جاپان اور جوہری ہتھیاروں کا حصول: یوکرین پر حملے کے بعد سے کیا جاپان جوہری ہتھیاروں کے حصول کا سوچ رہا ہے؟
- روپرٹ ونگفیلڈ ہیز
- بی بی سی نیوز، ٹوکیو
کیا جاپان کبھی جوہری ہتھیار حاصل کرنے پر غور کر سکتا ہے؟ یہ ایک مضحکہ خیز خیال ہے۔ جاپان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے ایٹمی حملے کا سامنا کیا ہے۔ اور وہ بھی دو دو بار۔
جاپان کا جوہری ہتھیاروں کے لیے جانا ناقابل تصور بات ہے۔ عوام اسے کبھی قبول نہیں کریں گے۔ کیا یہ درست ہے؟
درست ہے۔
نہیں تو کم از کم یہ کہانی پچھلے 77 سالوں سے تو چلی آ رہی ہے۔ تاہم پچھلے چند ہفتوں کے دوران ایک جاپانی سیاست دان نے اس کے برخلاف مشورہ دینا شروع کر دیا ہے۔
وہ سیاست دان کوئی اور نہیں بلکہ شنزو آبے ہیں جو کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان کے سب سے طویل عرصے تک وزیراعظم رہ چکے ہیں۔
مسٹر آبے نے بہ بانگ دہل عوامی سطح پر کہنا شروع کیا ہے کہ جاپان کو جوہری ہتھیاروں کے بارے میں سنجیدگی سے اور فوری طور پر غور کرنا چاہیے۔
ہم یہاں جاپان کی دوسری عالمی جنگ کے بعد امن پسندی کے عزم کی بات کر رہے ہیں جو کہ ان کی بنیادی اساس رہی ہے اور دوسری عالمی جنگ کے بعد اس کے آئین میں درج ہے۔
لیکن جاپان میں جوہری ہتھیار کے حصول کی بات کوئی اتفاقی بات نہیں ہے کیونکہ یہ اس وقت سامنے آ رہی ہے جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا ہے۔
مسٹر آبے جیسے لوگ جو مکمل طور پر دوبارہ مسلح جاپان کی طویل عرصے سے آرزو رکھتے ہیں ان کے لیے یوکرین پر ہونے والا حملہ اس بات کی ایک مفید مثال ہے کہ ایسے ممالک کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے جو اپنے سے بڑے، بہتر مسلح اور زیادہ جارحانہ پڑوسیوں کے خلاف اپنا دفاع درست طریقے سے نہیں کر سکتے۔
موجودہ وزیر اعظم فومیو کیشیدا نے مسٹر آبے کی تجویز کو ‘ناقابل قبول’ قرار دیا ہے
آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں لوئی انسٹی ٹیوٹ کے رچرڈ میک گریگور اور ‘ایشیاز ریکننگ’ نامی کتاب کے مصنف کا کہنا ہے کہ آبے کے خیال میں جاپان میں حقیقی بحث کو آگے بڑھانے اور جاپانی عوام کو اس کے متعلق واقعی قائل کرنے کا یہ صحیح وقت ہے۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ‘میرے خیال میں یہ یہاں کی ہولی گریل (ایک قسم کی اساطیر) ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ عوامی رائے کو بدلنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں، جو کہ واضح طور پر کافی سخت ہے۔’
اسے سخت قسم کا عہد کہنا چھوٹی بات ہو گی۔ پچھلے سال کیے گئے ایک سروے میں پایا گیا کہ 75 فیصد جاپانی چاہتے ہیں کہ ملک جوہری ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے پر دستخط کرے۔
مسٹر آبے کی جوہری ہتھیاروں سے متعلق بات چھیڑنے کے مطالبے کو ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایٹم بم سے بچ جانے والے گروپوں کی جانب سے غم و غصے کا سامنا رہا۔ جبکہ موجودہ وزیر اعظم فومیو کیشیدا (جن کا تعلق ہیروشیما سے ہے) انھوں نے اپنے پیشرو کے مطالبے کو مسترد کرنے میں جلدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسٹر آبے کی تجویز کو ‘ناقابل قبول’ قرار دیا۔
لیکن مسٹر آبے ایک ذہین سیاست دان ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یوکرین کو ایک بہت بڑا جھٹکا لگا ہے، اور وہ جانتے ہیں کہ جاپانی عوام ایک غیر متوقع جوہری ہتھیاروں سے لیس شمالی کوریا اور جارحانہ ہوتے ہوئے چین کے بارے میں فکر مند ہیں۔
پروفیسر یوئچی شیماڈا ایک قدامت پسند ماہر تعلیم اور شنزو ایبے کے دیرینہ دوست اور مشیر رہے ہیں۔
پروفیسر شیماڈا نے کہا: ‘ان کے خیال میں جاپان کے پاس چین یا شمالی کوریا کے خلاف کسی قسم کی آزاد حملہ آور طاقت کا ہونا ضروری ہے۔
شمالی کوریا مستقل اپنے میزائل کے تجربے کر رہا ہے
‘اس میں ممکنہ طور پر جوہری ہتھیار کی شمولیت ہونی چاہیے۔ لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کسی بھی سیاست دان کے لیے جاپان کے پاس جوہری ہتھیار رکھنے کی وکالت کرنا خودکشی کے مترادف ہو گا، اس لیے وہ اس بحث کو جاری کرنا چاہتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’جاپانی حکومت کا سرکاری موقف یہ ہے کہ اب اسے امریکہ کے توسیعی (جوہری) ڈیٹرنٹ پر انحصار کرنا ہے۔ لیکن جاپان امریکہ کو جاپان میں جوہری ہتھیاروں کی تعیناتی کی اجازت نہیں دیتا ہے جو کہ صاف طور پر خود غرضی ہے۔’
اس لیے مسٹر آبے جاپان کو اپنے جوہری ہتھیار بنانے کا مشورہ نہیں دے رہے ہیں۔ اس کے بجائے وہ امریکہ سے کچھ ادھار لینے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
سرد جنگ کے بعد کی دنیا میں بڑی حد تک یہ حقیقت فراموش کر دی گئی ہے کہ جرمنی، بیلجیئم، اٹلی اور ہالینڈ جیسے یورپی ممالک اپنی سرزمین پر امریکی جوہری ہتھیار کا ذخیرہ رکھتے ہیں۔
اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اگر ایٹمی جنگ ہوئی تو یہ غیر جوہری ہتھیاروں کی حامل ریاستیں اپنے ہوائی جہاز کا استعمال کرتے ہوئے ان ہتھیاروں کو امریکہ کی جانب سے اہداف کو نشانہ بنا سکتی ہیں۔
مسٹر آبے جاپان کے لیے بھی اس طرح کے انتظام کی تجویز کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
تاہم یہ سب اب بھی بہت دور کی بات محسوس ہوتی ہے۔ جاپانی قانون نے سنہ 1971 سے واضح طور پر اپنی سرزمین پر کسی بھی جوہری ہتھیاروں کی موجودگی پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ لیکن مسٹر آبے اکیلے نہیں ہیں جو اس پابندی پر اب بحث کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
ریوزو کیٹو دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ میں جاپان کے سب سے طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے سفیر رہے ہیں اور شاید وہ جاپان-امریکہ اتحاد کے سب سے پرجوش وکیل رہے ہیں۔
لیکن ان کا کہنا ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس شمالی کوریا کے پیش نظر جاپان اب صرف امریکی جوہری چھتری پر انحصار نہیں کر سکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ اور ‘کچھ احمق رہنما جاپان پر جوہری ہتھیاروں سے حملہ کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ یا وہ انھیں سیاسی طور پر ڈرانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
’جاپان کو ڈرائے جانے کا کافی خطرہ موجود ہے۔ ہمیں دفاعی لحاظ سے مزید کچھ کرنا ہے۔‘
پروفیسر شیماڈا کا کہنا ہے کہ یوکرین پر روس کے حملے نے جاپان میں اس بابت بات کرنے کی موقع فراہم کیا ہے
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی قابضین نے جاپان کو اس کی امن پسندی کی جانب جھونک دیا۔
اس کو ختم کرنا ہمیشہ ہی بعید از قیاس لگتا رہا ہے لیکن یہ وہ چیز ہے جسے امریکی حکومت اور جاپان کی سیاسی اشرافیہ دونوں کی حمایت حاصل ہے۔
لوئی انسٹیٹیوٹ کے رچرڈ میک گریگور کا کہنا ہے کہ ’بہت سے امریکیوں کی خواہش رہی ہے کہ (کاش) انھوں نے جاپان کو امن کے آئین کے ساتھ پابند نہ کیا ہوتا۔
’ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آبے جیسے لوگ بھی امریکیوں کی طرف سے اس آئین کو ان پر مسلط کرنے سے سخت ناراض ہیں۔
‘وہ جانتے ہیں کہ وہ چین کو خود سے نہیں سنبھال سکتے۔ اور بحرالکاہل کے دونوں طرف امن کے آئین کے تعلق سے (ہتھیار) بیچنے والوں اور خریدار دونوں میں پچھتاوا ہے۔’
درحقیقت، جاپان پہلے ہی ایک حقیقی امن پسند ریاست سے بہت دور جا چکا ہے، چاہے اس کا آئین جو بھی اعلان کرے۔
اس کی بحریہ اب دنیا کی طاقتور ترین بحریہ میں سے ایک ہے اور یہ برطانیہ کی رائل نیوی سے کافی بڑی بحریہ ہے۔ بہر حال جاپان میں طویل فاصلے تک مار کرنے کی صلاحیت کی کمی ہے۔
پروفیسر یوچی شیماڈا کا کہنا ہے کہ اتفاق رائے یہ ہے کہ اب جاپان کو تبدیل ہونا چاہیے۔ ‘یہ پوزیشن کہ جاپان کے پاس ایسے ہتھیار ہونے چاہئیں جو دشمن کے علاقے کو نشانہ بنا سکیں، میں سمجھتا ہوں کہ حکمران لبرل ڈیموکریٹک پارٹی میں سیاستدانوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ جاپان کے پاس ایسی صلاحیت ہونا ضروری ہے۔’
پروفیسر شیماڈا کا کہنا ہے کہ یوکرین کے خلاف ولادیمیر پوتن کی دھمکیوں نے اس مطالبے کو مزید فوری بنا دیا ہے۔
‘صدر پوتن نے دراصل ایک غیر جوہری ریاست کے خلاف جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا حوالہ دیا تھا۔ یہ جاپان کے بہت سے سیاست دانوں کے لیے گیم چینجر کے مترادف ہو سکتا ہے۔
‘روس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں سے ایک ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پوتن سفاک ہیں۔ لیکن یہ ان کے لیے بھی بہت صدمہ انگیز ہو گا۔’
یوکرین کے برعکس، جاپان کا امریکہ کے ساتھ مکمل اتحاد ہے، اور واشنگٹن کا جاپان پر حملہ کرنے والے کسی بھی ملک کے خلاف جوہری ہتھیاروں سمیت جوابی کارروائی کرنے کا عزم ہے۔
یہ اس وقت تک کام کرتا رہا جب جبکہ امریکہ کی دنیا پر واضح بالادستی قائم رہی۔ لیکن ایشیا میں، چین اب تیزی سے امریکہ کے ساتھ فوجی برابری کے قریب آ رہا ہے۔ اور پھر ڈونلڈ ٹرمپ منتخب ہوئے۔
‘دی آبے لیگیسی’ کی مصنفہ ہیرومی موراکامی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد مسٹر ٹرمپ نے کہا کہ آپ کو اپنی حفاظت خود کرنی ہو گی۔
‘انھوں نے واضح طور پر کہا۔ لیکن میرے خیال میں امریکہ کا مجموعی رجحان بنیادی طور پر مسٹر ٹرمپ جیسا ہی ہے۔ اور ایسی صورت میں آپ امریکہ پر مکمل انحصار نہیں کر سکتے۔’
سفیر کیٹو جیسے کچھ لوگوں کا خيال ہے کہ اس تناظر میں امریکہ-جاپان کے اتحاد کو مزید مضبوط کیا جانا چاہیے جبکہ جاپان کو اپنے پڑوس میں دفاع کا زیادہ بوجھ اٹھانا چاہیے۔
پروفیسر شیماڈا کے لیے اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ایک دن جاپان کو اپنا جوہری ڈیٹرنٹ تیار کرنا پڑے گا۔
میں نے جن سے بھی بات کی ان سب نے ایک چیز پر اتفاق کیا اور وہ یہ ہے کہ جاپان کو کسی نہ کسی طرح اپنے دفاع کے بارے میں بات کرنے پر عائد ممانعت سے نکل جانا چاہیے۔
موراکامی کہتی ہیں کہ ’بہت سالوں سے اس سے اجتناب کیا جا رہا ہے۔ لیکن جاپانی قیادت کو واقعی اسے میز پر لانے اور عوام کو دکھانے کی ضرورت ہے۔ ہم اس جعلی دنیا میں مزید (اس طرح) نہیں رہ سکتے۔
‘یوکرین کی صورتحال واقعی چونکا دینے والی ہے، اور مجھے امید ہے کہ یہ قیادت اور عام لوگوں کو واقعی سوچنے پر اکسائے گی۔’
Comments are closed.