ڈیرہ اسماعیل خان:وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ گزشتہ 15، 16 ماہ کے قلیل عرصے میں ہمیں تاریخ کے مشکل ترین چیلنجز ملے،میں نے اپنے سیاسی کریئر میں ایسے چیلنجز کا سامنا نہیں کیا،ریاست کو بچانے کیلئے بڑی قیمت ادا کی،قدم نہیں ڈگمگائے،اس کو کہتے ہیں سر منڈاتے ہی اولے پڑ گئے،ہماری مخلوط حکومت نے فیصلہ کیا کہ ہم سیاست کو قربان کردیں گے مگر ریاست کو بچا لیں گے، یہی وہ فیصلہ تھا جس کی خاطر ہم ڈٹ گئے،مجھے امید ہے کے رواں برس کپاس کی ریکارڈ فصل پیدا ہونے والی ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ آج میرا ڈیرہ اسمعیل خان کا چوتھا دورہ ہے، میرے لیے بہت عزت کی بات ہے کہ آپ کے سامنے ایک بار پھر حاضر ہوں۔
انہوں نے کہا کہ 15، 16 ماہ کے قلیل عرصے میں ہمیں تاریخ کے مشکل ترین چیلنجز ملے، اس کو کہتے ہیں سر منڈاتے ہی اولے پڑ گئے، 11 اپریل 2022 کو جب میں نے اقتدار سنبھالا تو مجھے احساس تھا کہ حالات بہت مشکل ہیں لیکن اس کا اندازہ نہں تھا کہ حالات حد درجہ تباہ کن ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب اقتدار سنبھالا تو تاریخ کا بدترین سیلاب آیا جس کی بحالی کے لیے ہم نے 100 ارب روپے خرچ کیے لیکن سیلاب زدگان کا حق ہم آج بھی ادا نہ کر سکے، اس کی وجہ وسائل کی شدید قلت ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں نے اپنے سیاسی کریئر میں ایسے چیلنجز کا سامنا نہیں کیا، مولانا فضل الرحمن، پیپلزپارٹی اور دیگر زعما سمیت خود میرے قائد نواز شریف عوام پر مہنگائی کے بوجھ کی وجہ سے پریشان تھے اور مجھ سے سوال کرتے تھے کہ کیا بنے گا؟
انہوں نے مزید بتایا کہ میرا جواب یہی ہوتا تھا اور یہی رہے گا کہ نیازی حکومت نے اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے ریاست کو قربان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جبکہ ہماری مخلوط حکومت نے فیصلہ کیا کہ ہم سیاست کو قربان کردیں گے مگر ریاست کو بچا لیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہی وہ فیصلہ تھا جس کی خاطر ہم ڈٹ گئے ورنہ اگر ملک قربان ہوجاتا تو کہاں کہ سیاست اور کہاں کی وزارت عظمی، ہم نے اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے لیکن ہمارے قدم نہیں ڈگمگائے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا مجھے امید ہے کے رواں برس کپاس کی ریکارڈ فصل پیدا ہونے والی ہے، ہمیں گندم اور کپاس منگوانے کے لیے جو اربوں ڈالر خرچ کرنا پڑتے تھے اس میں بہت کمی آجائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں آئی ایم ایف سے معاہدے کرنے کے لیے دن رات پاپڑ بیلنے پڑے، 9 مئی کا سانحہ ہوا، عمران خان کی انتشار پسندی نے ملک میں سرمایہ کاری اور انتشار پسندی کو جامد کردیا تھا، ہمارے مالی وسائل محدود ہو چکے تھے لیکن اللہ کے فضل سے ہم ڈیفالٹ سے بچ گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم دیوالیہ ہوجاتے تو باہر کے بینک ہمارے لیٹر آف کریڈٹس(ایل سیز)قبول کرنے سے انکار کردیتے، پاکستان میں دوا اور روٹی کے لالے پڑ جاتے، صنعت کو کاری ضرب لگتی، یہ قیامت تک ہمارے ماتھے پر کالا دھبہ ہوتا اور میری قبر پر بھی کتبہ لگتا کہ اس کے دورِ حکومت میں ملک دیوالیہ ہوگیا تھا۔
وزیراعظم نے کہا کہ آج پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے، 75 برس میں ہم سے فاش غلطی ہوئی کہ ہم نے پن بجلی کے منصوبوں پر توجہ نہیں دی، تیل، بجلی اور گیس کے منصوبوں پر ارب کھرب لگ گئے، اس کا آدھا سرمایہ بھی داسو اور دیامر بھاشا ڈیم پر لگاتے تو آج پاکستان کی معاشی صورتحال یہ نہ ہوتی اور ہمیں کشکول کی ضرورت نہ پڑتی۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ آئی ایم ایف کی شرط ضرور تھی لیکن اس کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی آپشن بھی نہیں تھا، ہماری بجلی کی ترسیل میں بیپناہ لائن لاسز ہوتے ہیں، ہمارے پاس بجلی کی تسیل کا فرسودہ نظام ہے، بڑے بڑے سرمایہ کار بجلی چوری کرتے ہیں اور آدھے پونے داموں میں بل ادا کرتے ہیں، اس سے پاکستان کو سالانہ 400 سے 450 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا میں ان ترقیاتی منصوبوں کے لیے سب کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں لیکن یہ کام آٹے میں نمک کے برابر ہے، اگر اس قوم کی حالت بدلنی تو کشکول توڑنا ہوگا، شہنشاہی اخراجات اور کرپشن کو ختم کرنا ہوگا، ان شا اللہ ہم مل کر اس ملک کی تقدیر بدلیں گے۔
Comments are closed.