سپریم کورٹ میں تحریکِ عدم اعتماد مسترد ہونے پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت آج پھر ہو رہی ہے۔
تحریکِ عدم اعتماد مسترد ہونے پر لیے گئے از خود نوٹس کی آج مسلسل پانچویں سماعت ہے۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل بنچ میں شامل ہیں۔
صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر آج پھر روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ میں آج 10 منٹ میں دلائل مکمل کر لوں گا۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کے روبرو کہا کہ ایک ڈکٹیٹر نے کہا تھا کہ آئین دس بارہ صفحوں کی کتاب ہے، اسے کسی بھی وقت پھاڑ سکتا ہوں۔
’’ایڈووکیٹ جنرل پنجاب تقریر نہ کریں‘‘
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے انہیں تنبیہ کی کہ تقریر نہ کریں، ہم پنجاب کے مسائل میں نہیں پڑنا چاہتے۔
جسٹس مظہرعالم نے کہا کہ کل ٹی وی پر بھی دکھایا گیا کہ پنجاب اسمبلی میں خاردار تاریں لگا دی گئی ہیں۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جب اسمبلی کو تالے لگا دیے گئےہیں توممبرانِ اسمبلی کہاں جائیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ پنجاب کا معاملہ دیکھے گی، ہم صرف قومی اسمبلی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں، خود فریقین آپس میں بیٹھ کر معاملہ حل کریں۔
جسٹس مظہرعالم نے استفسار کیا کہ کیا اسمبلی کو اس طرح سیل کیا جا سکتا ہے؟
جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے کہا کہ پنجاب میں آپ لوگ یہ کیا کر رہے ہیں؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی کارروائیوں کو الگ الگ استحقاق حاصل ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ کیا موجودہ کیس میں اسمبلی کارروائی کا اثر باہر نہیں ہوا؟
جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے سوال کیا کہ کیا کوئی بھی غیر آئینی اقدام پارلیمنٹ میں ہوتا رہے اس کو تحفظ حاصل ہے؟ ہم آئین کی حفاظت کے لیے بیٹھے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ اگر پارلیمنٹ میں کوئی غیر آئینی حرکت ہو رہی ہے تو اس کا کوئی حل نہیں؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ مسئلہ پارلیمنٹ کو حل کرنا ہے اور مسئلے کا حل عوام کے پاس جانا ہے، مجھے آپ کی تشویش کا اندازہ ہے مگر ہمیں وہی کرنا ہے جو آئین کہتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر پارلیمنٹرین کے ساتھ کچھ غیر آئینی ہو تو ان کے پاس اس کی کوئی داد رسی نہیں ہو سکتی؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہاؤس آف کامن میں ایک ممبر کو حلف لینے نہیں دیا گیا، عدالت نے قرار دیا کہ مداخلت نہیں کر سکتے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ اگر یہ پارلیمنٹ کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہو تو پھر کیا کریں؟
بیرسٹر علی ظفر نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ اگر ججز کے آپس میں اختلافات ہوں تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟ جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کر سکتی ویسے ہی عدلیہ بھی مداخلت نہیں کر سکتی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل پارلیمنٹ کی چار دیواری کے اندر کا معاملہ ہے؟ کسی اقدام کے نتائج کا اثر پارلیمنٹ سے باہر ہو تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیرِ اعظم کا انتخاب یا تحریکِ عدم اعتماد پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے۔
چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ وزیرِ اعظم کا انتخاب پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے، آئین کے تحفظ کے لیے اس کے ہر آرٹیکل کو مدِ نظر رکھنا ہوتا ہے، اگر ججز میں تفریق ہو، وہ ایک دوسرے کو سن نہ رہے ہوں تو کیا پارلیمنٹ کچھ کر سکتی ہے؟ اس کا جواب ہے نہیں، عدالت کو خود معاملہ نمٹانا ہے، پرائم منسٹر کا الیکشن اور تحریکِ عدم اعتماد کا معاملہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے، قومی اسمبلی بنتی ہی اس لیے ہے، اس کو اپنا اسپیکر اور پرائم منسٹر منتخب کرنا ہے، وفاقی حکومت کی تشکیل اور اسمبلی توڑنے کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔
اب تک کی سماعتوں میں اپوزیشن جماعتوں اور بار کونسلز کے دلائل مکمل ہو چکے۔
پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان اور صدرِمملکت کے وکیل علی ظفر کے بھی دلائل مکمل ہو گئے۔
وزیرِ اعظم عمران خان کے وکیل امتیاز رشید صدیقی آج دلائل دیں گے۔
اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے وکیل نعیم بخاری اور اٹارنی جنرل بھی دلائل دیں گے۔
Comments are closed.