سبینا نیسا: ’اس نے میری بہن پر ایسا خوفناک حملہ کیوں کیا؟‘
- جون کیلی، نریش پوری اور ایلکس ڈیکاوِچ
- بی بی سی ہوم افیئرز ٹیم
سبینا نیسا جس سکول میں پڑھاتی تھیں وہاں ان کی یاد میں ایک باغیچہ بنایا جائے گا
برطانیہ میں سبینا نیسا نامی ایک سکول ٹیچر کو تشدد کے بعد گلا گھونٹ کر قتل کرنے والے شوہر نے اعتراف جرم کر لیا ہے۔
سبینا کو گلا گھونٹ کر قتل کرنے سے مہینوں پہلے ان کے شوہر کوچی سیلامج ان پر گھریلو تشدد کر کے اپنی پرتشدد شخصیت عیاں کر چکے تھے۔
البانوی نژاد کوچی سیلامج نے اپنی 28 سالہ برطانوی شہریت کی حامل اہلیہ کو گذشتہ برس 17 ستمبر کو تشدد کے بعد گلا دبا کر قتل کیا تھا۔
حالانکہ ان کی رومانیہ نژاد بیوی برطانیہ میں ان کے مستقبل کی ضمانت تھی۔ اٹھائیس سالہ سبینا، جو کہ ایک سکول ٹیچر تھیں، کو قتل کرنے سے کچھ عرصے پہلے ہی ان کی کوچی کے ساتھ شادی ناکام ہوئی تھی۔
البانوی نژاد کوچی سیلامج کو اب اس قتل کے جرم میں سزا ہو چکی ہے، مگر ان کی امیگریشن ہسٹری کے بارے میں اب بھی سوالات موجود ہیں کہ کیا انھوں نے یہ شادی برطانیہ میں مستقل رہائش اختیار کرنے کے لیے رچائی تھی؟
برطانوی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ قتل کے وقت ان کے پاس برطانیہ میں رہنے کا حق تھا، مگر حکام نے مزید تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
تاہم معلوم ہوا ہے کہ وہ 2015 میں یونان سے ایک بس کے ذریعے غیر قانونی طور سے برطانیہ میں داخل ہوئے تھے۔انھوں نے برطانیہ پہنچنے کے بعد ایسٹ سکس کے علاقے میں پیزا ڈلیوری اور ایک گیرج میں کام کیا تھا۔ انھوں نے پانچ نومبر 2018 کو سبینا نیسا سے شادی کی اور ایسٹ بورن کے علاقے میں ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔
یورپی یونین کی شہری ہونے کی حیثیت سے ان کی بیوی کو برطانیہ میں شہریت کے زیادہ حقوق حاصل تھے۔ اسی برس حکومت نے اعلان کیا تھا کہ یورپی یونین کی شہریت رکھنے والے افراد اور ان کے پارٹنر کو بریگزٹ کے بعد برطانیہ میں رہنے کی اجازت ہو گی۔
گھریلو تشدد
برطانیہ میں سیلامج کی رہائش کا مسئلہ حل ہونے کے بعد وہ زیادہ آزادی سے ملک میں آ جا سکتے تھے۔ بی بی سی کی تحقیقات کے مطابق البانیہ میں سیلامج کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے۔ شادی کے چھ ماہ بعد وہ گھر گئے تھے اور پچھلے ڈھائی سال میں انھوں نے البانیہ کے چھ چکر لگائے۔
کوچی سیلامج کے خلاف کوئی سابقہ مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے
2021 کے موسم گرما تک سبینا کی شادی سیلامج کے پرتشدد مزاج کی وجہ سے ختم ہو چکی تھی۔ سبینا گھر چھوڑ کر چلی گئی تھی۔
استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ قتل سے پہلے وہ کئی مرتبہ اپنی بیوی کا گلا دبانے کی کوشش کر چکے تھے۔ استغاثہ نے بتایا کہ 17 ستمبر کو جس دن سبینا کا قتل ہوا سیلامج ایسٹبورن گرینڈ ہوٹل میں ایک کمرہ بک کروایا تھا جہاں ان کی دوسری اہلیہ جن کا نام ظاہر نہیں کیا جا رہا، کام کرتی تھیں۔
انھوں نے جب ہوٹل کے استقبالیے پر بحث کی تو ہوٹل کے عملے نے نوٹس کیا کہ ان کا گھر قریب ہی واقع ہے اور انھوں نے پولیس کو کال کی۔ تاہم کوئی اہلکار موقع پر نہیں آیا اور بعدازاں وہ اپنی دوسری اہلیہ سے کار میں ملے اور ان سے سیکس کی کوشش کی۔ تاہم ان کے انکار پر وہ گاڑی بھگا کر وہاں سے چلے گئے۔
جنسی ترغیب سے متاثرہ
سبینا جمعہ کی ایک شام اپنی دوست سے ملنے جا رہی تھی۔ جب وہ ایک پارک سے گزر رہی تھیں تو سیلامج جو پہلے سے ان کی تاک میں تھے سبینہ کو دیکھ لیا اور ان کی طرف بھاگے۔ انھوں نے لوہے کی ایک سلاخ سے ان پر 34 ضربیں لگائیں، جب وہ بے ہوش ہوگئیں تو ان کا گلا گھونٹ کر قتل کر دیا۔ سبینہ کی لاش اگلے روز ملی۔
تفتیش کرنے والے پولیس اہلکار نیل جان نے عدالت کو بتایا کہ ’مقتولہ کی لاش جس انداز میں ملی اس سے میں بلاشبہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ قتل جنسی اشتہا سے مغلوب ہو کر کیا گیا ہے۔‘
موت کے بعد نساء کی یاد میں اجتماعات منعقد کیے گئے
سیلامج نے جائے وقوعہ پر کوئی سراغ نہیں چھوڑا تھا۔ تاہم آہنی سلاخ جو قریب ہی موجود پانی کے نالے سے برآمد ہوئی تھی جو پولیس کے لیے اہم ثابت ہوئی۔ پولیس کے مطابق ’کیمروں میں پارک سے گزرتے ہوئے ایک شخص کے ہاتھ میں کوئی چمکدار شے نظر آئی اور انھوں نے اسی کا تعاقب کیا۔‘
پانچ روز کی بغور تفتیش اور محنت کے بعد پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے قاتل کا خاکہ بنا لیا اور اس کے راستے اور لباس کا بھی تعین کر لیا۔
نیل جان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس سینکڑوں گھنٹوں کی فوٹیج موجود تھی۔‘
‘بزدل شیطان’
سڑک کے کنارے لگے کیمروں کی مدد سے گاڑی کی شناخت بھی ہو گئی اور تقریباً ایک ہفتے کے بعد سیلامج پولیس کی نظروں میں آگئے۔ پولیس نے رات کے وقت ان کے گھر پر چھاپا مار کر انھیں گرفتار کر لیا۔ گرفتاری کے دوران وہ خاموش رہے اور وہ بستر پر لیٹے ہوئے اور پر سکون تھے۔ پولیس کو ان کے جوتوں پر خون کے دھبے ملے جو سبینہ کے خون کے نمونے سے مل گئے۔
تفتیش کے دوران وہ مکمل خاموش رہے۔ مگر جب ان پر فرد جرم عائد کی گئی تو وہ اچانک بولے: ’اگر میں سب کچھ بتا دوں تو کیا ہو گا؟‘ کیونکہ ان پر فرد جرم عائد کی جا چکی تھی اس لیے پولیس ان سے مزید پوچھ گچھ نہیں کر سکتی تھی۔
ان کے انکل نے بی بی سی کو بتایا کہ کوچی سیلامج کے والدین صدمے کی حالت میں ہیں
عدالت میں پہلی پیشی پر انھوں نے اشارہ دیا تھا کہ وہ صحت جرم سے انکار کر دیں گے۔ مگر فروری میں سبینہ کی فیملی کی عدالت میں موجودگی پر جب ان سے اعتراف جرم کے بارے میں پوچھا گیا تو کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد انھوں نے اقبال جرم کر لیا۔
سزا سنائے جانے والے روز انھوں نے عدالت جانے سے انکار کر دیا اور سبینہ کے اہل خانہ عدالت کے خالی کٹہرے کو گھورتے رہے۔
سیلامج 36 برس کے ہونے والے ہیں اور انھیں ان کی نفسیاتی حالت جانچنے کی غرض سے جیل ایک ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ البانیہ میں سیلامج کے چچا نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ برطانیہ میں ان کے بھتیجے کو قتل کے جرم میں سزا ہوئی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ سیلامج البانیہ میں پیدا ہوئے تھے مگر بعدازاں ان کا خاندان یونان ہجرت کر گیا تھا۔ اس کے کچھ عرصے بعد ان کے والدین تو البانیہ واپس آگئے مگر سیلامج اور ان کے بہن بھائیوں کو یونان میں ہی اپنا مستقبل روشن نظر آیا۔
سیلامج گذشتہ سال ستمبر میں اپنے آبائی گھر گئے تھے اور ایک ہفتے بعد واپس آ گئے تھے۔ اس وقت تک واضح ہو گیا تھا کہ ان کی شادی ختم ہو چکی ہے۔ وہ جانتے تھے کہ اس کا مطلب ہے کہ برطانیہ میں ان کا مستقبل نہیں ہے۔ اس کے آٹھ روز بعد انھوں نے اپنی بیوی کو سفاکی سے قتل کر دیا۔
جبینہ اسلام کو اس بات کا دکھ ہے کہ سیلامج نے ان کی بہن پر حملہ کرنے کا سبب بتانے سے انکار کر دیا
سبینہ کی بڑی بہن جبینہ اسلام کہتی ہیں کہ ان کا خاندان اس بات پر دکھی ہے کہ سیلامج نے اپنے جرم کی وجہ بتانے سے انکار کر دیا ہے۔
سبینہ چار بہنوں میں دوسری تھیں۔ جبینہ کہتی ہیں، ’جب میں نے اسے دیکھا تو میں نے سوچا کہ یہ کتنا وحشی درندہ ہے۔ مجھے اس بات کا رنج ہے کہ اس نے کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ احساس تا عمر میرے اور میری فیملی کے ساتھ رہے گا۔ اس نے میری بہن پر ایسا خوفناک حملہ کیوں کیا؟‘
Comments are closed.