بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

ہزاروں روسی اور یوکرینی سیاح تھائی لینڈ میں پھنس گئے

روس یوکرین جنگ: روسی اور یوکرینی سیاح پوکھٹ میں پھنس گئے

  • جوناتھن ہیڈ
  • بی بی سی نیوز، پوکھٹ

Russian family on Phuket beach
،تصویر کا کیپشن

روسی سیاحوں کی بڑی تعداد پوکھٹ کا رخ کرتی ہے

کووڈ کی عالمی وبا سے ایشیا میں سیاحت کا کاروبار بری طرح متاثر ہوا لیکن پوکھٹ سے زیادہ شاید ہی کوئی متاثر ہوا ہو گا۔ تھائی لینڈ میں 31 مربع میل کے اس جزیرے کے ریتیلےساحل ہر سال 70 لاکھ غیر ملکی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لاتے ہیں۔

کووڈ کی وبا کے پھیلنے کے بعد تھائی لینڈ نے اپنی سرحدیں تقریباً بند کر دی تھیں اور بیرون ملک سے آنے والوں کے لیے قرنطیہ کی سخت شرائط نافذ تھیں۔ پوکھٹ میں تقریباً دو لاکھ افراد جن کا روزگار سیاحت کی صنعت سے جڑا ہوا تھا، وہ بے روزگار ہو گئے تھے۔

گزشتہ برس کووڈ کی پابندیاں درجہ بدرجہ ختم ہوئیں۔ چینی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد پوکھٹ آتی تھی لیکن چین ابھی تک اپنے شہریوں کے بیرون ملک سفر کو مشکل بنا رہا ہے۔ لیکن پوکھٹ میں چینی سیاحوں کی کمی کو روسی سیاحوں نے پورا کیا اور دسمبر میں 17 ہزار روسی سیاح پوکھٹ پہنچ چکے تھے۔

جب آپ پوکھٹ کی کارن، کاٹا اور پاٹانگ کے ساحلوں پر چلتے ہیں تو آپ کو وہاں روسی سیاحوں کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔

لیکن اب یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سات ہزار روسی سیاح پوکھٹ میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ایئرلائنز ان کے واپسی کے ٹکٹوں کو منسوخ کر رہی ہیں۔ ان کے لیے سب سے برا مسئلہ رقوم کا حصول بن گیا ہے۔

جب سے روس پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں روسی شہریوں کے لیے اے ٹی ایم سے رقوم نکالنا مشکل ہو گیا ہے اور ان کے کریڈٹ کارڈز قبول نہیں کیے جا رہے ہیں۔

روسی سیاحوں کی اکثریت صحافیوں سے بات کرنے سے کتراتے ہیں لیکن چند ایک سیاحوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی بات کی ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ واپس روس پہنچ کر انھیں مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جہاں یوکرین پر روسی یلغار کو جنگ کہنے پر بھی مسائل کا سامنا کر پڑ سکتا ہے۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ جس روز یوکرین پر یلغار شروع ہوئی ہے تو اسی روز وہ ماسکو سے پوکھٹ پہنچے تھے اور اب وہ اس وقت تک پوکھٹ رہنا چاہتے ہیں جب تک ان کے پاس رقم موجود ہے۔ ”ہم ایک اے ٹی ایم مشین سے دوسری مشین پر جا رہے ہیں۔ دس میں سے نو بار ان کو رقوم نکالنے کی اجازت نہیں ملتی۔ لیکن ہم کچھ کیش حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔”

"اس کے علاوہ بھی رقم وصول کرنے کے کچھ طریقے ہیں، جیسے ویسٹرن یونین، کرپٹو کرنسی لیکن سب روز بروز ختم ہو رہے ہیں۔ اگر کوئی ذریعہ کل کام کر رہا تھا توآج کام نہیں کر رہا ہے۔”.

ہم ہر روز خبریں دیکھتے ہیں

یوکرین کے کچھ سیاح بھی اس وقت تھائی لینڈ میں تھے جب روس نے یوکرینی شہروں پر بمباری کرنا شروع کی۔

ساحل سمندر پر ایک ہوٹل میں میری ملاقات اینٹن اور ایلینا سے ہوئی۔ تھائی لینڈ کے حکام نے اس ہوٹل کو عارضی پاسپورٹ آفس میں بدل رکھا ہے تاکہ ان سیاحوں کے ویزوں میں توسیع کی جا سکے جو تھائی لینڈ سے واپس نہیں جا سکتے ہیں۔

ایک درجن یوکرینی بھی پوکھٹ میں موجود ہیں اور جنگ سے ان کی زندگیاں بکھر کر رہ گئی ہیں۔ وہ دسمبر کے وسط سے تھائی لینڈ میں تھے اور مارچ میں انھیں واپس یوکرین پہنچنا تھا۔ لیکن اب ان کے ٹکٹ منسوخ ہو چکے ہیں اور یوکرین میں ان کے خاندان انھیں کہہ رہے ہیں کہ وہ ملک سے باہر ہی رہیں۔

ایلینا کہتی ہیں: ‘ہم یہاں نہ تو سکون سے رہ سکتے ہیں نہ ہی سمندر میں تیر سکتے ہیں۔ ہر روز خبریں دیکھتے اور پڑھتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم واپس جا کر اپنے خاندانوں کی مدد بھی نہیں کر سکتے ہیں ۔”.

Ukrainians Alina and Anton getting visas extended by Thai officials
،تصویر کا کیپشن

ایلنا اور اینٹن نے تھائی لینڈ میں اپنے قیام میں توسیع کی درخواست جمع کرائی ہے

ایلینا کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان کیئو کے اس حصے میں ہے جو قدرے محفوظ ہےلیکن وہاں بھی روسی میزائلوں کے حملوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہے۔

ان کی ڈونیسک کی یادیں واپس آ گئی ہیں جب وہ لڑائی شروع ہوئی تھی۔وہ آٹھ برس پہلے کیئو میں آباد ہو گئے تھے۔

اینٹن کا خاندان کیئو چھوڑ کی ہنگری کی سرحد کے نزدیک پہنچ چکا ہے تاکہ اگر حالات خراب ہوں تو وہ یوکرین سے نکل جائیں۔

ایک اور نوجوان یوکرینی لڑکی، یولیا آنکھوں میں آنسو لیے میرے پاس آئیں اور اپنے فون میں اپنے شہر، ارپن کی تصاویر مجھے دیکھائیں۔

یولیا کا خاندان ارپن سے کیئو منتقل ہو چکا ہے۔ تھائی لینڈ کے حکام یوکرینی شہریوں کو ویزوں میں تین ماہ کی توسیع کی پیشکش کر رہے ہیں لیکن ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں خدشہ ہے کہ ان کے پاس رقم ختم ہو جائے گی۔

مقامی کاروبار ان یوکرینی باشندوں کی مدد کے طریقے نکال رہے ہیں۔ تھائی لینڈ میں یوکرین کے سفارت خانے کا کہنا ہے کہ انہیں سو سے زیادہ ایسی پیشکش مل چکی ہیں جو یوکرینی سیاحوں کو بغیر کرائے اپنے ساتھ رکھنے کے لیے تیار ہیں۔

تھائی لینڈ کی حکومت بھی ایسے طریقے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ وہاں پھنسے ہوئے روسی باشندوں تک رقوم پہنچ سکیں۔

جب ہم کارون پر وراندا ریسٹورنٹ گئے تو وہاں صرف دو میزوں پر کچھ لوگ موجود تھے۔

ہوٹل کے مینیجر ڈی نے ہمیں بتایا اس سیزن میں ہمارا ہوٹل اس وقت مکمل طور بھرا ہوتا ہے لیکن اب ہمارے گاہکوں کے پاس ادائیگی کے لیے رقوم نہیں ہیں۔ اس ریسٹورانٹ کے روسی مالک اپنے گاہکوں کے بلوں کی ادائیگیوں کے لیے روسی بینکوں کے ذریعے ادائیگیوں کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں۔

Picture of Veranda restaurant in Phuket
،تصویر کا کیپشن

پوکھٹ کے کئی دوسرے ریسٹورانٹس کی طرح وارنڈا نے بھی اپنا نام روسی زبان میں تحریر کر رکھا ہے

میں پوکھٹ میں ایک روسی جوڑے سے ملا جو ڈنمارک کی ایک کمپنی پلان بی کے قدرے سستے ہوٹل میں ٹہرے ہوئے ہیں۔

ہوٹل کے مالک نے مجھے بتایا کہ وہ یوکرینی اور روسی گاہکوں کو کم لاگت والے کمروں میں رہنے کا مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ انھوں نے ایک ہوسٹل بھی ایسے گاہکوں کے لیے مختص کر دیا ہے جو ہوٹل کا کرایہ ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

سیاحت کی بحالی کی امید

پوکھٹ کے شاندار ساحلوں پر اب بھی روسی زبان بولنے والوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔

یہاں قزاقستان، سائبریا کے اومسک، ارکوٹسک اور نووسبرسک جیسے ٹھنڈے علاقوں سے آئے ہوئے سیاح نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کی تعداد پہلے کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

تھائی لینڈ میں روس کا سفارت خانہ روسی باشندوں کو وطن واپس بھیجنے کی مختلف تجاویز پر کام کر رہا ہے جن میں خصوصی فلائیٹس کے ذریعے سیاحوں کو واپس بھیجنا بھی شامل ہے۔ ان سیاحوں کی ایسی ایئرلائنز کے ساتھ بکنگ کروانی کی کوشش کی جائے گی جنہوں نے روس میں اپنی پروازیں بند نہیں کی ہیں۔

جب یہ سیاح واپس چلے جائیں گے تو تھائی لینڈ کی سیاحت کو بحالی کے منصوبے بھی رک جائیں گے۔

تھائی لینڈ کو انتظار ہو گا کہ یورپی، انڈین اور چینی اسی تعداد میں واپس تھائی لینڈ آ جائیں جس تعداد میں وہ وبا سے پہلے پوکھٹ میں آتے رہے ہیں۔

پلان بی ہوٹل کے مالک ٹوکے ٹرکیلسن پرامید ہیں کہ تھائی لینڈ کی سیاحت ایک بار پھر بحال ہو جائے گی۔

”اس وقت دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے باوجود ایسے لوگ موجود ہیں جو دو برسوں سے گھروں میں بند ہیں اور انھوں نے کچھ رقوم بھی جمع کر لی ہیں اور وہ سفر پر نکلنا چاہتے ہیں۔”

وہ کہتے ہیں: ’اگر تھائی لینڈ ایشیا کے گیٹ وے کے طور پر کھلتا ہے اور کچھ ممالک بند رہتے ہیں تو ایسے میں بہت سے لوگ تھائی لینڈ آئیں گے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.