اسلام آباد: سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہمارا معاشرہ کرپشن کی بیماری میں مبتلا ہے۔
نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی زیر سربراہی تین رکنی خصوصی بینچ نے عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ اس موقع پر وفاقی حکومت کی جانب سے وکیل مخدوم علی خان عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیلِ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ خصوصی بینچ کے سامنے دلائل میں کہا کہ نیب قانون میں ترمیم کے وقت منظوری ارکان اسمبلی کی اکثریت نے دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ منظوری کے وقت 159 ارکان اسمبلی ایوان میں موجود تھے۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ قانون سازی کے وقت اپوزیشن کاہونا ضروری ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ ایسی کوئی مثال پہلے بھی موجود ہے جس میں کسی رکن پارلیمان نے قانون سازی کو چیلنج کیا ہو؟
وفاقی حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایسا کوئی کیس میرے سامنے نہیں جس میں رکن پارلیمان کی جانب سے قانون سازی کو چیلنج کیا گیا ہو۔ انہوں نے بتایا کہ اس کیس میں درخواست گزار نہ صرف خود رکن پارلیمنٹ ہے بلکہ ملک کا سابق وزیراعظم بھی ہے۔ میں اپنے دلائل میں درخواست گزار کے ذاتی مفاد اور بدنیتی کی بھی وضاحت پیش کروں گا۔
چیف جسٹس کا دوران سماعت کہنا تھا کہ عدالت اس کیس میں نیب قانون کی بہتری دیکھ رہی ہے۔ ضروری نہیں کہ قانون کو کالعدم ہی قرار دیا جائے۔ اس کے علاوہ بھی عدالت کے پاس آپشن موجود ہیں۔ قانون کو آئین کے مطابق ہونے پر ہی آگے بڑھنا چاہیے۔
وفاقی حکومت کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی ایسا قانون قائم نہیں رہ سکتا جو بنیادی حقوق سے متصادم ہو۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالتیں سیاسی فیصلے کرنے کی جگہ نہیں ہیں۔ کیا عدالت متنازع معاملات پر فیصلے کرنے لگے تو کیا مزید تنازعات پیدا ہوتے ہیں؟۔اس کیس میں سیاسی تنازع بھی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کے وکیل نے دلائل میں کہا پاکستان بننے کے وقت سے کرپشن بیماری کی صورت میں موجود ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا معاشرہ کرپشن کی بیماری کا شکار ہے۔ عوامی مفاد اور انفرادی فائدہ اٹھانے والوں کے درمیان توازن ہونا چاہیے۔سوال یہ ہے کہ عدالت نے آئین کا دفاع اور تحفظ کیسے کرنا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین کا مطلب پاکستانی عوام ہیں۔ پبلک آفس ہولڈرز قابل احتساب ہیں۔ انسداد کرپشن قوانین کی وجہ ہی سے عوامی عہدیدار قابل احتساب ہیں۔ اعتماد ہی تمام معاملات کا مرکز ہے۔ ججز بھی عوامی اعتماد کے ضامن ہیں۔ ججز بھی قابل احتساب ہیں۔ ججز پیسے کے قریب بھی نہیں جا سکتے۔
عدالت نے کیس کی اگلی سماعت 12 جنوری تک ملتوی کر دی۔
Comments are closed.