بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

انگلینڈ میں آباد جنوبی ایشیائی تارکین وطن کی تنہائی اور کامیابی کی داستان

انگلینڈ میں آباد جنوبی ایشیا کے تارکین وطن کی تنہائی اور افسردگی کے ساتھ کامیابی کی داستان

روی پٹیل

،تصویر کا ذریعہRAVI PATEL

،تصویر کا کیپشن

روی پٹیل سال میں صرف دو بار اپنے والدین کو فون کر پاتے تھے

جنگ کے بعد برصغیر ہند و پاک سے برطانیہ آنے والی پہلی نسل اپنی جیبوں میں کم از کم تین پاؤنڈ لے کر آئی۔ یہی وہ رقم تھی جو وہ کرنسی کے سخت کنٹرول میں لا سکتے تھے۔ ان کی اولادیں، جو کہ لاکھوں میں ہیں، وہ عصری برطانیہ کی نئی صورت کا حصہ ہیں، لیکن ان کی بہت سی کہانیاں ابھی سنائی جانی باقی ہیں اور وہ ہجرت کے بارے میں بہت کچھ ظاہر کرتی ہیں۔

محمد عجیب سنہ 1957 میں ٹوٹے پھوٹے سوٹ کیس کے ساتھ پاکستان سے برطانیہ پہنچے تھے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں میرپور کے 28 دیگر مردوں کے ساتھ ان کا پہلا گھر نوٹنگھم میں ٹھہرا۔ وہ پاکستان میں کلرکی کیا کرتے تھے لیکن انھیں برطانیہ میں صرف ایک فیکٹری میں ہی کام مل سکتا تھا۔

وہ بتاتے ہیں ‘میں رات کو اپنے بستر پر روتا تھا۔ میں واپس جانا چاہتا تھا لیکن میں ناکام شخص کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہتا تھا۔ میں نے سوچا کہ ‘میں ایک پرعزم نوجوان ہوں، اس ملک میں مجھے کسی صورت بھی کامیاب ہونا ہے’ اور یہی بات مجھے (حوصلے کے ساتھ) لے کر چلتی رہی۔’

آنے والے برسوں کے دوران وہ مساوی تنخواہ کے لیے اور نسل پرستی کے خلاف بہت سی لڑائیاں لڑیں لیکن وہ ڈٹے رہے یہاں تک کہ بریڈ فورڈ کے میئر بنے۔

سنہ 1948 کے برٹش شہریت کے قانون کا مطلب تھا کہ سابق کالونیوں یا سلطنت سے آنے والے لوگ خود بخود ہی برطانوی شہری ہوتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کو ملک کی تعمیر نو کے لیے مزدوروں کی ضرورت تھی۔

محمد عجیب انگلینڈ میں اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے ٹکے تھے

،تصویر کا ذریعہMOHAMMED AJEEB

،تصویر کا کیپشن

محمد عجیب انگلینڈ میں اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے ٹکے تھے

ابتدائی برسوں میں برصغیر پاک و ہند سے آنے والوں میں بہت سے لوگ سنگل اور نوجوان تھے۔ انھوں نے زیادہ تر برمنگھم، بریڈ فورڈ اور مغربی لندن جیسی جگہوں پر فیکٹریوں، فاؤنڈریوں اور ٹیکسٹائل ملوں میں مشکل شفٹوں میں کام کیا۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ وہ صرف چند سالوں کے لیے آ رہے ہیں: انھوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ان کے خاندان اور ان کی نسلیں ایک دن یہاں رہیں گی۔

مسلسل کرب ناک تنہائی اور اہل خانہ کی یاد، ان پہلے پہل برطانیہ آنے والوں کی زندگی کا حصہ تھا، جسے تین پاؤنڈ نسل کہا گیا۔ بہت سے لوگوں نے اپنے خاندان کو نیلے ایروگرام خطوط پر لکھا کرتے تھے۔

اسی طرح گنونت گریوال سنہ 1965 میں انڈین پنجاب کے شہر لدھیانہ سے آئیں۔ یہاں زندگی وہ نہیں تھی جس کا انھوں نے تصور بھی کیا تھا۔ وہ انڈیا میں ٹیچر رہ چکی تھی، لیکن جب وہ یہاں پہنچی تو فیکٹری میں ہی کام مل سکتا تھا۔

وہ ویسٹ لندن کے ساوتھ ہال میں ایک کمرے میں اپنے شوہر اور بیٹی کے ساتھ ایک مشترکہ گھر میں رہتی تھیں، جو کہ انڈیا میں ان کے وسیع و عریض گھر سے بہت مختلف رہائش تھی۔ وہ اپنے والد کو شدت سے یاد کرتی تھیں جسے وہ باقاعدگی سے خطوط لکھتی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘جب میں خط لکھتی تو میرے آنسو میرے خط پر ہوتے تھے۔ میرے والد کہتے کہ ‘تمہارا خط نم کیوں تھا؟’ تو کہتی کہ ‘اوہ میں چائے پی رہی تھی،’ جبکہ وہ واقعی آنسو تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ سب بہتر ہوتا گیا۔’

شبنم گریوال اپنے شوہر اور اپنی بیٹی کے ساتھ

،تصویر کا ذریعہSHABNAM GREWAL

،تصویر کا کیپشن

شبنم گریوال اپنے شوہر اور اپنی بیٹی کے ساتھ

ایک بار بس اسٹاپ سے گزرتے ہوئے انھوں نے ایک بزرگ سکھ آدمی کو دیکھا جو انھیں ان کے والد کی یاد دلا گیا۔ انھوں نے بے ساختہ اس شخص کو گلے لگا لیا۔

کسی عزیز کی آواز سننے کے لیے فون کال کرنے کا تو سوال ہی نہیں تھا۔ روی پٹیل سنہ 1967 میں ایک پاؤنڈ لے کر انگلینڈ پہنچے، باقی رقم برطانیہ کے سفر میں خرچ ہو گئی۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ اس وقت انڈیا میں فون کرنے کی قیمت ایک پاؤنڈ 40 پینس فی منٹ تھی، جو کہ اس وقت بہت بڑی رقم تھی۔ چنانچہ روی نے فون پر بات کرنے کے لیے اپنے خاندان کو ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں سال میں دو بار بلایا: ایک بار دیوالی پر اور ایک بار اپنے والد کی سالگرہ پر۔

سنہ 2000 کی دہائی کے اوائل تک معاملہ اسی طرح رہا کیونکہ اس کے بعد لیبارا جیسی کمپنیوں نے مواصلات میں انقلاب برپا کیا اور اسے تین برطانوی سری لنکن کاروباریوں نے شروع کیا اور سستے ٹیلی فون کالنگ کارڈز کی پیشکش کی۔

اب آپ برصغیر پاک و ہند میں ایک پیسہ یا پینی فی منٹ کے حساب سے فون کر سکتے تھے۔ روی کے انڈیا چھوڑنے کے کئی دہائیوں بعد، اب وہ جب چاہیں اپنے بہترین دوست سے بات کر سکتے تھے۔

روی پٹیل تین پاؤنڈ لے کر لندن پہنچے تھے

،تصویر کا ذریعہRAVI PATEL

،تصویر کا کیپشن

روی پٹیل تین پاؤنڈ لے کر لندن پہنچے تھے

جب میں نے تقریباً ایک دہائی قبل ان پہلے پہل انگلینڈ آنے والوں کا انٹرویو کرنا شروع کیا تو اس وقت تک ان کے تجربات کو وسیع پیمانے پر دستاویزی شکل نہیں دی گئی تھی، لیکن حالیہ برسوں میں ان لوگوں کی کہانیوں میں دلچسپی بڑھ رہی ہے جو سابق برطانوی سلطنت سے آئے اور اپنے نوآبادیاتی حکمران کی نگری کو اپنا گھر بنایا۔ اور اس نسل کی مساوات اور نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کی باتیں اب زیادہ مشہور ہیں۔

ہر نسل کو چھوڑی ہوئی جگہ اور اس جگہ سے الگ لگاؤ ہوتا ہے جہاں وہ اب رہتے ہیں لیکن والدین اور بچوں کے درمیان یہ نجی، اور بعض اوقات نازک، کشمکش شاذ و نادر ہی ریکارڈ کیے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

میں فرح سعید اور ان کی والدہ رونی کے درمیان تعلقات کے نشیب و فراز کا احاطہ کر رہی تھی۔ رونی سنہ 1968 میں ڈھاکہ (مشرقی پاکستان، اب بنگلہ دیش) سے ایک نوجوان دلہن کے طور پر آئی تھیں۔ فرح ایک سال بعد پیدا ہوئیں۔ رونی کی نسل نے اکثر اپنے بچوں کو اکیلے ہی جنم دیا اور ان کی پرورش کی، ان کی اپنی ماؤں یا کسی وسیع خاندان کے تعاون کے بغیر۔ جبکہ آنے والی نسل کے لیے یہ مختلف تھا۔

سنہ 2001 کے اواخر میں فرح لیورپول میں تھیں جب انھوں نے لندن میں اپنی والدہ کو فون کرکے بتایا کہ وہ بچے کو جنم دینے والی ہیں۔ رونی کہتی ہیں: ‘میں کانپنے اور چیخنے لگی کیونکہ میں اس کی ماں تھی اور مجھے قریب ہونا چاہیے۔’ وہ گاڑی میں فوری بیٹھیں اور لیورپول کے لیے روانہ ہو گئیں۔ جب وہ پہنچی تو انھیں بتایا گیا کہ ان کے ہاں نواسے کی پیدائش ہوئی ہے۔ رونی مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ‘وہ میری زندگی کا سب سے خوشگوار لمحہ تھا۔’

رونی اور فرح سعید
،تصویر کا کیپشن

رونی اور ان کی بیٹی فرح سعید

ہسپتال کے کوریڈور میں انتظار کرتے ہوئے ان کی ایک یاد تازہ ہو گئی کہ کس طرح انھوں نے فرح کو جنم دیا تھا اور اس وقت کے مشرقی پاکستان میں اپنی والدہ کو ایک خط لکھا تھا۔ جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اب انھیں احساس ہوا کہ ماں ہونے کا کیا مطلب ہے۔

رونی نے یاد کیا کہ کس طرح اپنے نوزائیدہ بچی کے ساتھ وہ ہسپتال کے بستر پر لیٹے ہوئے درد میں تھیں، اور وہ اپنی ماں کو یاد کررہی تھیں جو ان سے اس وقت بہت دور تھیں۔ وہ بھوکی تھی اور اپنی ماں کے ہاتھ کا بنا کھانا کھانا چاہتی تھیں۔ چنانچہ جب کئی دہائیوں بعد، وہ فرح کے کمرے میں گئیں اور اپنے نواسے سے ملیں، تو انھیں اپنی ماں کی بھوک اور تکلیف یاد آئی۔

انھوں نے فرح سے پوچھا کہ وہ کیا کھانا چاہتی ہے۔ فرح نے جواب میں چکن بریانی کہا۔ رونی نے لیورپول کی حلال دکانیں تلاش کیں اور اپنی بیٹی کے لیے چکن بریانی بنائی۔

فرح نے اپنے بیٹے کو جنم دینے کے بعد خود ہی انکشاف کیا کہ ‘ماں بننے کے چند سیکنڈوں کے اندر ہی میں نے اس بات کی بالکل مختلف تعریف کی کہ میری ماں کے ساتھ کیا گزری ہوگی۔

پانچ سال بعد سنہ 2006 میں فرح کے ہاں ایک اور بچے کی ولادت ہوئی انھوں نے اپنی ماں کے قریب رہنے کے لیے لندن واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ وہ 1988 میں اپنے والدین کی امیدوں کے بوجھ سے نکلنے کی خواہش کے ساتھ، اپنی زندگی، اپنے طریقے سے گزارنے کی تڑپ کے ساتھ گھر چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔

اپنے والدین کے قریب واپس آنے کا فیصلہ کرنے کے پس پشت ان کی وہ خواہش کارفرما تھی کہ وہ اپنے بچوں کو وہ کچھ دینا چاہتی ہیں جو ان کے پاس کبھی نہیں تھی یعنی ان کے دادا دادی، نانا نانی ان کے ساتھ نہیں تھے۔ وہ بنگلہ دیش میں رہتے تھی اور فرح نے انھیں بمشکل دیکھا تھا۔

فرح کی بات سن کر میں نے محسوس کیا کہ برطانیہ میں پیدا ہونے والی دوسری نسل میں ہزاروں ایسے ہوں گے جو اپنے دادا دادی اور نانا نانی کے بغیر پلے بڑھے ہیں۔ ہمارے بچوں اور ان کے دادا دادی (جو پہلے پہل برطانیہ آئے) کے درمیان یہ رشتہ ہمارے لیے بہت معنی رکھتا ہے کیونکہ یہ وہ چیز ہے جو ہمارے پاس کبھی نہیں تھی۔

فرح سعید اپنی والدہ کے ساتھ اپنی بیٹے کو گود میں تھامے

،تصویر کا ذریعہFARAH SAYEED

،تصویر کا کیپشن

فرح سعید اپنی والدہ کے ساتھ اپنی بیٹے کو گود میں تھامے

فرح کے لیے زندگی نے اپنا ایک پورا دائرہ مکمل کیا ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ ان کے بچے بنگالی کھانوں، ثقافت اور زبان میں ڈوب جائیں اور یہ وہ چیزیں جو ان کے والدین کے گھر کا حصہ تھیں۔ یہ وہی گھر ہے جہاں سے فرح سنہ 1980 کی دہائی کے آخر میں فرار ہونا چاہتی تھی۔

وہ کہتی ہیں: ‘جب آپ جوان ہوتے ہیں، تو آپ اس (معاشرے) میں فِٹ ہونا چاہتے ہیں، اور جب آپ مزید بڑے ہوتے ہیں، تو آپ پراعتماد ہوتے ہیں اور فِٹ ہونا سے زیادہ آپ کے لیے یہ اہمیت رکھتا ہے کہ آپ کون ہو۔

اس طرح کی شہادتیں ہجرت اور برطانیہ کی کہانی کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ایک سلطنت کے طور پر جو شروع ہوا وہ راج کے سابق رعایا کے بطور شہری آباد ہونے پر ختم ہوا، جن کی نسلیں اب یہاں آباد ہیں۔ ہر فرد یہ انتخاب کرتا ہے کہ پیچھے چھوڑی ہوئی جگہ سے کیا چھوڑنا ہے اور وہاں کی کون سی چیز کو برطانیہ میں رکھنا ہے۔

رونی کے شوہر کی گذشتہ سال موت ہو گئی۔ ان کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا گلا بھر آتا ہے۔ ‘ایسا لگتا ہے کہ آپ ایک گھر بناتے ہیں اور آپ ایک اینٹ سے شروع کرتے ہیں۔ میں نے اس کے ساتھ مل کر برسوں میں بھرا پورا بڑا سا گھر بنایا۔ ہم لڑے، ہم نے بحث کی۔ لیکن ہم وہ گھر بنانا چاہتے تھے، اور ہم نے کیا۔’

وہ لندن میں ان کے گھر کے قریب دفن ہیں۔ نوجوانی میں وہ بنگلہ دیش کی سرزمین پر اپنی خاندانی زمیں میں دفن ہونا چاہتے تھے۔

لیکن بعد میں انھیں احساس ہوا کہ ان کا گھر وہیں ہے جہاں ان کے بچے اور نواسے ہیں۔ ان کی کشش کا مرکز بدل گیا تھا۔

کئی مشکل اور تنہائی والے وقت آئے لیکن اب برطانیہ میں ان مہاجروں کی تین نسلیں کامیابی سے آباد ہو چکی ہیں۔ رونی نے مجھے بتایا کہ انھوں نے اپنے شوہر کے بغل میں ایک پلاٹ ریزرو کر رکھا ہے۔ انھوں نے کہا: ‘مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک بڑا درخت ہے، جو مضبوطی سے زمین میں کھڑا ہے، اور اسے اکھاڑا نہیں جا سکتا۔’

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.