وکٹوریا، کینیڈا: کئی عشروں کے ڈیٹا کی غیرمعمولی چھان بین کرکے سائنسدان بالآخر یہ معلوم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ ہم اپنی ابتدائی ترین عمر کے کس عرصے تک کی باتیں یاد رکھ سکتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوا ہے کہ بعض افراد ڈھائی برس عمر کی باتوں کو یاد رکھتے ہیں کیونکہ یادداشت کا عمل اس عرصے میں شروع ہوجاتا ہے۔
تاہم ہر فرد کی یادداشتی ابتدا کی عمر مختلف بھی ہوسکتی ہے لیکن سائنسدانوں نے اوسط ڈھائی برس پر اتفاق کیا ہے۔ اس کی تفصیلات سائنسی تحقیق جریدے ’میموری‘ میں شائع ہوئی ہے۔ اس ضمن میں 21 برس کا پہلے سے موجودہ ڈیٹا کھنگالا گیا ہے اور اس سے نتائج اخذ کئے گئے ہیں۔
’جب ہم اولین یاد کی بات کرتے ہیں تو وہ کوئی واحد جامد یاد نہیں ہوتی بلکہ ایک متحرک ہدف ہوتا ہے،‘ بچپن کی یادداشت کے ماہر اور میموریئل یونیورسٹی آف نیوفاؤنڈلینڈ کی سائنسداں ڈاکٹر کارول پیٹرسن نے کہا۔ وہ کہتی ہیں کہ جب لوگوں سے اولین یاد کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ کوئی واضح سرحد نہیں ہوتی بلکہ اس سے پیچھے کے دور کی یادیں بھی ہوسکتی ہیں۔ بچوں اور بڑوں میں ہمیں اس کے شواہد ملے ہیں۔ بعض افراد میں شعوری احساس کے بغیر بھی ڈھائی برس سے پہلے کی یاد بھی دوہرا سکتے ہیں۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ لوگوں نے پہلے اپنی یاد کے بارے میں کہا کہ وہ بہت کم عمری کی ہیں لیکن دوبارہ پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ نہیں بلکہ وہ اس وقت قدرے بڑی عمر کے تھے۔ اسی لیے اس 20 سالہ تجربے میں پہلے لوگوں سے ان کی اولین یاد کو ریکارڈ کیا گیا اور اس کے بعد ان کے والدین سے اس کی تصدیق کی گئی۔
اس تحقیق میں پہلے سے موجود ڈیٹا کو استعمال کیا گیا اور کل 992 شرکا سے سوالات پوچھے گئے اور اس کے بعد 697 افراد کی یادوں کی تصدیق ان کے والدین سے کی گئی۔ اس طرح بچے اور والدین کی تصدیق کے بعد ہی اس پر سچائی کی مہر ثبت کی گئی۔ اوسطاً دو سال آٹھ مہینے تک کی یادیں لوگوں کے ذہن میں تازہ تھیں۔
طبی ماہرین نے اس عمل کو ’’ٹیلی اسکوپنگ‘‘ کا نام دیا ہے جو دوربین سے دور تک دیکھنے کے عمل جیسا ہی ہے۔ اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ لوگوں کو اپنے بچپن کی دیگر بہت سی باتیں بھی یاد رہتی ہیں۔
Comments are closed.