کراچی: امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ 2017نواز لیگ دور کی جعلی مردم شماری کی منظوری کے وقت بھی ایم کیو ایم حکومت کا حصہ تھی اور آج ڈیجیٹل مردم شماری کے نام پر اہل کراچی کے ساتھ دھوکے بازی میں بھی ایم کیو ایم وزارتیں اور حکومتی مراعات لیے ہوئے ہے۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہاکہ کراچی کے عوام کی بڑی بد قسمتی ہے کہ ان کا مینڈیٹ لینے والی پارٹیوں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم نے ہی کراچی کی آدھی آبادی غائب کرنے کے عمل کو قانونی جواز فراہم کیا ۔
انہوں نے کہاکہ کراچی کی آبادی کو کم کرنے پر پیپلز پارٹی بھی کچھ نہیں کہتی اور مجرمانہ طور پر خاموش رہتی ہے کیونکہ کراچی کے عوام کی حقیقی آبادی قانونی طور پر شمار ہوگئی تو اس کے اقتدار کو بھی خطرہ لاحق ہو جائے گا اور سندھ کا وزیر اعلیٰ کراچی سے بھی آسکتا ہے۔
امیر جماعت اسلامی کراچی کاکہنا تھا کہ وفاقی وصوبائی حکومتو ں سے کراچی کے تین کروڑ سے زائد عوام کے جائز و قانونی حقوق کے حصول اور مسائل کے حل جماعت اسلامی کی حقوق کراچی تحریک مسلسل جاری ہے ، بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی نمبر ون پارٹی بن کر سامنے آئی ہے ، سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کچھ بھی کر لے مئیر ہمارا ہی ہو گا ۔
حافظ نعیم الرحمن نے مزید کہا کہ ہماری درست تعداد شمار نہ ہونے کی وجہ سے ہی وسائل میں حصہ اور ملازمتوں میں کوٹہ کم ملتا ہے اور سندھ میں دیہی و شہری تقسیم کی بنیاد پر بھی الگ سے کوٹہ سسٹم لاگو ہو تا ہے اگر آبادی کا درست شمار ہو جائے تو سندھ میں ایک توازن قائم ہوجائے گااور وڈیروں و جاگیرداروں کے مقابلے میں عوام کی قوت اور طاقت سامنے آئے گی ، قومی و صوبائی اسمبلی میں نمائندگی بھی بڑھے گی۔
انہوں نے کہاکہ پی ایف سی ایوارڈ میں کراچی کا شیئر پہلے سے زیادہ ہو گا ،پیپلز پارٹی این ایف سی ایوارڈ کی بات تو کرتی ہے لیکن پی ایف سی ایوارڈ میں کراچی کو اس کا جائز اور قانونی حصہ نہیں دیتی ۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ایک بار پھر کراچی کی آبادی کو کم کرنے کوششیں کی جارہی ہیں ، پہلے مینویل(Manual) طریقے سے حق مارا گیا اب ڈیجیٹل طریقے سے کراچی کے وسائل اور نمائندگی پر ڈاکا ڈالنے کی منصوبہ سازی کر لی گئی ہے ، ہمارا واضح اور دو ٹوک موقف ہے کہ کراچی میں رہنے والے ایک ایک فرد کو کراچی میں ہی شمار کیا جائے ، مستقل پتے کی بنیاد پر اگر اس بار بھی ڈیٹا فائنل کیا گیا تو کراچی کے ساتھ بڑا ظلم اور زیادتی ہو گی جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا ۔
Comments are closed.