کراچی :امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے الیکشن کمیشن پیپلز پارٹی کی بی ٹیم بنا ہوا ہے، ڈپٹی کمشنرز (ڈی سیز) کو ڈیٹا تک رسائی دےکر مردم شماری میں ایک بار پھر دھاندلی کی راہ ہموار کردی گئی ہے مردم شماری پر ہمارے تحفظات دور کیے جائیں۔
دفتر جماعت اسلامی کراچی ادارہ نور حق میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ مردم شماری میں شفافیت کے حوالے سےکیےگئے وعدے ایک بات پھر جھوٹے ثابت ہو رہے ہیں، عملے کو بھی ٹیبلٹ میں مسائل کا سامنا رہا، سندھ حکومت کو خوش کرنے کے لیے اے سیز اور ڈی سیز کو ڈیٹا تک رسائی دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم مردم شماری کو ریڈ لائن سمجھتی ہے لیکن وزارتیں نہیں چھوڑ رہی، مردم شماری سے متعلق شکوک میں اضافہ ہو رہا ہے، ڈیٹا تک رسائی نہیں دی جارہی، یہ ڈنڈی مارنےکی کوشش ہے۔
میئر کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کے وزرا نے بلاول بھٹو کو جھوٹے خواب دکھائے، جعلی مینڈیٹ سے کراچی پر قبضہ کرنے نہیں دیں گے، بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی جماعت اسلامی کا مینڈیٹ تسلیم کرے، میئر جماعت اسلامی کا ہی ہوگا۔
مہنگائی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کہنا تھا کہ کراچی سمیت پورے ملک میں بدترین مہنگائی ہے،رمضان المبارک کے ماہ میں مہنگائی میں مزید اضافہ کردیا ہے،کراچی کے عوام کے لیے سحر و افطار کرنا مشکل کردیا گیا ہے،جماعت اسلامی نے شہر کے مختلف مقامات پر سستے بازار لگائے ہیں اور ماہ رمضان میں عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی ہے،حکومت کی زمہ داری ہے کہ بد ترین مہنگائی کو کم کرکے عوام کو ریلیف فراہم کرے،بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ میں اضافہ کردیا گیا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی جماعت اسلامی کے حقیقی مینڈیٹ کو تسلیم کریں،ملک کی سب سے بڑی بد قسمتی ہے کہ الیکشن کمیشن پیپلز پارٹی کی بی ٹیم کا رول ادا کررہا ہے،6 نشستیں جن کا نوٹس ازخود الیکشن کمیشن نے کیا تھا اس کا فیصلہ ری کاونٹنگ کے نام پر جاری کردیا گیا،ہم نے مطالبہ بھی کیا تھا کہ 6 نشستوں کے تھیلوں کو سیلز کی جائیں اور آراوز اور ڈی آراوز سے لیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ دو ماہ کی تاخیر کے بعد پیپلز پارٹی کے آراوز اور ڈی آراوز نے تھیلوں سے ووٹ نکال کر ووٹ تبدیل کیے،جماعت اسلامی نے 66 نشستوں پر ری کاونٹنگ کا مطالبہ کیا تھا،الیکشن کمیشن نے 66 نشستوں کے بجائے 17 نشستوں میں ری کاونٹنگ کا فیصلہ جاری کردیا ،ضلع غربی کی 6 نشستوں میں ری کاونٹنگ کا مسئلہ ہی نہیں تھا دو ماہ تک فیصلہ محفوظ کرنے کے بعد ری کاونٹنگ کا کیوں کہا گیا۔
Comments are closed.