یوکرین جنگ کے بعد ایرانی گیس یورپ میں روسی گیس کا متبادل بن سکے گی؟
روس، یوکرین جنگ کے باعث یورپ کو روسی گیس کی برآمدات پر پابندیوں کے خدشے نے روس کے علاقائی اتحادی، ایران، کے لیے یورپ میں اپنی گیس کی برآمدات میں اضافہ کرنے کا امکان بڑھا دیا ہے۔
ایران کے پاس دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ثابت شدہ قدرتی گیس کے ذخائر ہیں ۔ روس پہلے نمبر پر ہے ۔ جبکہ ایران مجموعی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔
تاہم سنہ 2015 کے جوہری معاہدے ‘جے سی پی او اے’ (JCPOA) سے امریکہ کی یکطرفہ دستبرداری کی وجہ سے لگائی گئی پابندیوں نے قدرتی گیس کی برآمد کے لیے اس کی صلاحیت کو بڑھانے کی ایرانی کوششوں میں رکاوٹ پیدا کردی ہے۔
‘جے سی پی او اے’ کی بحالی کے بڑھتے ہوئے حالات اور ایران پر سے پابندیاں ہٹائے جانے کے امکانات نے یورپی اور ایرانیوں کی قیاس آرائیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے کہ تہران یورپی منڈی پر روس کے تسلط کو کم کرنے کے لیے قدم بڑھا رہا ہے۔
توانائی کے تجزیہ کار میر قاسم مومنی نے ‘جے سی پی او اے’ کے سلسلے میں جاری مذاکرات اور روسی گیس کی ‘عدم موجودگی’ کو ایران کے ‘فوسل فیول’ (جیواشم ایندھن) کی برآمدات اور اس کی تیل اور گیس کی صنعت کی جدید کاری کے لیے ایک ‘سنہری موقع’ قرار دیا۔
تین اپریل کوایران کی خبر رساں ایجنسی ‘آئی ایل این اے’ (ILNA) نیوز ایجنسی کے ساتھ ایک انٹرویو میں مومنی نے کہا کہ روس پر پابندیوں کی صورت میں یورپ کے توانائی کے بحران ایران کے جوہری معاہدے کی بحالی کی ضرورت گہری کرتا ہے۔
یورپ بھر میں گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور عنقریب مزید اضافہ ہونے جا رہا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس لمحے نے ایک موقع پیش کیا کہ ‘یورپی ممالک ایران کے تیل اور گیس میں سرمایہ کاری کے میدان میں داخل ہو سکتے ہیں اور ہمارے گیس کے مستقل صارفین ہو سکتے ہیں۔’
یورپ کو قدرتی گیس برآمد کرنے کے لیے ایران، عراق اور ترکی پر مشتمل ایک بلاک کی تشکیل کے امکان پر، مومنی زیادہ محتاط تھے۔ انھوں نے نشاندہی کی کہ عراق اور ترکی دونوں خالص گیس کے درآمد کنندگان ہیں اور ان ممالک میں کسی بھی ٹرانزٹ انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے پابندیوں کے سوال کو حل کرنے کی ضرورت ہوگی۔
انھوں نے کہا کہ ایران خود سرمایہ کاری اور تکنیکی معلومات کی کمی کا شکار ہے اور ساتھ ہی پرانے اور بوسیدہ انفراسٹرکچر میں پھنسا ہوا ہے جو گزشتہ کئی برس سے عائد پابندیوں کی وجہ سے تبدیل نہیں ہوسکے ہیں۔
اپنی مائع قدرتی گیس (LNG) کی پیداواری صلاحیت کو تیز کرنے کے لیے ایک حالیہ اقدام میں نیشنل ایرانی آئل کمپنی نے سرمایہ کاروں سے مِنی ایل این جی پلانٹس کی تعمیر کے لیے تجاویز پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔
روس کے ساتھ تعلقات پر خوف
اس قیاس آرائی کو ایرانی حکام اور تجزیہ کاروں کی تنقید کا سامنا بھی ہے جنھیں ایران کی اپنی صلاحیت پر شک ہے کہ وہ آیا اتنی گیس برآمد بھی کرسکتا ہے، اور یہ لوگ یورپ کو گیس برآمد کرنے کی صورت میں روس کے ساتھ اپنے تعلقات متاثر ہونے کے بارے میں بھی فکر مند ہیں۔
19 مارچ کو قدامت پسند فردانیوز کی ویب سائٹ کے ساتھ ایک انٹرویو میں، اعلیٰ ثالثی ادارے ایکسپیڈینسی کونسل کے ایک رکن، غلام رضا مصباحی-مقدم نے اس بات پر زور دیا کہ ایران نے یورپ میں روسی گیس کی جگہ لینے کے لیے کوئی بھی ضروری معیار پورا نہیں کیا۔
ایران اور وس کے تعلقات ہمیشہ کچھ نہ کچھ اضطراب کا شکار رہے ہیں۔
اس سیاست دان نے مزید کہا کہ اس وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالات میں یہ گفتگو ایک خواہش اور نعرے کی طرح ہے اور جو لوگ اس موضوع پر بحث مباحثہ کر رہے ہیں وہ ایران اور روس کے درمیان مقابلہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
اسی طرح توانائی کے تجزیہ کار آصف سلطانی نے 4 اپریل کو فرارو نیوز ایجنسی کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس خیال پر بحث مباحثے کو بے سود کہا اور اسے ‘موجودہ حالات میں ناقابل حصول’ قرار دیا۔
ایران کو درپیش تکنیکی چیلنجوں کے علاوہ سلطانی نے یورپی گیس مارکیٹ کی اہمیت کا معاملہ ماسکو کے سامنے اٹھایا۔
انھوں نے کہا کہ ‘کوئی بھی ملک جو یورپی گیس مارکیٹ کو روس کے ہاتھ سے چھیننا چاہے گا وہ یقینی طور پر روس کا نمبر ایک دشمن بن جائے گا۔’ انھوں نے مزید کہا کہ ایران نے روس کے ساتھ اپنے سٹریٹجک تعلقات کو برقرار رکھنے کو ترجیح دی ہے۔
Comments are closed.