اسلام آباد: وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان امریکا کے ساتھ اچھے اور پرجوش تعلقات کا خواہاں ہے۔
ایک انٹرویو میں وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ حکومت کے غیرضروری اقدامات پاکستان کے خودمختار مفادات کے لیے نقصان دہ تھے۔ موسمیاتی اثرات سے آنے والی نسلوں کو بچانے کے لیے عالمی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ اور ورلڈ بینک کے اعلی حکام سے سیلاب کی صورتحال بہتر ہونے تک قرضوں کی ادائیگی اور دیگرشرائط کو موخر کرنے کی استدعا کی ہے۔ طالبان کے پاس دوحہ معاہدے کی پاسداری کرکے افغانستان میں امن اور ترقی کو یقینی بنانے کا سنہری موقع ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اقوام متحدہ اور دنیا کو بتایا ہے کہ موسمی اثرات کی وجہ سے جن سیلابی تباہ کاروں کا پاکستان کو سامنا ہے کل یہ سانحہ کسی اور ملک کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ جنرل اسمبلی میں شریک عالمی رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کی حفاظت کے لیے لچک دار انفرا اسٹرکچر اور موافقت کے لیے ایک ساتھ کھڑے ہوں اور اس کے لیے وسائل اکٹھے کریں۔ انہوں نے کہا کہ 3 ماہ کی سیلابی تباہی سے پاکستان کی معیشت کو 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے فوری ڈونر کانفرنس کے انعقاد کی استدعا کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پر موسماکتی تبدیلی کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔ سیکڑوں بچوں سمیت 1600 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔ 40 لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں، لاکھوں مکانوں کو نقصان پہنچا، ان کی زندگی کی جمع پونجی ختم ہوگئی، ہزاروں کلومیٹر سڑکیں تباہ ہوگئیں، ریلوے پل، ریلوے ٹریک، مواصلات کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ اس سب کی بحالی کیلئے فنڈز درکار ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان عالمی حدت کا سبب بننے والے عالمی حدت کا ایک فیصد سے بھی کم اخراج کا ذمہ دار ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ جون کے وسط میں سیلاب شروع ہونے سے پہلے پاکستان میں اناج کی قلت اور خام تیل کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کی وجہ سے شدید چیلنجز کا سامنا تھا جو بنیادی طور پر روس یوکرین تنازع کی وجہ سے ہواتھا۔ انہوں نے کہا کہ آسمان کو چھوتی تیل کی قیمتوں کی وجہ سے اس کی درآمد ہماری استعداد سے باہر ہوگئی تھی، بڑے پیمانے پر سالنب سے ہونے والی تباہی نے ان چیلنجز کو مزید بڑھا دیا۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ دنیا بھر سے ملنے والی امدادکو انتہائی مضبوط اور شفاف طریقہ کار کے تحت ضرورت مند لوگوں تک پہنچایا جائے گا جبکہ بین الاقوامی معروف کمپنیوں کے ذریعے تھرڈ پارٹی آڈٹ بھی یقینی بنایا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اور ورلڈ بنک کے اعلی حکام سے ملاقات میں سیلاب کی صورتحال بہتر ہونے تک پاکستان کے ذمہ واجب الادا قرضوں کی ادائیگی اور دیگر شرائط کو موخر کرنے کی اپیل کی۔ اس کے پاکستان کی معیشت اورعوام پر اچھے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ بہت معاون لگ رہے تھے۔
وزیراعظم نے کہا کہ زرعی زمین کی تباہی کی وجہ سے پاکستان کو تقریبا 10 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنا پڑ سکتی ہے۔ ملک کو کھاد کی ضرورت ہے کیونکہ کارخانے بند ہیں۔ بھارت کو سمجھنا چاہئے کہ جب تک کشمیر کا سلگتا ہوا تنازع پرامن مذاکرات کے ذریعے حل نہیں کیا جاتا ہم امن سے نہیں رہ سکتے۔ افغانستان کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ طالبان کے پاس دوحہ معاہدے کی پاسداری کرکے لوگوں کیلئے امن اورترقی کو یقینی بنانے کا ایک سنہری موقع ہے، افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان امریکا کے ساتھ اچھے اور پرجوش تعلقات چاہتا ہے۔ گزشتہ حکومت نے اس سلسلہ میں جو کچھ کیا وہ سب غیرضروری تھا اور یہ پاکستان کے خودمختار مفادات کیلئے نقصان دہ تھا، یہ سب کچھ پاکستان کے عوام کی توقعات کے مطابق نہیں تھا۔
You might also like
Comments are closed.