آکسفورڈ: آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک ماہر کے مطابق عین ممکن ہے کہ اس دہائی کے آخر تک گاڑیاں بیکنگ پاوڈر اور جہاز کھاد سے چلائے جا رہے ہوں۔
فی الحال لیتھیم آئین بیٹریوں کو پائیدار توانائی کی جانب منتقلی کے عمل میں اہم کردار قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ بیٹریاں ٹیسلا، آئی فونز اور بغیر تار والی ڈرل مشینوں جیسے برقی آلات میں استعمال کی جارہی ہیں۔
جہاں متعدد کمپنیوں کا ماننا ہے کہ ہائیڈروجن سے حاصل کی جانے والی توانائی ایوی ایشن کا ماحول دوست مستقبل ہے۔ لیکن یونیورسٹی آف آکسفورڈ میں آرگینک کیمسٹری کے پروفیسر بِل ڈیوڈ کا خیال ہے کہ عموماً کچن میں استعمال ہونے والا بیکنگ پاوڈر لیتھیم آئن بیٹریوں اور ہائیڈروجن ایندھن پر بازی لے جائے گا۔
پروفیسر بل ڈیوڈ کے مطابق نمک، سمندری پانی اور بیکنگ پاوڈر میں پایا جانے والا سوڈیم مستقبل میں کاروں اور روزمرہ کے گیجٹس میں استعمال ہونے والی بیٹریوں کے طور پر سب پر سبقت لے جائے گا۔
دنیا میں یہ عنصر لیتھیم کی نسبت انتہائی بڑی مقدار میں دستیاب ہے جبکہ کان کنی کے ذریعے حاصل کیا جانے والے لیتھیم کا حصول وقت کے ساتھ دشوار ہوتا جا رہا ہے۔
پروفیسر بِل ڈیوڈ(جو1980 لیتھیم بیٹریاں ایجاد کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے) نے یہ پیشگوئی واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والی امیریکن ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف سائنس کی سالانہ کانفرس سے قبل کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کارکردگی کے اعتبار سے بہترین نہیں ہے اس لیے سائنس دانوں کو دونوں اشیاء کی ضرورت ہوگی۔ لیتھیم اب بھی ان بیٹریوں میں موجود ہوگی لیکن اس کے اطراف سوڈیم کی مقدار زیادہ ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ 2030 تک زیادہ تر برقی گاڑیوں میں نصب بیٹریاں لیتھیم اور سوڈیم سے بنی ہوں گی۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہوگی اگر 2040 تک سوڈیم بیٹریوں کی تعداد لیتھیم بیٹریوں سے 10 گنا زیادہ یا شاید 100 گُنا زیادہ ہوجائے۔
ان کا کہنا تھا کہ سوڈیم بیٹریاں نمک سے بنائی جاسکتی ہیں لیکن بیکنگ پاوڈر کے استعمال کو ترجیح دی جائے گی۔
دوسری جانب جہاں ایوی ایشن کمپنیوں کا یہ خیال ہے کہ ہائیڈروجن توانائی اس شعبے کا ماحول دوست مستقبل ہے وہیں پروفیسر بل ڈیوڈ کا ماننا ہے کہ کھاد میں پایا جانے والا امونیا اس مسئلے کا ایک پائیدار حل ہے۔
Comments are closed.