اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت مکمل کرلی اور فیصلہ محفوظ کرلیا، کل سنایا جائے گا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسے حالات بھی ہوسکتے ہیں جب انتخابات ملتوی کیے جاسکیں، وفاقی حکومت نے ایسا کوئی مواد نہیں دیا جس پر الیکشن ملتوی ہوسکیں، اصل مسئلہ سیکیورٹی ایشو ہے۔ عدالت عظمیٰ نے سیکریٹری دفاع کو رپورٹ جمع کرانے کیلئے کل تک مہلت دے دی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ کیا الیکشن کمیشن کو جنگ لڑنے والے اہلکار درکار ہیں، سوال یہ ہے 8 اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہوجائے گا؟، فوج مصروف ہے تو نیوی اور ایئر فورس سے مدد لی جاسکتی ہے۔ سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر حکومت کو 157 ارب روپے خسارہ تھا، وہ 177 ارب ہوجاتا تو کیا ہوجاتا۔ چیف جسٹس نے سیاسی جماعتوں کو ہدایت کی ہے کہ اگر عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ایک طرف بینچ پر اعتراض کرتے ہیں پھر کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں۔ **
پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق کیس میں عدالت عظمیٰ نے سيکريٹری دفاع اور سيکريٹری خزانہ کو طلب کر رکھا ہے، سياسی جماعتوں کے وکلاء کی جانب سے عدالتی بائيکاٹ کے اعلان کا امکان ہے، کارروائی مکمل ہونے پر آج مختصر حکم نامہ بھی سنايا جاسکتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ صورتحال سب کیلئے ہی مشکل ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کہاں ہیں؟، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکریٹری خزانہ رپورٹ کے ہمراہ عدالت میں موجود ہیں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اصل مسئلہ سیکیورٹی ایشو ہے، دونوں افسران کو سن کر بھیج دیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا نہیں نیوی اور ایئر فورس کا بھی ہے، بری فوج مصروف ہے تو نیوی اور ایئر فورس سے مدد لی جاسکتی ہے، الیکشن کمیشن کہتا ہے 50 فیصد پولنگ اسٹیشنز محفوظ ہیں، فوج کا ہر یونٹ یا شعبہ جنگ کیلئے نہیں ہوتا، عدالت نے وہ کام کرنا ہے جو کھلی عدالت میں ہو، کوئی حساس چیز سامنے آئی تو چیمبر میں سن لیں گے، کوئی آکر کہے تو سہی کہ اتنے سیکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت ہے۔
سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمود الزمان روسٹرم پر آگئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حساس معلومات نہیں لیں گے، مجموعی صورتحال بتا دیں، فی الحال پنجاب کا بتائیں کیونکہ خیبرپختونخوا میں ابھی تاریخ ہی نہیں، انہوں نے پوچھا کہ کیا پنجاب میں سیکیورٹی حالات سنگین ہیں؟۔
عدالت نے تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر کو روسٹرم پر بلا لیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ ان چیمبر سماعت پر آپ کا کیا مؤقف ہے؟، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ اہلکار ملیں تو انتحابات کرا سکتے ہیں، سیکیورٹی اہلکار صرف ایک دن کیلئے دستیاب ہوسکتے ہیں، سیکیورٹی کا ایشو رہے گا، آئینی ضرورت 90 دن کی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی اہلکار کون دے گا؟، سوال یہ ہے کہ 8 اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا؟، کیا الیکشن کمیشن کو جنگ لڑنے والے اہلکار درکار ہیں؟۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ریٹائرڈ لوگوں کی بھی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
چیف جسٹس نے وقفہ کرنے سے قبل سیکریٹری خزانہ کو دوبارہ بلالیا، جسٹس عمر عطاء بندیال نے سر بمہر لفافوں میں رپورٹ فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔ انہوں نے کہا کہ جائزہ لے کر مواد واپس کر دیں گے، کوئی سوال ہوا تو آپ سے اس کا جواب لے لیں گے، آپ چاہیں تو جواب تحریری بھی دے سکتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سمجھتے ہیں حساس معاملات عام نہیں ہونے چاہئیں، سیکیورٹی اہلکاروں، عوام کیلئے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حساس ترین معلومات کا جائزہ میں بھی نہیں لینا چاہوں گا، اس مقدمے میں سیکیورٹی ایشو دیکھنا ضروری نہیں۔
سیکریٹری دفاع نے بتایا کہ ریزرو فورس کی طلبی کیلئے وقت درکار ہوتا ہے، ریزرو فورس کی تربیت بھی کی جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فوج کی بڑی تعداد سرحدوں پر بھی تعینات ہے، الیکشن ڈیوٹی کیلئے جنگ لڑنے والے اہلکاروں کی ضرورت نہیں ہوتی، الیکشن کل نہیں ہونے، پورا شیڈول آئے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حساس سیکیورٹی صورتحال والے علاقوں کی نشاندہی کریں، الیکشن کمیشن نے 45 فیصد پولنگ اسٹیشنز کو حساس قرار دیا، جھنگ ضلع پہلے حساس ہوتا تھا اب نہیں، جنوبی پنجاب اور کچے کا علاقہ بھی حساس تصور ہوتا ہے۔
عدالت نے سیکریٹری دفاع سے 2 گھنٹے میں تحریری رپورٹ طلب کرلی، چیف جسٹس نے سیکریٹری دفاع کو ہدایت کی کہ اپنی پوری کوشش کریں۔ سیکریٹری دفاع نے کل تک مہلت مانگ لی، عدالت نے سیکریٹری دفاع کو کل تک کی مہلت دیدی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جو زبانی بریفنگ دینا چاہتے ہیں وہ لکھ کر دے دیں۔
سیکریٹری خزانہ طبعیت ناساز ہونے کی وجہ سے عدالت میں پیش نہیں ہوئے ان کی جگہ ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ عامر محمود نے رپورٹ عدالت میں پیش کردی، جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا یہ رپورٹ بھی حساس ہے؟، اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکرٹری خزانہ کی رپورٹ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے تناظر میں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے، کرنٹ اکاؤنٹ اور مالی خسارہ کم کیا جارہا ہوگا، آمدن بڑھا کر اور اخراجات کم کرکے خسارہ کم کیا جاسکتا ہے، کون سا ترقیاتی منصوبہ 20 ارب روپے سے کم ہے؟، درخواست گزار کے مطابق ارکان کو 170 ارب روپے کا فنڈ دیا جارہا ہے۔
ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ نے عدالت کو بتایا کہ 170 ارب روپے جمع کرنے کیلئے نئے ٹیکس لگائے گئے، جسٹس منیب نے پوچھا کہ 20 ارب روپے دینے سے بجٹ پر کتنے فیصد فرق پڑے گا، کیا کھربوں روپے کے بجٹ سے 20 ارب روپے نکالنا ممکن نہیں؟، وزیر خزانہ کا بیان تھا کہ فروری میں 500 ارب روپے سے زائد کا ٹیکس جمع ہوا، اندازہ ہے کہ بجٹ خسارہ ابھی موجود ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر حکومت کو 157 ارب روپے خسارہ تھا، وہ 177 ارب ہوجاتا تو کیا ہوجاتا۔ ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ خسارہ طے ہوچکا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ کیا تنخواہوں میں کمی نہیں کی جاسکتی؟، ججز سے تنخواہیں کم کرنا کیوں شروع نہیں کرتے، قانونی رکاوٹ ہے تو اسے عدالت ختم کردے گی، 5 فیصد تنخواہ 3 اقساط میں کاٹی جاسکتی ہے، الیکشن کمیشن کو بھی اخراجات کم کرنے کا کہیں گے، کون سا مالی امور کا ماہر عدالت کو بریف کرے گا۔
چیف جسٹس نے عرفان قادر کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کس نے کہا ہم نے طے کرلیا ہے۔ عرفان قادر نے کہا کہ عدالت سوشل میڈیا پر چلنے والی باتوں کا بھی نوٹس لے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سوموٹو نہیں لیں گے، آپ درخواست دیں۔
اسد عمر نے عدالت کو بتایا کہ پہلے پانچ ماہ میں 5700 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں، ٹوٹل بجٹ 9500 ارب روپے پر مشتمل ہے، آئی ایم ایف خسارے کا ٹارگٹ جی ڈی پی کے حساب سے طے کرتا ہے، خسارے کا ٹارگٹ جی ڈی پی 4.97 فیصد ہے، 20 ارب روپے کا خسارے کے ٹارگٹ سے کوئی تعلق نہیں۔
پی ٹی آئی رہنماء اور سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے مزید کہا کہ ترقیاتی اخراجات 700 ارب روپے ہیں، 450 ارب روپے خرچ ہونا باقی ہیں، حکومت نے 8 ماہ میں صرف 200 ارب روپے خرچ کئے ہیں، ترقیاتی اسکیموں کیلئے حکومت نے مزید 8 ارب روپے اخراجات میں شامل کئے ہیں، کیسے ممکن ہے 700 ارب روپے کے بجٹ سے 21 ارب روپے نہ نکالے جاسکتے ہوں، آئینی تقاضہ اہم ہے یا سڑکیں بنانا؟، اس سے بڑا کوئی مذاق نہیں ہو سکتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن پہلے ہوجائیں تو پورا 450 ارب بچ سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت ہچکچاہٹ کا شکار ہے، ترقیاتی اخراجات کم نہیں کرنے تو غیر ترقیاتی اخراجات کم کر دیں۔ سیکریٹری خزانہ نے بتایا کہ آپریشنل اخراجات اور تنخواہیں ہی غیر ترقیاتی اخراجات ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ حکومت نے اخراجات کم کرنے کیلئے اقدامات کئے ہیں؟۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آئینی تقاضہ پورا کرنے کیلئے آرٹیکل 254 ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ مثال بن گئی تو ہمیشہ مالی مشکلات پر الیکشن نہیں ہوا کریں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پیسے رکھیں گے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل عرفان قادر نے دلائل کا آغاز کردیا۔ انہوں نے کہا کہ کوشش ہے اپنی بات مختصر رکھوں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کتنی دیر دلائل دیں گے۔ عرفان قادر نے کہا کہ میں کوشش کروں گا 30 منٹ میں اپنی بات مکمل کرلوں۔
انہوں نے کہا کہ اگر جج پر اعتراض ہو تو وہ بینچ سے الگ ہوجاتے ہیں، ایک طرف ایک جماعت دوسری طرف تمام جماعتیں ہیں، بینچ سے جانبداری منسوب کی جارہی ہے، پوری پی ڈی ایم ماضی میں بھی فل کورٹ کا مطالبہ کرچکی ہے۔
عرفان قادر کا کہنا ہے کہ فل کورٹ پر عدالت اپنی رائے دے چکی ہے، عدالت پر عدم اعتماد نہیں انصاف ہوتا نظر آنا چاہئے، عدالت کا ایک فیصلہ پہلے ہی تنازع کا شکار ہے، فی الحال انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا، ممکن ہے کچھ غلط فہمی ہو۔
عرفان قادر نے دلائل دیئے کہ 9 میں سے 4 ججز نے درخواستیں خارج کیں، 3 ججز نے حکم جاری کیا، یکم مارچ کا عدالتی حکم اقلیتی نوٹ تھا، عدالت اس تنازعہ کو حل کرنے کیلئے اقدامات کرے، فیصلے کے تناسب کا تنازع ججز کا اندرونی معاملہ نہیں ہے، درخواستیں خارج کرنے والے چاروں ججز کو بھی بینچ میں شامل کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سرکلر سے عدالتی فیصلے کا اثر ذائل نہیں کیا جاسکتا، چیف جسٹس اپنے سرکلر پر خود جج نہیں بن سکتے، عوام کا عدلیہ پر اعتماد ہونا لازمی ہے، ایک گروپ کے بنیادی حقوق پر اکثریت کے حقوق کو ترجیح دینی چاہئے، قومی مفاد آئین اور قانون پر عمل درآمد میں ہے، آئین میں 90 دن میں انتخابات ہونا الگ چیز ہے، ملک میں کئی سال سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اکٹھے ہوتے ہیں، ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ ہونا چاہئیں۔
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ہائیکورٹس میں مقدمات کی سماعت روکنا آئین کے مطابق نہیں، خیبر پختونخوا میں گورنر نے الیکشن کی تاریخ دیدی ہے، پنجاب میں صدر کو تاریخ دینے کا حکم قانون و آئین کے مطابق نہیں، صدر آزادانہ طور پر کوئی فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ والے فیصلے کے نتیجے میں ایک جج نے سماعت سے معذرت کی، عرفان قادر نے کیس سے متعلق نکات اٹھائے ہیں، آپ نے ایک اہم نکتہ اٹھایا ہے جو میں دوبارہ نہیں اٹھاؤں گا، ہم صرف اللہ سے خیر مانگتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن کو 5 رکنی بینچ میں شامل نہیں کیا گیا تھا، مناسب ہوتا شفافیت کیلئے جسٹس اعجاز الاحسن کو بینچ میں شامل نہ کیا جاتا۔ چیف جسٹس نے جواب دیا کہ جو سوچ کر میں نے بینچ بنایا وہ بتانے کا پابند نہیں ہوں، جوڈیشل ریکارڈ سے دکھائیں جسٹس اعجاز الاحسن کب بینچ سے الگ ہوئے؟۔ عرفان قادر کا کہنا تھا کہ ایک جج صاحب نے نوٹ میں لکھا کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے معذرت کی۔ چیف جسٹص نے کہا کہ جن ججز نے سماعت سے معذرت کی ان کے حکمنامے ریکارڈ کا حصہ ہیں، بینچ سے کسی جج کو نکالا نہیں جاسکتا یہ قانون کا اصول ہے۔
عرفان قادر کا کہنا ہے کہ ہر مرتبہ ججز کی معذرت کرنے کا آرڈر نہیں ہوتا، کئی مرتبہ 3 ججز اٹھ کر جاتے تھے اور 2 ججز واپس آتے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح کی تجویز عدالت کو کبھی نہ دیں، الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ون مین شو کس کو کہا گیا ہے اس کی وضاحت ضروری ہے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے پوچھا تھا ون مین شو کس کو کہا، انہوں نے جواب دیا کہ عمومی بات کی آپ کو نہیں کہا تھا۔
پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دینے کی اجازت مانگی جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بینچ پر اعتماد نہیں تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں؟۔ عدالت عظمیٰ نے سیاسی جماعتوں کے وکلاء کو سننے سے انکار کردیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت میں شامل جماعتوں نے 3 رکنی بینچ پر عدم اعتماد کیا ہے، آپ ذاتی حیثیت میں نہیں آئے سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کررہے ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کا وکالت نامہ ذاتی حیثیت میں نہیں ہے، ن لیگ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے اعلامیہ عدالتی عملے نے نکال کردیا۔
اکرم شیخ نے کہا کہ میں دلائل نہیں دے سکتا تو کیا آرٹیکل لکھوں؟ عدالت نے کبھی مجھے مایوس واپس نہیں بھیجا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تحریری معروضات دے دیں جائزہ لے لیں گے۔
اظہر صدیق کا کہنا ہے کہ کہا گیا لاہور اور پشاور ہائیکورٹ میں مقدمات زیر التواء ہیں، کسی ہائیکورٹ میں مقدمہ زیر التواء نہیں، چیف جسٹس نے پوچھا کہ سیکریٹری دفاع دستاویزات کب تک دیں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج کسی بھی وقت عدالت کو دستاویزات دے دیں گے۔
بیرسٹر علی ظفر نے پوچھا کہ الیکشن کمیشن نے نہیں بتایا کہ اسے الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار کہاں سے ملا، چیف جسٹس نے کہا کہ سجیل سواتی نے سیکشن 58 کا حوالہ دیا تھا۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن ایکٹ آئین سے بالاتر نہیں ہو سکتا، الیکشن کمیشن نے اپنے حکم میں آرٹیکل 218 تین کا حوالہ دیا، آرٹیکل 218 تین الیکشن کروانے کا پابند بناتا ہے، الیکشن کمیشن آئین سے بالاتر کوئی کام نہیں کر سکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین اور قانون واضح ہے کہ انتخابات کی تاریخ کون دے گا، عرفان قادر نے کہا صدر حکومت کی سفارش کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے پوچھا کہ کیا صدر الیکشن کی تاریخ ایڈوائس کے بغیر دے سکتے ہیں، عدالت آئین اور قانون کے مطابق انصاف کیلئے بیٹھی ہے، سیاسی مقدمات میں سیاسی ایجنڈا سامنے آتا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل نے اس نکتے پر گفتگو نہیں کی، ٹارنی جنرل سے گلہ ہے کہ وہ چار تین پر ہی زور دیتے رہے، اس نکتے پر اپنے تحریری دلائل جمع کروائیں۔
علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنے طور پر انتخابات کی تاریخ تبدیل نہیں کرسکتا، کے پی کے میں گورنر نے الیکشن کی تاریخ دینی ہے، کیا الیکشن کمیشن گورنر کی تاریخ بدل سکتا ہے؟، میری نظر میں الیکشن کمیشن آئین سے بالاتر اقدامات نہیں کرسکتا، بلدیاتی انتخابات میں الیکشن کمیشن تاریخ مقرر کرتا ہے، الیکشن کمیشن نے سارا ملبہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر ڈالا ہے، ای سی پی کے وکیل نے کہا وسائل مل جائیں تو الیکشن کیلئے تیار ہیں، سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری پوری کرنے کو تیار ہے۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہا کہ ایسے حالات بھی ہوسکتے ہیں جب انتخابات ملتوی ہوسکیں، وفاقی حکومت نے ایسا کوئی مواد نہیں دیا جس پر الیکشن ملتوی ہوسکیں، انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا، عدالت نے توازن قائم کرنا ہوتا ہے، حکومت اور دیگر فریقین کی درست معاونت نہیں ملی، حکومت نے الیکشن کروانے کی آمادگی ہی نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں عدالت اسمبلی کی تحلیل کالعدم قرار دے چکی ہے، ماضی میں حالات مختلف تھے، ملک میں کوئی سیاسی مذاکرات نہیں ہو رہے، رکاوٹوں سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلے کے وقت سے آگاہ کر دیا جائے گا، وزارت دفاع اور وزارت خزانہ کی وجوہات بھی دیکھیں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ کی کافی رقم خرچ ہو چکی ہے۔ جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کو اس حوالے سے وضاحت دینا ہوگی، عوام کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن میں بدمزگی ہوئی تو ملبہ عدالت پر آئے گا، سیاسی مذاکرات کا آپشن اسی لئے دیا گیا تھا، آئین واضح ہے کہ الیکشن کب ہونے ہیں، مذاکرات کے آپشن کا کوئی جواب نہیں آیا، لوگ کہتے ہیں وہ آئین سے بالاتر ہیں، لوگ من پسند ججز سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسی نے ایسا نہیں کیا، چیف جسٹس نے کہا کہ ججز والی بات آپ نے اور عرفان قادر نے کی، عدالت نے بات سنی اس پر ردعمل نہیں دیں گے، پارلیمنٹ اور حکومت کا احترام کرتے ہیں، بحران آئے تو سیاسی حل نکالا جاتا ہے۔
ابتدائی سماعت کے دوران چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطاء بندیال نے پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک سے پوچھا کہ کیا آپ کارروائی کا حصہ بننا چاہتے ہیں؟، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ جی ہم کارروائی کا حصہ ہیں۔
پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم نے تو بائیکاٹ کیا ہی نہیں تھا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اخبار میں تو کچھ اور لکھا تھا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ایک طرف بینچ پر اعتراض کرتے ہیں پھر کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں، حکومتی اتحاد کے اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں، جو زبان استعمال کی گئی۔
جمعیت علماء اسلام کے وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ہمارے تحفظات بینچ پر ہیں۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر تحفظات ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر بائیکاٹ کرنا ہے تو عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بنیں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے سیاسی جماعتوں کو ہدایت کی کہ بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں۔
مسلم لیگ ن کے وکیل نے کہا کہ وکالت نامہ واپس لینے تک وکیل دلائل دے سکتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے جواب دیا کہ وکالت نامہ دینے والوں نے ہی عدم اعتماد کیا ہے۔ اکرم شیخ بولے کہ وکیلوں کا عدالت آنا ہی ان کا اعتماد ظاہر کرتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں؟، حکومت عدالت کا بائیکاٹ نہیں کرسکتی۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ جی ہاں حکومت بائیکاٹ نہیں کرسکتی، حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے۔ جس پر جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا تھا کہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے ایسی ہی توقع تھی۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ بینچ کے دائرہ اختیار پر بھی تحفظات ہیں۔ جسٹس منیب نے ریمارکس دیئے کہ گزشتہ 48 گھنٹے سے میڈیا کہہ رہا ہے کہ سیاسی جماعتیں بینچ پر عدم اعتماد کررہی ہیں، ہم پر اعتماد نہیں تو ہمارے سامنے دلائل کیسے دے سکتے ہیں، اگر تو آپ نے اعلامیہ واپس لیا ہے تو آپ کو سن سکتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ درخواست میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ ہے، صدر کو کے پی میں تاریخ دینے کی بھی استدعا کی گئی ہے، عدالت نے پنجاب کیلئے صدر اور کے پی کیلئے گورنر کو تاریخ دینے کا کہا تھا، گورنر کے پی نے درخواست دائر ہونے تک تاریخ نہیں دی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے، قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، 1988ء میں بھی عدالتی حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گئے تھے، عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لیکر حکم جاری کرتی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا اس موقع پر کہنا تھا کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکمنامے کا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جس حکمنامے کا ذکر کررہے ہیں اس پر عملدرآمد ہوچکا ہے۔ جسٹس اعجاز نے مزید کہا کہ عدالتی حکم پر عمل کرنا الیکشن کمیشن پر لازم تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کا حکم برقرار رہا تو باقی استدعائیں ختم ہوجائیں گی۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پہلے راؤنڈ میں 9 رکنی بینچ نے مقدمہ سنا تھا، 21 فروری کو سماعت کا حکمنامہ آیا، 2 ججز کے اختلافات کی تفصیلات سامنے آچکی ہیں، 2 ججز نے پہلے ہی دن درخواستیں خارج کردی تھیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک جج نے درخواست خارج کی تھی، جسٹس اطہر من اللہ نے شاید نوٹ میں درخواست خارج کرنے کا نہیں لکھا۔
ایک موقع پر سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے کان میں لقمہ دیا جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا عرفان قادر اٹارنی جنرل کو بچانے آئے ہیں؟، عرفان قادر نے کہا صرف 15 سیکنڈز کا معاملہ ہے، جسٹس منیب نے کہا کہ آپ 3 منٹ سے 15 سیکنڈ پر آگئے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا چیف جسٹس کوئی بھی 5 ججز شامل نہیں کرسکتے تھے؟، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے مزید کہا کہ چیف جسٹس پہلے والے اراکین شامل کرنے کے پابند نہیں تھے، جس عدالتی فیصلے کا آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ اقلیتی ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یکم مارچ کو بھی کوئی عدالتی حکم نہیں تھا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں 5 رکنی بینچ بنا ہی نہیں تھا۔
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ اکثریتی رائے کس کی ہے؟، حل یہ ہے کہ جنھوں نے پہلے مقدمہ سنا وہ بینچ سے الگ ہوجائیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کا نکتہ نوٹ کرلیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ رجسٹرار آفس نے ایک سرکلر جاری کیا ہے، سرکلر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کے بعد جاری کیا گیا، عدالتی حکم یا فیصلے کو انتظامی سرکلر سے ختم نہیں کیا جاسکتا، عدالتی حکم نظرثانی یا کالعدم ہونے پر ہی ختم ہوسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سرکلر پر کسی فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا، فیصلے میں کچھ انتظامی ہدایات دی گئی تھیں، 184 تین کے مقدمات پر سماعت روکنے کے معاملے پر سرکلر آیا تھا، سرکلر میں لکھا ہے کہ 5 رکنی بینچ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ مقدمات سماعت کیلئے مقرر نہ کرنے کے انتظامی حکم پر سرکلر آیا ہے، جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے میں کوئی واضح حکم نہیں دیا گیا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ 184 تین کے تحت درخواستوں کے حوالے سے رولز موجود ہیں، ازخود نوٹس پر سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کا فیصلہ ب بھی موجود ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلے میں ہے کہ مناسب ہوگا 184 تین کے مقدمات کی سماعت روکی جائے، 29 مارچ کے فیصلے میں ہدایت نہیں بلکہ خواہش ظاہر کی گئی ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال کا مزید کہنا ہے کہ عوامی مفادات میں مقدمات پر فیصلے ہونا ہیں نہ کہ سماعت مؤخر کرنے سے، فیصلے میں تیسری کیٹیگری بنیادی حقوق کی ہے، بنیادی حقوق تو 184 تین کے ہر مقدمے میں ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا یہ آئینی درخواست نہیں ہے جس کے رولز بنے ہوئے ہیں؟، اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ موجودہ مقدمہ میں بنیادی حقوق کا ذکر ہے، موجودہ کیس تیسری کیٹیگری میں آسکتا ہے، رولز بننے تک سماعت موخر کی جائے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آئینی درخواست کے رولز بنے ہوئے ہیں تو کارروائی کیسے مؤخر کریں؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلے کو پھر بھی سرکلر کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ عدالت نے رواں سال میں پہلا سوموٹو نوٹس لیا تھا، 2 اسمبلیوں کے اسپیکرز کی درخواستیں آئی ہوئی تھیں، اسپیکر ایوان کا محافظ ہوتا ہے، ازخود نوٹس کیلئے بینچ کا نوٹ بھی پڑا ہوا تھا، ازخود نوٹس لینے میں ہمیشہ بہت احتیاط کی ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے مزید کہا کہ اس بات سے متفق نہیں کہ یہ مقدمہ دیگر 184 تین کے مقدمات سے مختلف ہے، جن کے رولز بنے ہیں ان مقدمات پر کیسے کارروائی روک دیں؟، 184 تین کے دائرہ اختیار پر بہت سخت طریقۂ کار بنایا ہوا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک جانب کہتے ہیں فل کورٹ بنائیں ساتھ کہتے ہیں سماعت نہ کریں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ کی استدعا جمعہ کو مسترد ہوچکی ہے۔ جسٹس منیب نے کہا کہ پہلے طے تو کرلیں سماعت ہوسکتی ہے یا نہیں؟ آپ کا مؤقف مان لیں تو فل کورٹ بھی سماعت نہیں کرسکتا، فل کورٹ کی استدعا فی الوقت مسترد کی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز فیصلے پر دستخط کرنے والے جج نے خود کو بینچ سے الگ کیا، کیسے ہوسکتا ہے فیصلہ لکھنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مقدمہ سنیں؟، جسٹس امین الدین خان نے فیصلے پر صرف دستخط کئے تھے، سماعت سے معذرت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ ہوگا، سماعت سے انکار تو فرض نہیں کیا جاتا، یہ جوڈیشل آرڈر ہوتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام 15 ججز مختلف آراء اپنانے پر مقدمہ نہیں سن سکتے، آپ نے معاملہ فہم ہوتے ہوئے دوبارہ فل کورٹ کی استدعا نہیں کی، آپ کی زیادہ سے زیادہ استدعا لارجر بینچ کی ہوسکتی ہے۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ لارجر بینچ کی استدعا آگے جاکر کروں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی جج کو بینچ سے نکالا گیا نہ کوئی رضاکارانہ الگ ہوا، 9 ارکان نے چیف جسٹس کو معاملہ بھجوایا تھا، 27 فروری کے 9 ججز کے حکم نامے سے دکھائیں بینچ سے کون الگ ہوا؟، عدالتی ریکارڈ کے مطابق کسی جج نے سماعت سے معذرت نہیں کی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا حکم خوبصورت لکھا گیا ہے، فل کورٹ میٹنگ فائدہ مند ہوسکتی ہے لیکن فل بینچ نہیں۔
جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا ہے کہ گزشتہ 3 دن کے دوران میں نے سینیر ججز سے ملاقاتیں کی ہیں، لارجر بینچ کے نکتے پر دلائل دینا چاہیں تو ضرور دیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو ججز 9 رکنی بینچ کا حصہ نہیں تھے ان پر مشتمل بینچ بنایا جائے، تین دو اور چار تین کا فیصلہ باقی 2 ججز کو کرنے دیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک فیصلہ تین رکنی اکثریت نے دیا ایک 2 رکنی اقلیت نے دیا، بنیادی اصول مقدمہ کی سماعت ہے، سنے بغیر فیصلہ محدود نوعیت کا ہی ہوسکتا ہے، سماعت کے بعد کئے گئے فیصلے کا ہی وجود ہوتا ہے، کورٹ فیس ادا نہ کرنے پر بھی تو مقدمہ خارج ہوجاتا ہے، نظرثانی اکثریتی فیصلے کی ہوتی ہے، جن ججز کے نوٹ کا حوالہ دے رہے ہیں کیا وہ 5 رکنی بینچ میں تھے؟۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عدالتی حکم کے بغیر کوئی فیصلہ قابل عمل نہیں ہوتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 2 الگ الگ بینچز نے الگ الگ کارروائی کی تھی۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آپ احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے بہترین دلائل دے رہے ہیں۔
وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی کی درخواست خارج کرنے کی استدعا کردی ہے۔ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ بینچ پر اعتراض بھی اٹھایا۔ اٹارنی جنرل کی جانب سے متفرق درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی گئی۔
Comments are closed.