امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ امن و امان سے متعلق صوبے کی صورتحال پر احتجاج 50 سے مقامات پر ہوئے جبکہ احتجاج کا سلسلہ آج بھی جاری رہیگا .اسٹریٹ کرائم کا مسلسلہ عرصہ دراز سے ہے، چھینا جھپٹی میں گولیاں مارنے کا سلسلہ اب بڑھتا جارہا ہے.صحافی اطہر متین کے واقعے کے بعد یہ معاملہ ملکی سطح کا مسئلہ بن چکا ہے. انہوں نے کہا کہ پولیس میں صرف 37 ہزار اہلکار کراچی میں ہیں، آدھے پولیس اہلکار پروٹوکولز میں چلتے ہیں. آفیشل ڈیوٹی پر 5 سے 6 ہزار اہلکار ہوتے ہیں، اسپیشل یونٹ میں 5 سے 6 ہزار اہلکار ہیں، ایس ایس یو کا لا اینڈ آرڈر سے کوئی واسطہ نہیں. حالانکہ یہ محکمہ عام ڈیوٹی پولیس کے برعکس زیادہ مراعات رکھتا ہے .
انہوں نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری پروٹوکول ختم کردیا جائے تو امن و امان میں بہتری آسکتی ہے.طبقہ اشرافیہ کو چونکہ اس لوٹ مار کی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، ان کو یہ تمام سہولیات میسر ہوتی ہیں. کچھ ایسے بھی ہیں جو بلٹ پروف گاڑی بھی رکھتے ہیں. تو انہیں شہریوں کو درپیش بدامنی اور لوٹ مار میں قتل غارت جیسے مسئلے پہ کوئی پریشانی نہیں ہوتی .وہ پیر کو ادارہ نورحق میں پریس کانفرنس کررہے تھے.
جبکہ انکا کہنا تھا کہ شہر میں مقامی پولیس افسران تعینات کیا جانا چاہیے اس سے بھی شہر میں بے قابو امن و امان کا مسئلہ حل ہونے کے امکانات ہیں ، انہوں نے سوال اٹھایا کہ ثابت کیا جائے کتنے پولیس افسران اور اہلکار کا تعلق کراچی سے ہے. انکا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ قومیت یا تعصب کا نہیں بلکہ شہر کو اون کرنے کا ہے ، اگر مقامی پولیس افسران ہونگے تو انہیں جوابدہی کا احساس بھی زیادہ ہوگا. انہوں نے ایک سوال کے جواب میں وضاحت کی کہ کراچی کے مقامی سے یہ مراد نہیں کہ صرف اردو اسپیکنگ کی بات کی جارہی ہے بلکہ جو کراچی میں قانونی طور پر رہائشی ہے وہ کراچی کا مقامی شہری ہے جس میں سندھی پنجابی سرائیکی پختون برادری سمیت تمام برادریاں شامل ہیں.
Comments are closed.