کورنیلیا سورابجی: خواتین کے حقوق کی حامی ہندوستان کی پہلی خاتون وکیل جنھیں زہر دے کر ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی
کورنیلیا سورابجی کی یہ تصویر سنہ 1931 کی ہے
بی بی سی کی نمائندہ کلیئر بوس نے بی بی سی کے پروگرام ’وٹنس ہسٹری‘ میں اُن کے بھتیجے اور تاریخ دان سر رچرڈ سرابجی سے بات کی ہے جنھوں نے کارنیلیا کے بارے میں بہت سی دلچسپ باتیں بتائیں ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ کس طرح کارنیلیا نے تن تنہا لڑتے ہوئے نہ صرف معاشرے میں اپنے لیے جگہ بنائی بلکہ بہت سی خواتین کی جانیں بچائیں۔
آغاز کیسے ہوا؟
کارنیلیا نومبر 1866 میں ناسک میں پیدا ہوئیں۔ اس وقت ہندوستان میں برطانوی راج تھا۔ ان کے والدین پارسی تھے لیکن بعد میں انھوں نے عیسائیت قبول کر لی۔ وہ برطانوی راج سے متاثر تھے اور ان کا خیال تھا کہ ان کے بچوں کی کامیابی کی راہ انگلینڈ سے ہو کر گزرتی ہے۔
کارنیلیا پڑھائی میں اچھی تھیں اور پھر وہ بمبئی یونیورسٹی میں داخلہ لینے والی پہلی خاتون بن گئیں۔ انھوں نے برطانیہ میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکالرشپ بھی حاصل کی۔
رچرڈ سورابجی کی کورنیلیا سورابجی کے ہمراہ تصویر
وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے والی پہلی خاتون بن گئیں، لیکن آخری امتحان میں انھیں مردوں کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت نہیں دی گئی جس کے خلاف انھوں نے اپیل کی۔
بالآخر امتحان شروع ہونے سے چند لمحے قبل، یونیورسٹی نے اپنے قواعد تبدیل کر دیے اور انھیں امتحان دینے کی اجازت دے دی۔ سنہ 1892 میں وہ برطانیہ میں پہلی خاتون تھیں جنھیں بیچلر آف سول لا کے امتحان میں شرکت کی اجازت دی گئی تھی۔
وہ اپنے ایک خط میں لکھتی ہیں: ’میں قانون کی تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی اور جب میری خواہش پوری ہوئی تو مجھے لگا کہ میرا خواب پورا ہو گیا ہے۔‘
رچرڈ سورابجی نے بتایا کہ ’وہ بظاہر بہت پُرسکون نظر آتی تھیں لیکن اندر ہی انھیں بہت کچھ جاننے کی خواہش تھی۔ ان کے اندر ایک قسم کا ہنگامہ برپا رہتا تھا۔‘
برطانیہ کے بعد ہندوستان میں جدوجہد
وہ آکسفورڈ سے قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہندوستان واپس چلی آئیں۔ یہاں وہ بیرسٹر کی حیثیت سے کام کر کے اپنی روزی کمانا چاہتی تھیں، لیکن اس وقت ہندوستان اور برطانیہ میں خواتین کو وکیل کی حیثیت سے پریکٹس کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔
اس وقت ہندوستان میں بہت ساری آزاد ریاستیں ہوا کرتی تھیں۔ کارنیلیا کا کئی شاہی گھرانوں میں آنا جانا تھا۔ وہاں انھوں نے پایا کہ ان گھرانوں کی خواتین کو مردوں کے راج کے تحت رہنا پڑتا ہے۔ انھیں کوئی حق حاصل نہیں تھا۔
ان دنوں ہندوستان میں پردے کا سخت رواج تھا۔ یہاں تک کہ عورتوں کو گھر سے باہر کے مردوں سے بات کرنا تو دور انھیں دیکھنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔
کارنیلیا کو معلوم ہوا کہ بہت سی خواتین خاندان میں مردوں کے مظالم کا شکار تھیں۔ خاندانی پراپرٹی میں بھی ان کا کوئی حق نہیں تھا۔
آواز بلند کرنے پر خواتین کو قتل بھی کر دیا جاتا تھا۔ چونکہ بیرونی لوگوں کے گھروں میں داخل ہونے پر پابندی تھی اور خواتین پر باہر جانے پر پابندی تھی لہذا خواتین پر ہونے والے ظلم و ستم کے بارے میں پولیس اہلکاروں تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔
ایسی صورتحال میں کارنیلیا نے ان خواتین کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ ہندو اور مسلم برادری کی خواتین پر ہونے والے ظلم و ستم اور انصاف کو روکنے کے لیے انھیں حکومت کا قانونی مشیر بنائیں۔ لیکن حکومت نے اس وقت کے قواعد کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا مطالبہ مسترد کر دیا۔
اس کے بعد بھی انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور اس کام کو تن تنہا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگلے 20 سالوں تک انھوں نے ایک وکیل کے ساتھ ساتھ ایک سماجی کارکن اور کبھی جاسوس کا کردار بھی ادا کیا اور 600 سے زائد خواتین کو ان کے حقوق دلائے، انصاف دلایا اور انھیں مردوں کے مظالم سے آزادی دلوائی۔
کئی ریاستوں سے دشمنی مول لی
وہ کسی نہ کسی بہانے ان خاندانوں میں داخل ہوتیں اور خواتین سے دوستی کرتیں اور ان کی حالت کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتیں۔ اور پھر پولیس اور افسروں کی مدد سے انھیں مشکلات سے نکالتیں۔
انھوں نے لکھا ’بعض اوقات مجھے لگتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتی، مجھے بیچ میں ہی اپنا سفر چھوڑنا پڑے گا۔ لیکن دوست مستقل طور پر میری حوصلہ افزائی کرتے رہے اور آخر کار مجھے کامیابی ملی۔‘
رچرڈ سورابجی بتاتے ہیں: ’ایک بار جب وہ ایک خاتون کی قانونی مدد کر رہی تھیں جسے ان کے سسرال والوں نے گزربسر کی رقم دینے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر کارنیلیا کی کوششوں سے وہ لوگ آخرکار اس عورت سے ملنے کے لیے تیار ہوئے۔ انھوں نے یہ ظاہر کیا کہ ان کا ذہن بدل گیا ہے اور وہ اس خاتون کو رقم ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘
’انھوں نے اس عورت کے لیے ایک لباس بھی خریدا جسے وہ بطور تحفہ دینا چاہتے تھے۔ لیکن کارنیلیا کو کچھ شک ہوا۔ ان کا ذہن بہت تیز تھا۔ جب انھوں نے اس لباس کی جانچ کی تو پتہ چلا کہ پورا لباس زہر آلود ہے۔‘
اس طرح انھوں نے اس عورت کی جان بچائی۔ خود کارنیلیا پر بھی کئی بار حملہ ہوا۔ بہت ساری ریاستوں نے ان کو اپنا دشمن سمجھنا شروع کر دیا۔ ان کا خیال تھا کہ خواتین کو مردوں کے تابع ہونا چاہیے اور کارنیلیا ان کے حقوق کی جنگ لڑ کر ان کی ثقافت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ایک بار ایک شاہی خاندان نے انھیں مہمان کی حیثیت سے مدعو کیا اور ان کے کمرے میں ناشتہ بھیجوایا۔ کھانے سے آنے والی بدبو سے کارنیلیا کو کچھ گڑبڑ کا احساس ہوا۔ انوں نے وہ کھانا نہیں کھایا۔ بعد میں اس کی جانچ کرنے پر معلوم ہوا کہ کھانے میں زہر ملا ہے۔
کویتا انڈیا کی پہلی خاتون ریسلر ہیں جو ڈبلیو ڈبلیو ای میں حصہ لے رہی ہیں
جب جج نے کہا ‘آپ انگریزی کے سوا کچھ نہیں جانتیں’
بہت سالوں کے بعد آخر کار سنہ 1919 میں برطانیہ نے قانون میں تبدیلی کی اور خواتین کو قانونی میدان میں آنے کی اجازت دے دی جس سے خواتین کے وکیل اور جج بننے کا راستہ ہموار ہو گیا۔
قواعد میں تبدیلی کی وجہ سے کارنیلیا کا بھی وکیل بننے کا راستہ کھل گیا اور وہ ہندوستان کی پہلی خاتون وکیل بن گئیں۔
انھوں نے لکھا: ‘میں یہ کام کرنا چاہتی تھی تاکہ میں یہ بتاؤں کہ خواتین بھی سب کچھ کرسکتی ہیں۔ تا کہ جو خواتین مردوں کے مظالم کا سامنا کر رہی ہیں انھیں امید کی کرن نظر آئے۔’
لیکن وکیل بننے کے بعد بھی ان کا راستہ آسان نہیں تھا۔ کیونکہ اس وقت جج خواتین کے ساتھ تعصب کا شکار تھے۔ وہ مرد وکلا کی التجا بہت سنجیدگی سے سنتے تھے لیکن خواتین وکلا کو مناسب اہمیت نہیں دیتے تھے۔
انھوں نے لکھا کہ ایک بار جج نے ان کے بارے میں کہا کہ ‘آپ انگریزی اچھی طرح سے جانتی ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ آپ کو کچھ پتہ نہیں ہے۔’
خواتین کو وکالت کے میدان میں داخل ہونے کا کچھ سہرا ان کے سر جاتا ہے۔
برطانیہ کی پہلی خاتون بیرسٹر ہیلینا نورمنٹن نے کہا تھا: ‘کارنیلیا سورابجی نے مضبوط انداز میں خواتین کے حقوق کا دفاع کیا۔ خواتین کو وکالت کیا اجازت دلانے کے لیے انھوں نے جو پرزور لڑائی لڑی اور جدوجہد کی اس کی بدولت آج میں وکیل بن پائی۔’
بعد میں وکالت سے سبکدوش ہونے کے بعد انھوں نے لندن میں سکونت اختیار کرلی۔ وہ 1954 میں 88 سال کی عمر میں لندن میں ہی وفات پا گئیں۔
Comments are closed.