ڈینیئل پرل کے قتل کا مقدمہ: استغاثہ کی وہ کمزوریاں جو پاکستان میں ملزمان کی رہائی کا باعث بنیں
بریگِیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ چاہتے تھے کہ ملزم احمد عمر شیخ کو باقاعدہ قانونی طریقے سے پولیس کے حوالے کیا جائے۔
حیران کُن بات یہ تھی کہ احمد عمر شیخ کی گرفتاری سے قبل موہنی روڈ لاہور سے ان کے ضعیف دادا شیخ محمد اسماعیل، چچا طارق اسماعیل کے علاوہ احمد عمر شیخ کے جوہر ٹاون لاہور میں رہائش پذیر سسرالی رشتہ داروں کو غیر قانونی طو پر اٹھا لیا گیا تھا۔
ان کے خاندان کو مبینہ طور پر دھمکیاں بھی دی گئی تھیں کہ اگر احمد عمرشیخ کو پیش نہ کیا گیا تو گھر کی خواتین کو بھی اٹھا لیا جائے گا۔
احمد عمر شیخ کے ایک ماموں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تھے اور ان دنوں مظفر گڑھ میں تعینات تھے۔ انھوں نے سارے معاملے کو دیکھ کر اور گھر والوں کے کہنے پر احمد عمر شیخ کو گرفتاری دینے پر آمادہ کیا۔
عمر شیخ کے اہلخانہ کے خلاف کارروائی صرف پولیس ہی نہیں کر رہی تھی بلکہ قانون نافذ کرنے والے دوسرے ادارے بھی کافی سرگرم تھے۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل جاوید نور نے ہوم سیکریٹری کو بتایا کہ وہ اپنی رہائش گاہ پر موجود ہیں تو ہوم سیکریٹری اعجاز شاہ ملزم احمد عمرشیخ، ان کے والد سعید احمد شیخ اور ان کے ماموں شیخ عبدالرؤف کے ہمراہ جاوید نورکے گھر پہنچے۔
جاوید نور نے اپنے ڈرائنگ روم میں سب کو بٹھایا۔
بریگیڈیئر اعجاز شاہ نے سارا معاملہ جاوید نور کو بتایا اور یوں ملزم احمد عمر شیخ کی گرفتاری کے قانونی تقاضے پورے کیے گئے اور ان کی رضاکارانہ گرفتاری عمل میں آ گئی۔
گرفتاری کے بعد احمد عمر شیخ سے پولیس اور خفیہ اداروں نے پوچھ گچھ کی اور 12 فروری کو انھیں پی آئی اے کی پرواز میں مکمل سکیورٹی کے ساتھ کراچی بھیج دیا گیا
گرفتاری کے بعد احمد عمر شیخ سے پولیس اور خفیہ اداروں نے پوچھ گچھ کی اور 12 فروری کو انھیں پی آئی اے کی پرواز میں مکمل سکیورٹی کے ساتھ کراچی بھیج دیا گیا۔
یہ کہانی مجھے اُس وقت کے ڈی آئی جی جاوید نور نے کئی سال پہلے سنائی تھی جس کی تصدیق اکتوبر 2016 میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجازشاہ نے اپنے لاہور میں واقع گھر میں مجھ سے ملاقات میں بھی کی تھی اوربتایا تھا کہ دراصل انھوں نے اس گرفتاری میں ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
حیران کُن بات تو یہ ہے کہ جب ڈینیئل پرل کیس کی سماعت شروع ہوئی تو پولیس نے عدالت میں پیش کیے گئے چالان میں مؤقف اختیار کیا کہ عمر سعید شیخ کو 13 فروری 2002 کو کراچی ایئرپورٹ سے گرفتار کیا تھا جبکہ عمرشیخ نے اپنا اعترافی بیان دیا کہ اس نے خود چھ فروری 2002 کو گرفتاری پیش کی اور اسے 12 فروری کو پی آئی اے کی پرواز سے کراچی لایا گیا۔
شیخ کی طرف سے عدالت میں اپنے دفاع کے لیے دو گواہ پیش کیے گئے، ایک ان کے اپنے والد سعید احمد شیخ اور دوسرا ان کے ماموں ڈسٹرکٹ سیشن جج شیخ عبدالرؤف تھے۔
دونوں نے عمر شیخ کے مؤقف کی تصدیق کی لیکن اس کے علاوہ عمرشِیخ کے وکیل محمود اے شیخ ایڈووکیٹ کی طرف سے عدالت میں عمرسعید شیخ کی گرفتاری کے حوالے سے اخباری خبروں کے تراشے اور پی ٹی وی کی فوٹیج بھی پیش کی گئی۔ جس پر استغاثہ کچھ نہ کہہ سکی۔
پولیس نے اس اہم ترین کیس میں احمد عمرشیخ کی گرفتاری پر جھوٹ کیوں بولا ؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
فوجداری قوانین کے ماہرین کا کہنا ہے کہ استغاثہ کی یہ حکمت عملی ٹرائل کورٹ میں تو کام کر گئی لیکن جب اسے ہائیکورٹ کی کسوٹی پر پرکھا گیا تو استغاثہ کا یہ داؤ، جسے جوا بھی کہا جا سکتا ہے، چل نہیں سکا۔
استغاثہ نے یہ مقدمہ جس طرح پیش کیا اس میں اوپر بیان کیے گئے نکات کے علاوہ بھی کئی جھول ہیں جنھیں سامنے لانے کے لیے وکیل صفائی کو زیادہ محنت نہیں کرنا پڑی۔
ملزمان کی راولپنڈی کے ہوٹل میں موجودگی اور اغوا کی سازش
اغوا کے بعد اغواکاروں کی جانب سے ڈینیئل پرل کی جاری کردہ تصویر
استغاثہ کے مطابق قتل کی منصوبہ بندی 11 جنوری 2002 کو اکبر انٹرنیشنل ہوٹل راولپنڈی میں کی گئی۔ لیکن ان کے وکیل یہ ثابت نہیں کر سکے کہ اس مقدمے کے دیگر دو ملزمان فہد نسیم اور سید ثاقب سلمان بھی اس وقت عمر شیخ کے ہمراہ راولپنڈی کے ہوٹل میں موجود تھے اور نہ ہی یہ ثابت کر سکے کہ یہ سازش کراچی میں تیار کی گئی جس میں یہ دونوں شریک ملزمان بھی موجود ہو سکتے تھے۔
اس طرح استغاثہ کی طرف سے عمر شیخ کے ہمراہ دیگر دو ملزمان یعنی فہد سلیم اور ثاقب سلمان کی ہوٹل میں عدم موجودگی نے اس بات کو کمزور کر دیا کہ اغوا برائے تاوان اور قتل کی منصوبہ بندی ان تینوں نے اس ہوٹل میں مل کر کی تھی۔
اس کے بعد عمرشیخ ڈینیئل پرل کو فون کرتے ہیں اور انھیں کراچی بلایا جاتا ہے۔ 23 جنوری 2002 کو ڈینیئل پرل سی پی ایل سی کے افسر یوسف جمیل سے ملتے ہیں۔ یوسف جمیل نے گواہی دی ہے کہ ان کے سامنے پرل کو کسی کا فون آیا جسے پرل نے کہا کہ ‘میں آپ کے دفتر کے قریب ہوں مجھے یاد ہے میں نے آپ سے ملنا ہے۔’
عمر شیخ کا غلط فون نمبر؟
ڈینیئل پرل یوسف جمیل کے دفتر سے نکلتے ہیں اور بشیر سے ملنے چل پڑتے ہیں۔ یہاں بشیر وہ شخص ہے جو جس کا اصل نام عمراحمد شیخ کے طور پر بعد میں سامنے آتا ہے۔
یوسف جمیل سے ملاقات کے بعد ڈینیئل پرل کو ناصرعباس نامی ٹیکسی ڈرائیور نے میڑو پول ہوٹل اتارا اور یہی وہ لمحہ تھا کہ جب امریکی صحافی کو آخری بار زندہ حالت میں دیکھا گیا۔
ٹیکسی ڈرائیورکے مطابق جونہی اس کی ٹیکسی رُکی اس کے سامنے ایک سفید رنگ کی کرولا گاڑی آئی جس میں سے ایک شخص امریکی صحافی سے ملا اور وہ چلے گئے۔
عدالت میں استغاثہ کی طرف سے ڈینیئل پرل کو موصول ہونے والی کال کا ڈیٹا اور فون نمبر بھی پیش کیا گیا جس سے ثابت ہوا کہ مذکورہ فون نمبر احمد عمرشیخ کا نہیں بلکہ کراچی میں مسٹر صدیقی نامی کسی شخص کا ہے ۔ یعنی یہ بات بھی غلط نکلی۔
ملزمان کے اعترافی بیان اور مجسٹریٹ کا اضافی نوٹ
21 فروری 2002 میں پاکستانی حکام کو ایک ویڈیو موصول ہوئی جس میں ڈینیئل پرل کی ہلاکت دکھائی گئی تھی
ماہرین کے مطابق عدالت میں کمزور پیروی کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ ڈینیئل پرل قتل کیس میں فہد سلیم احمد اور سید سلمان ثاقب دو ایسے کزن ملزمان تھے کہ جن کے اعترافی بیان پر استغاثہ یا پولیس کے کیس کی ساری عمارت کھڑی تھی۔
دونوں پر الزام تھا کہ انھوں نے ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد عمر شیخ کی ہدایت پر ای میل کے ذریعے ڈینیئل پرل کی اہلیہ سمیت دیگر افراد کو امریکی صحافی کے اغوا کی تصاویر کے ہمراہ اطلاع دی۔ اورپھر 30 جنوری 2002 کو آخری ای میل کے ذریعے پرل کی رہائی کو اس وقت پاکستان سے حراست میں لیے گئے افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کی رہائی ، پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی فراہمی اور کیوبا میں قید مسلم قیدیوں کی رہائی وغیرہ کے مطالبات سے مشروط کیا گیا۔
یہ مطالبات 24 گھنٹوں میں پورے نہ کرنے کی صورت میں ڈینیئل پرل کے قتل کی دھمکی دی گئی تھی۔ ان ملزمان کے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے دیے گئے اعترافی بیانات کے مطابق انگریزی اور اردو زبان میں ہاتھ سے لکھے گئے مطالبات انھیں عمر شیخ نے فراہم کیے تھے۔
دراصل آخری ای میل فہد نسیم کی طرف سے اپنے ایک عزیز کے گھر سے کی گئی تھی۔ عمرشیخ نے دونوں کو سختی سے منع کیا تھا کہ کوئی بھی اپنے گھر سے ای میل نہیں کرئے گا۔
فہد نسیم کی طرف سے اپنے عزیز کے گھر سے کی گئی ای میل سے ہی سارے کیس کا بظاہر سراغ لگا اور اس وقت ملزمان ایک ایک کر کے گرفتار ہوئے۔
دونوں ملزمان کے اعترافی بیان جوڈیشل مجسٹریٹ اِرم جہانگیر نے ریکارڈ کیے تھے اور ان بیانات کے رضاکارانہ نہ ہونے کے بارے میں ان بیانات پر ایک واضح نوٹ بھی لکھا تھا۔ یہی وہ نوٹ تھا جس نے دونوں ملزمان کے اعتراف کو مشکوک بنا دیا۔ قانون کے مطابق مجسٹریٹ کے سامنے رضاکارانہ طور پر ہی دیے گئے بیانات کی اہمیت ہوتی ہے۔ قانون کے مطابق ایسے بیانات رضا کارانہ طور پر بغیر کسی دباؤ کے ریکارڈ کروائے جائیں تو یہ ناقابل تردید ہوتے ہیں۔
مگر حیران کن طور پر بیانات ریکارڈ کرنے والی جوڈیشل مجسٹریٹ نے خود ہی تسلیم کیا کہ وہ بیانات رضاکارانہ طور پر ریکارڈ نہیں ہوئے؟ ایسا کیوں کیا گیا؟ اگر یہ ان کی مکمل ایماندارانہ رائے تھی کہ ملزمان کا بیان رضاکارانہ نہیں تو پولیس نے مجسٹریٹ کے سامنے لیے گئے ایسے اعترافی بیان پر انحصار کیوں کیا کہ جس میں واضح طور پر مجسٹریٹ نے بیانات کے رضاکارانہ نہ ہونے کا نوٹ لکھا ہو؟
ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کے پاس سندھی لٹریچر کی ڈگری
امریکی اخبار وال سٹریٹ جنرل کے جنوبی ایشیا میں نمائندے ڈینیئل پرل 23 جنوری 2002 کو کراچی سے لاپتہ ہوئے تھے
استغاثہ کی ناکامی کا ایک اور ثبوت عدالت میں غلام اکبر نامی ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کو پیش کرنا تھا کہ جس کے پاس ہینڈ رائٹنگ کے شعبے میں تعلیم کی بجائے سندھی لٹریچر کی ڈگری تھی۔
غلام اکبر وہ اہم شخص تھا کہ جس نے ڈینیئل پرل کے تاوان کے لیے ہاتھ سے لکھی دو تحریروں پر اپنی رائے دینا تھی۔ انگریزی میں لکھی تحریراحمد عمر شیخ کی تھی جبکہ اردو میں لکھی تحریر عادل نامی شخص کی تھی۔
یہ وہ تحریریں تھیں جو مبینہ طور پر شیخ نے فہد نسیم اور سلمان ثاقب کو دی تھیں اور جن کی روشنی میں انھوں نے دنیا کو پرل کے اغوا اور بعد میں رہائی کے بدلے تاوان کے مطالبات سے آگاہ کیا تھا۔
لیکن احمد عمر شیخ کے وکیل محمود احمد شیخ نے ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ سے اس کی قابلیت اور متعلقہ شعبے میں اہلیت کے سوال جواب میں ثابت کر دیا کہ اس کی رائے پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح پولیس نے غیر متعلقہ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ پر انحصار کر کے کیس برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
ملزمان کے زیر استعمال کمپیوٹر میں پولیس نے رد و بدل کیا
سلمان ثاقب اور فہد نسیم کے معاملے کو مزید دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ جس لیپ ٹاپ سے ان افراد کی طرف سے ڈینیئل پرل کے اغوا کی اطلاع دی گئی تھی دراصل یہ لیپ ٹاپ دو فروری کو ان ملزمان کی گرفتاری کے موقع پر برآمد کیا گیا تھا مگر اس کی برآمدگی کے بارے میں بھی استغاثہ نے اپنے ہی بیانات میں تضاد پیدا کیے۔
پولیس کا مؤقف تھا کہ ملزمان سے لیپ ٹاپ 11 اور 12 فروری کی درمیانی شب برآمد کیا گیا ہے جبکہ عدالت میں پیش کیے گئے امریکی ایف بی آئی کے کمپیوٹر فرانزک ماہر اور گواہ رونالڈ جوزف کے مطابق اسے پاکستان آنے سے دو روز پہلے یعنی 29 جنوری 2002 کو بتایا گیا کہ اس نے پاکستان میں ایک لیپ ٹاپ کا جائزہ لینا ہے ۔
امریکی فرانرک ماہر چار فروری 2002 کو پاکستان پہنچا تھا اور اسی شام اسے کمپیوٹر دیا گیا جس پر وہ چھ روز روزانہ چار سے چھ گھنٹے کام کرتا رہا۔ عدالت نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ اگر امریکی ماہر کو اس لیپ ٹاپ کمپیوٹر کے بارے میں 29 جنوری کو اطلاع دی گئی تو ڈینیئل پرل کے تاوان کے سلسلے میں کی گئی اخری ای میل 30 جنوری 2002 کو کیسے آئی؟ فرض کریں کہ اگر یہ کمپیوٹر اسرا نعمانی کا تھا جو ڈینیئل پرل کی ساتھی تھیں اور جس کے کمپیوٹر پر ملزمان کی بھیجی گئی ای میلز پڑھی جا رہی تھیں تو پولیس نے اس کمپیوٹر کی برآمدگی کا بھی کوئی ذکر کیا ہے نہ ثبوت دیا ہے۔
عدالت نے واضح طور پر کہا کہ یا تو کمپیوٹر کی برآمدگی کا وقت غلط لکھا گیا ہے یا پھر ایف بی آئی کے ماہر کا بیان غلط ہے، اس بنیاد پر عدالت کو شک ہوا کہ دراصل کمپیوٹرمیں تبدیلیاں لا کر امریکی ماہر کو دیا گیا۔
استغاثہ کی اس غلطی کے باعث ڈینیئل پرل قتل کیس میں برآمد کیا گیا اہم ترین ثبوت بھی اپنی افادیت کھو بیٹھا اور عدالت نے واضح طور پر کہا کہ ایسے کمپیوٹر کے بارے میں تیار کی گئی فرانزک رپورٹ پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح یہ ثبوت بھی ضائع ہوگیا۔
آلہ قتل برآمد ہوا نہ استغاثہ ڈینیئل پرل کے قتل کو ثابت کر سکی
حیران کن بات تو یہ ہے کہ امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل کو 18 سال بیت گئے مگر آج تک آلہ قتل برآمد نہیں ہو سکا۔ عدالت میں امریکی صحافی کے قتل کے ثبوت کے طور پر واحد ثبوت ایک فلم پیش کی گئی تھی اور وہ بھی کراچی پولیس کی بجائے امریکی ایف بی آئی کے افسر جوہان ملیگان کی طرف سے، اور کہا گیا کہ یہ فلم انھیں ایک سورس (ذریعے) سے ملی ہے۔
فلم میں ڈینیئل پرل کو قتل ہوتے تو دکھایا گیا ہے مگر اور کوئی شخص موجود نہیں یعنی عدالت میں استغاثہ امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل کو ثابت نہ کر سکی۔ آلہ قتل پیش ہوا نہ مقتول کی لاش یا اس کی لاش کے برآمد کیے گئے ٹکڑوں کی رپورٹ کہ واقعی ڈینیئل پرل قتل ہوئے ہیں۔
صرف ایک ویڈیو پیش ہوئی جس کے بارے میں امریکی قونصل جنرل نے جرح کے دوران تسلیم کیا کہ یہ فلم کسی سٹوڈیو میں بنائی گئی ہے۔ پولیس کوئی ایسا ثبوت نہ لا سکی جس کے باعث یہ بھی ثابت ہوتا ہو کہ عمرشیخ اس فلم کی ریکارڈنگ کے دوران موقعہ پر موجود تھے۔
سندھ ہائیکورٹ میں عمرشیخ کے وکیل محمود احمد شیخ کی طرف سے کیس کی سماعت کے دوران 26 عدالتی حوالے دیے گئے جبکہ استغاثہ کی طرف سے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سلیم اختر برڑو کی طرف سے اس اہم کیس میں دس کے قریب حوالے دیے گئے۔ فوجداری مقدمات میں ان حوالہ جات کو کلیدی اہمیت کا حاصل سمجھا جاتا ہے۔
Comments are closed.