اسلام آباد: سپریم کورٹ نے حکومت کو ای سی ایل ترامیم پر اٹھنے والے اعتراضات کو ختم کرنے اور ترامیم کو قانونی دائرے میں لانے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت دیدی۔
عدالت عظمیٰ میں حکومتی شخصیات کی تحقیقاتی اداروں میں مبینہ مداخلت کے کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے ای سی ایل ترامیم کو قانونی دائرہ میں لانے کے لیے حکومت کو ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ عمل نہ ہونے کی صورت میں حکم جاری کریں گے۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایسے ملزم کا نام بھی ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال دیا گیا جو عدالت عظمیٰ نے شامل کروایا تھا۔ نیب مقدمات کے نام ای سی ایل میں کون شامل کرواتا ہے؟۔
چیف جسٹس کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ای سی ایل میں نام چیئرمین نیب کی ہدایت پر شامل کیے جاتے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب ہے نیب سوچ سمجھ کر ہی نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کہتا ہے۔ نیب کا ہر کیس ہی کرپشن کا ہوتا ہے لیکن نیب ہر ملزم کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں کرواتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کے مطابق اربوں روپے کی کرپشن کے ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ بہتر ہوتا کہ ہر کیس کا الگ جائزہ لے کر نام نکالے جاتے۔ حکومت کہتی ہے کہ بیرون ملک جانا بنیادی حق ہے، اگر ایسا ہے تو ای سی ایل کا کیا جواز رہ گیا ہے؟۔
اٹارنی جنرل کا سماعت کے دوران کہنا تھا کہ میری رائے میں تو ای سی ایل ہونی ہی نہیں چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیس میں ذاتی رائے پر نہیں جائیں گے۔ ممکن ہے عدالتی حکم مشکلات پیدا کرے، لیکن ایک ہفتے میں مناسب اقدامات کرلیں۔ ہم ایگزیکٹو اختیارات میں فی الحال مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔
جسٹس منیب اختر کے استفسار کہ ای سی ایل ترامیم کا گزشتہ تاریخوں سے نفاذ کا فیصلہ کس نے کیا؟ جواب دیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ نام نکالنے اور گزشتہ تاریخوں سے نفاذ کا فیصلہ سب کمیٹی کی سفارشات پر ہوا۔
سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران ایف آئی اے کے ڈی جی لاء نے کہا کہ شرجیل میمن سمیت 8 افراد ملک سے باہر گئے اور واپس نہیں آئے۔ چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ اگر کوئی زبردستی کیس بنوانے کی بات کرے تو عدالت کو آگاہ کریں۔ آپ سول سرونٹ ہیں، کسی کی مداخلت تسلیم نہ کی جائے۔
عدالت نے ایف آئی اے اور نیب کے ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ مانگتے ہوئے حکم جاری کیا کہ تمام ثبوتوں اور ریکارڈ کی سافٹ کاپی عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی جائے۔ اگر ریکارڈ گم ہوا تو سپریم کورٹ سے آپ کو مل جائے گا۔
پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت سے کہا کہ نیب کو مقدمات کا جائزہ لینے کے لیے وقت دیا جائے۔ چیئرمین نیب کی تعیناتی کے بعد ہی احکامات پر عمل ممکن ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ چیئرمین نیب کے حوالے سے توقع ہے حکومت سوچ سمجھ کر تعیناتی کرے گی۔ معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں، حکومت سے اچھی توقع ہے کہ صاف، ایماندار، قابل اور نیک نام شخص کو چیئرمین نیب لگایا جائے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ توقع ہے جو کہنا چاہ رہا ہوں آپ سمجھ گئے ہونگے۔ نیب بھی یقینی بنائے کہ اس کا ادارہ کسی کے خلاف انتقام کے لیے استعمال نہ ہو۔
چیف جسٹس نے کہا عدالت کو تشویش آزادانہ تفتیش اور ٹرائل کے حوالے سے ہے۔ نظام انصاف کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ پاکستان کی عدلیہ 128 ویں نمبر پر ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کی رینکنگ ڈیٹا نہیں بلکہ تاثر کی بنیاد پر کی گئی۔
عدالت نے از خود نوٹس کی مزید سماعت 14 جون تک ملتوی کر دی۔
Comments are closed.