے خود بخود مظاہرے کرنا یہ ایک پیش رفت ہے، اس کو آؤٹ برسٹ یا عوامی ناراضگی کہہ سکتے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ تحریک انصاف کے حمایتی چاہتے تھے کہ ان کی حکومت نہ جائے، عمران کا بیانیہ ایک طبقے کے لیے باعث کشش ہے اور ان کا ووٹ بینک جو اگر پہلے سویا بھی ہوا تھا تو وہ اب متحرک ہوا ہے۔‘

علی زیدی عدلیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’لوگ سوال پوچھ رہے ہیں کہ عذیر بلوچ کے کیس میں، ماڈل ٹاؤن کے کیس میں، اومنی کیس اور کراچی بلدیہ فیکٹری میں از خود نوٹس نہیں لیا گیا۔ لوگ یہ بھی پوچھنا چاہتے ہیں کہ عدلیہ کی تاریخ میں رات کو بارہ بجے کس کے کہنے پر عدلیہ کھولی گئی۔‘

پاکستان کے سوشل میڈیا پر کئی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ٹرینڈز پیر کو بھی جاری رہے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’ایک نئی اینٹی اسٹیبلشمنٹ فورس بن رہی ہے۔ کسی زمانے میں پاکستان پیپلز پارٹی ہوتی تھی اس کے بعد مسلم لیگ ن بنی، اب یہ ایک نئی طاقت ابھرے گی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے مثبت اور منفی دونوں ہی پہلو ہیں۔ مثبت رخ تو یہ ہے کہ اس میں بڑا جوش، جذبہ و جنون ہوتا ہے جب آپ اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی امپیریل ازم کے نعرے لگاتے ہیں۔ دوسری طرف منفی پہلو یہ ہے کہ ریاست کی طاقت کے جو سرچشمے ہیں آپ ان سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اقتدار سے بھی دور ہوتے چلے جاتے ہیں چاہے آپ عوام میں کتنے بھی مقبول کیوں نہ ہوں۔ آپ دیکھیں پیپلز پارٹی کتنا وقت اقتدار سے دور رہی پھر کس طرح مسلم لیگ ن دور ہو گئی۔‘

احمد بلال کہتے ہیں کہ ’تحریک انصاف آگے بڑھے یا یہاں پر ہی رک جائے، قیادت اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بات کہے نہ کہے لیکن سوشل میڈیا پر یہ چلتا رہے گا۔ شاید اس میں شدت بھی آئے اور یہ چلینج رہے گا۔ انھیں بھی کسی پوائنٹ پر جواب دینا پڑے گا۔‘

مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’تحریک انصاف ایک چیلنج بنے گی۔ خیبر پختونخواہ میں ان کی حکومت ہے، پنجاب میں بہت بڑی جماعت ہے اور معاشی صورتحال انتہائی سنگین ہے۔‘

وہ کہتے ہیں ’وہ اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ پر براہ راست حملہ نہ کریں لیکن وہ یہ ضرور کہیں گے کہ یہ صرف باہر کی سازش نہیں اس میں اندر کے لوگ بھی ملوث ہیں۔ جس طرح کا عوامی رد عمل آیا ہے اس سے عمران خان کا حوصلہ اور بلند ہوگا اور ادارے اور موجودہ حکومت دباؤ میں آئے گی۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.