جنیوا / جارجیا: کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی مکڑی اپنی جسامت سے کہیں بڑے سانپ کا شکار کرکے اسے کھا سکے؟ جدید سائنسی تحقیق نے اس سوال کا جواب ’’ہاں‘‘ میں دیا ہے۔
’’جرنل آف اراکنالوجی‘‘ میں شائع ہونے والے ایک دلچسپ مطالعے میں امریکا اور سوئٹزرلینڈ کے ماہرین نے مکڑیوں کے ہاتھوں سانپوں کے شکار سے متعلق 319 واقعات بیان کیے ہیں جو تقریباً تین سو سالہ ریکارڈ پر موجود ہیں۔
ان میں سے 297 واقعات قدرتی ماحول میں، جبکہ صرف 22 واقعات چڑیا گھروں یا تجربہ گاہوں میں پیش آئے۔
مکڑیوں کے سانپوں پر حملہ کرکے انہیں ہڑپ کرنے کے واقعات براعظم قطب جنوبی (انٹارکٹیکا) کے سوا باقی تمام براعظموں سے رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ ان کی سب سے زیادہ شرح امریکا اور آسٹریلیا سے تعلق رکھتی ہے جو بالترتیب 51 فیصد اور 29 فیصد ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مکڑیوں کا نوالہ بننے والے سانپوں کی زیادہ تر اقسام اوسط یا چھوٹی جسامت والی تھیں جن کی اوسط لمبائی 27 سینٹی میٹر تھی۔ البتہ ان میں ایسے سانپ بھی شامل تھے جو 100 سینٹی میٹر (ایک میٹر) جتنے طویل تھے۔
یہ سانپوں کی 90 سے زیادہ انواع بنتی ہیں جن کا تعلق سات خاندانوں سے ہے۔
دوسری جانب سانپوں کا شکار کرنے والی مکڑیوں کی 40 انواع نوٹ کی گئیں جو 11 خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں۔
علاوہ ازیں ’’تھیرائیڈائیس‘‘ (Theridiis) خاندان سے تعلق رکھنے والی مکڑیاں، سانپوں کو شکار کرنے کے 60 فیصد واقعات میں ذمہ دار ثابت ہوئیں۔
اگرچہ ان کی جسامت صرف 0.6 سینٹی میٹر سے 1.1 سینٹی میٹر ہوتی ہے لیکن پھر بھی یہ مکڑیاں مضبوط اور الجھا ہوا جالا بنا کر سانپوں کا شکار کرتی ہیں اور ان کی دعوت اُڑاتی ہیں۔
ان کے علاوہ، مکڑیوں کی سات اقسام ایک خاص طرح کے اعصابی زہر سے سانپوں کو بے حس و حرکت کردیتی ہیں اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے کھا جاتی ہیں۔
البتہ، ان تمام صورتوں میں کئی مکڑیاں مل کر ایک سانپ کا صفایا کرتی ہیں۔
اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگرچہ مکڑیوں کا شکار بننے والے سانپوں کے واقعات خاصے کم ہیں لیکن پھر بھی ان کی تعداد اس قدر ضرور ہے کہ اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
Comments are closed.